سدرہ سعید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچپن کے وہ دن بھی کیا دن تھے، جب میں اور میری سائیکل گہرے ساتھی تھے ۔ ہم بہن بھائی اور کزنز روزانہ ایک دو گھنٹے سائیکل ضرور چلاتے تھے، ساتھ پڑوس کے دوست بھی شامل ہو جاتے تھے۔ سائیکلوں پر ریس لگاتے تھے، اپنوں کی طرح اس کا خیال رکھتے تھے ، 14 اگست اور 12 ربیع الاول کے موقع پر جب گلی محلے سجتے تب ہماری سائیکلیں بھی سجا کرتی تھیں اور پھر ہم سائیکل ریلی بھی نکالتے تھے۔ گھروں کی بیل بجا کر بھاگنے کا کام بھی سائیکل کے ساتھ ہی انجام دیا جاتا تھا۔ یہ لکھتے ہوئے بچپن کی یادیں تصورات میں گھومنے لگی ہیں۔
میری طرح آپ سب کی بھی یادیں اپنی اپنی سائیکل سے وابستہ ہوں گی۔ ہمارے بزرگوں کو تو سائیکل چلانے کا موقع زیادہ ملا ۔ ان کے وقت میں سائیکل چلانے کا رواج تھا۔ یہاں تک کہ بزرگ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ جس نے سائیکل چلانا نہیں سیکھی وہ کبھی کوئی مشینری عمدگی سے چلانا نہیں سیکھ سکتا۔ سائیکل اس وقت فیشن کا حصہ تھی جیسا کہ اب گاڑی یا موٹر سائیکل ہمارے فیشن کا حصہ ہے ۔ وقت کے ارتقا ء کے ساتھ ساتھ سائیکل بھی راستے میں ہمارا ساتھ چھوڑ گئی۔
اب سائیکل کی اہمیت دوبارہ سے لوٹ رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے سائیکل بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ ایک تو الیکٹرک گاڑیوں کے عام استعمال میں ابھی وقت لگے گا دوسرا اس مہنگائی کے دور میں لوگوں کے پاس مشکل سے اناج خریدنے اور علاج کروانے کے لیے پیسے ہیں وہ کہاں سے مہنگی الیکٹرک گاڑیاں خریدیں گے۔ ٹریفک کےبے ہنگم شور، گاڑیوں کے باعث فضا ء میں زہریلے دھوئیں اور روز روز پیٹرول کی بڑھتی قمیتوں سے بچنے کے لیے سائیکل کا استعمال عام کرنا ہوگا۔
دیکھا جائے تو سائیکل چلانے میں جہاں لطف اندوز ہوا جاتا ہے وہی ساتھ کے ساتھ ورزش بھی ہوتی ہے اور ماحول پر بھی اس کا مثبت اثر پڑتا ہے۔
پاکستان میں این جی اوز کی جانب سے ماحول دوست سواری کو فروغ دینے کے ایونٹس کروائے جارہے ہیں۔ لیکن جب تک حکومتی سطح پر سائیکلنگ کے فروغ کے لیےکام نہیں ہو گا بات نہیں بنے گی۔ یورپی ممالک سے ہی کچھ سیکھ لیں۔ ڈنمارک، ہالینڈ، بیلجیم، پیرس، سویڈن، ناروے، جرمنی، اسپین اور سوئٹزرلینڈ، ان سب کی حکومتیں سائیکلنگ کے فروغ کے لیے سرمایہ کاری کر رہی ہیں ۔
اس کی یہ وجہ نہیں کہ ان کے پاس گاڑیاں نہیں بلکہ انہوں نے وقت کی ضرورت کو جان لیا ہے۔ جس طرح ہم گاڑیوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں اور فضائی آلودگی کے بھنور میں پھنس گئے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ سائیکل کو میدان میں لائیں۔ ماحول دوست سواری کو فروغ دیا جائے۔ سائیکل کا استعمال جسمانی صحت کے علاوہ ذہنی صحت کے لیے بھی نہایت مفید ہے۔ اس سے ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے جبکہ بڑی تعداد میں کیلوریز جلائی جاسکتی ہیں۔
پہلےجب لوگ تیل سے بھری خوراک کھاتے تھے تو ان کی صحت پر وہ اتنا برا اثر نہیں کرتی تھی جتنا کہ اب۔ لوگوں کی قوت معدافعت بھی بہترین تھی اور اس کی ایک وجہ سائیکل چلانا بھی تھی۔ سائیکل چلانے سے آپکا پورا جسم ورزش کرتا ہے۔
گھر میں ورزش کے لیے لائی گئی ایک سٹینڈ پر کھڑی سائیکل کا فائدہ خواتین کو تو ہو سکتا ہے جو ہمارے معاشرے میں سڑک پر سائیکل نہیں چلا سکتی ۔ لیکن مردوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اپنے بڑھتے ہوئے پیٹ کو کم کرنے کے لیے سائیکل خریدیں ۔ گھر کے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے اسی کا استعمال کریں۔ اگر یورپ کی طرح سائیکل کے استعمال کو پاکستان میں بھی اپنایا جائے تو ہم سب کی زندگیوں میں ایک بڑی تبدیلی آئے گی۔
حکومت کو چایئے جس طرح بلین ٹری کا منصوبہ شروع کیا ہے اسی طرح سائیکل کے استعمال کو بھی فروغ دیا جائے۔ سائیکل کی صعنت کو سہارا دیں۔ جس طرح دوسرے ممالک سائیکل کا نظام موبائل ایپ کے ذریعے اپنے شہروں میں چلا رہے ہیں پاکستان میں بھی اس کومتعارف کروایا جائے۔
سائیکل کے لیے میٹرو اسٹیشنز پر ہی اسٹینڈز بنا دیے جائیں جہاں موبائل ایپ کے ذریعے سائیکل کرائے پر بھی مل جائے، سڑکوں پر سائیکل لین ہو، اور طالب علموں کو انعامات میں سائیکل دی جائے۔ جس طرح پہلے اسکول اور کالجز میں موٹر سائیکل لانے کی اجازت نہیں تھی اس پابندی کو دوبارہ لگایا جائے اور بچوں کو سائیکل کے استعمال کا پابند کیا جائے۔ سائیکل کے استعمال سے بچے چست رہتے ہیں۔سائیکلوں کی قیمت کم کریں تا کہ غریب بندہ بھی سائیکل خرید سکے۔ انسان اپنے ماحول کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہم سب کو بھی ماحول دوست شہری بننے کی ضرورت ہے۔
۔
یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اردو پر شائع ہوچکا ہے
یہ بھی پڑھیں:
گل ودھ گئی اے مختاریا!|| شمائلہ حسین
کون بنے گا استاد؟۔۔۔عفت حسن رضوی
بھٹو روس میں بھی زندہ ہے ۔۔۔ طیب بلوچ
بلاول: جبر و استبداد میں جکڑی عوام کا مسیحا ۔۔۔ طیب بلوچ
سلیکٹرز آصف علی زرداری سے این آر او کیوں چاہتے ہیں؟ ۔۔۔طیب بلوچ
را کے مبینہ دہشتگردوں سے بھارتی جاسوس کی وکالت تک کا سفر ۔۔۔ طیب بلوچ
عالمی استعمار کے چابی والے کھلونے آصف علی زرداری کو کیوں مارنا چاہتے ہیں؟ ۔۔۔ طیب بلوچ
سدرہ سعید صحافی ہیں جو اور نیٹ ورک کے ساتھ بطور اسائمنٹ ایڈیٹر اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی