حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے دوست احمد طوری پشتون تاریخ، عصری شعوراور افغان صورتحال کے حوالے سے کبھی کبھی اپنی تحاریر سے نوازتے رہتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے افغانستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے تجزیہ رقم کیا۔ ان کے تجزیہ کو آپ تصویر کا دوسرا رخ بھی قرار دے سکتے ہیں۔ اپنے تجزیہ کی ابتدائی سطور میں احمد طوری لکھتے ہیں
’’واشنگٹن پوسٹ نے 13اپریل (رواں سال) کے اداریہ میں لکھا تھا کہ ’’مختصر سفارتی اور نیم دلانہ کوششوں کے بعد مسٹر جوبائیڈن نے افغانستان سے غیرمشروط انخلا کا فیصلہ کیا ہے جس سے امریکہ مزید اخراجات اور جانوں کے ضیاع سے بچ سکتا ہے لیکن یہ یقینی طور پر 39 ملین لوگوں کے ملک افغانستان کے لئے تباہی کا باعث ہوگا خصوصاً افغان خواتین کے لئے۔‘‘
ہم آگے بڑھتے ہیں، امریکہ نے افغانستان میں 20برس قیام فرمایا ان 20برسوں کے دوران کے جنگی اخراجات اور افغانستان کی تعمیر نو کیلئے فراہم کئے گئے فنڈ ہر دو کو شمار کریں اور پھر اگر اس رقم کو دنیا کے کسی ویران خطے پر خرچ کریں تو ایک جدید ترقی یافتہ ملک تعمیر ہوسکتا تھا لیکن 20سال بعد امریکی انخلا کے اعلان کے ساتھ ہی افغانستان 9/11 کے واقعہ سے قبل والے حالات کا منظرنامہ پیش کررہا ہے۔
ابتدائی سطور میں واشنگٹن پوسٹ کے اداریہ کا چند سطری اقتباس احمد طوری کی تحریر سے لیا ہے۔ کیا جن خدشات کا اظہار امریکہ کے موقر اخبار نے کیا وہ حرف بہ حرف درست ثابت نہیں ہورہے؟
یہاں ہمارے ماہرین افغان امور نے ات اٹھارکھی ہے وہ اس تلخ حقیقت کو سمجھ ہی نہیں رہے کہ زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔ طالبان کی سوشل میڈیا ٹیم کو ان کے پاکستانی ہم خیالوں کا تعاون حاصل ہے۔ باہمی تعاون سے کئے جانے والے اس پروپیگنڈے سے یہی لگتاہے کہ بس طالبان آگئے اور چھاگئے۔ کابل ریت کی دیوار ثابت ہوگا۔ لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ابھی یہ
فتوحات 90فیصد پشتون علاقوں میں ہیں۔
غیرپشتون علاقوں کے حوالے سے ان کے دعوے صداقت بھرے نہیں بلکہ پروپیگنڈے کا حصہ ہیں۔
یہ درست ہے کہ بعض مقامات پر افغان سکیورٹی فورسز نے کمزوری کا مظاہرہ کیا جیسا کہ تاجکستان کی سرحدی چوکیوں پر لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ غیرپشتون علاقوں میں انہیں سکیورٹی فورسز سے زیادہ عام شہریوں کے ردعمل اور مزاحمت کا سامنا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے ساتھ آزادانہ طور پر موصول ہونے والی اطلاعات بتارہی ہیں کہ غیرپشتون علاقوں میں مساجد سے باقاعدہ اعلانات ہورہے ہیں کہ طالبان کے خلاف مزاحمت کے لئے سکیورٹی فورسز کا ساتھ دو یا خود مزاحمتی گروپ تشکیل دے کر میدان میں اترو تاکہ طالبان اس تعمیرنو کو برباد نہ کرنے پائیں جو پچھلے برسوں میں ہوئی۔
نرم سے نرم الفاظ میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ افغانستان میں سب کچھ طالبان اور ان کے ہم خیالوں اور سرپرستوں کی مرضی کے مطابق نہیں ہورہا۔
طالبان کو ماضی کے مقابلہ میں زیادہ سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارے پالیسی ساز اور یہاں موجود طالبان کے ہم خیال اس حقیقت کو کیوں نظرانداز کررہے ہیں؟ یہ سوال اہم ہے۔
اسی طرح یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ کیا واقعی طالبان کابل تک پہنچ جائیں گے جیسا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ کا بڑا حصہ کہہ لکھ رہا ہے؟
اس سوال پر غور کرنے سے قبل یہ دیکھنا ہوگا کہ افغانستان کی موجودہ اور عمومی صورتحال کے حوالے سے ہمارے ذرائع ابلاغ کے اپنے ذرائع کیا ہیں؟
میں عرض کروں ان کے ذرائع چند رجعت پسند ویب سائٹس، طالبان کے دعوے اور سرپرستوں کی فراہم کردہ کہانیاں ہیں۔
یہاں ساعت بھر کے لئے سانس لیجئے ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔
جو پالیسی ساز، ہمالیہ یوٹیوب چینل اور ریڈیو کے گمراہ کن پروپیگنڈے کا دلیل اور شواہد کے ساتھ بروقت جواب دینے سے محروم ہوں وہ کم از کم ہمیں افغانستان کی صورتحال پر بھاشن دینے کی کوشش نہ کریں۔ کم لکھنے کو زیادہ جانیے۔
ہم پھر سے افغانستان چلتے ہیں۔ حالیہ دنوںمیں دو اہم باتیں سامنے آئیں اولاً یہ کہ امریکی پاکستان افغان سرحد کے قریب اپنا کوئی اڈا تعمیر کررہے ہیں۔ ثانیاً یہ کہ پاکستان نے یقین دہانی کروائی ہے کہ 9/11 کے بعد افغانستان کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ طے پائے معاملات سے روگردانی نہیں ہوگی۔
دونوں باتیں بہت اہم ہیں۔ ان کی تردید ریاست کے ماہرین افغان پالیسی اور وزارت خارجہ کا کام ہے۔
چند دن ادھر عرض کیا تھا کہ پاکستان میں افغان طالبان کے ہم خیال ادارے اور تنظیمیں پھر سے فعال ہوکر ہمنوائی میں پیش پیش ہیں اس کا نوٹس نہ لیا گیا تو یہی بات گلے پڑسکتی ہے۔
فیٹف کے اجلاس کا آج (25جون کو) آخری دن ہے پاکستان کے حوالے سے کیا فیصلہ ہوتا ہے شام تک سامنے آجائے گا۔ لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ طالبان کے پاکستانی ہم خیال مدارس اور تنظیموں کے حالیہ کردار کے حوالے سے عالمی ذرائع ابلاغ میں جو شائع ہورہا ہے اس کے حوالے سے ہماری حکمت عملی کیا ہے۔
مزید ستم وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے ایک حالیہ انٹرویو نے ڈھایا گو بعدازاں انہوں نے تردید تو کی کہ وہ طالبان کے ترجمان نہیں پاکستان کے وزیر خارجہ ہیں لیکن جن لوگوں نے افغان ٹی وی چینل ’’طلوع‘‘ کو دیا گیا ان کا انٹرویو سنا وہ اس بات سے متفق ہیں کہ قریشی صاحب اپنی کہی باتوں کے دائو میں ایسے پھنسے کہ نوجوان اینکر نے انہیں پڑھنے ڈال دیا۔
باردیگر عرض ہے کہ سب اچھا ہرگز نہیں خود طالبان کے لئے بھی۔ انہیں مزاحمت کا سامناکرنا پڑے گا جونہی غیرپشتون علاقوں میں مزاحمت شروع ہوئی پشتون علاقوں کے جمہوریت پسند اپنا وزن طالبان مخالف پلڑے میں ڈالیں گے۔
یوں اگر اس طرح عرض کیا جائے کہ
ہماری افغان پالیسی پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں، پتھروں اور بارود سے بھری ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔
گزشتہ روز آرمی چیف نے ترکی کا ایک روزہ دورہ کیا۔ اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ترکی کے پاس اس وقت کابل ایئرپروٹ کا انتظامی و سکیورٹی کنٹرول ہے۔ ظاہر ہے یہ کنٹرول افغان حکومت اور امریکہ کی رضامندی سے ہے۔
سادہ لفظوں میں یہ کہ آنے والے دنوں میں ترکی کا افغانستان میں اہم کردار ہوگا۔ آرمی چیف اپنے ترک ہم منصب سے اس حوالے سے ملنے گئے تھے۔
آخری بات یہ عرض کردوں کہ بھارتی نمائندوں نے منگل کو یعنی اس کالم کی اشاعت سے تین دن قبل طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے۔ ملاقاتیں قبل ازیں بھی ہوئیں، مقصد کیا ہے؟ سب پر عیاں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟
جمعہ 25 جون 2021 ء
روزنامہ ” بدلتا زمانہ ” ملتان
افغان منظر نامہ ( پہلی قسط )
حیدر جاوید سید
افغانستان میں فی الوقت جو صورتحال بتائی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ پچھلے دو ہفتوں کے دوران طالبان مختلف صوبوں کے 60سے زائد اضلاع پر قبضہ کرچکے۔ منگل کو طالبان نے تاجکستان سے ملحقہ سرحدی چوکیوں پر قبضہ کیا تو ان چوکیوں پر موجود اہلکار بھاگ کر تاجکستان کی حدود میں چلے گئے۔ منگل کو ہی طالبان نے جنرل رشید دوستم کے آبائی قصبے پر قبضے کا دعویٰ بھی کیا۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کابل کی فتح تک طالبان رکنے والے نہیں۔ ان سطور کے لکھے جانے سے کچھ دیر قبل امریکی حکام کا ایک بیان سامنے آیا کہ
’’اگر طالبان نے قطر معاہدہ پر عمل نہ کیا تو امریکی انخلا سست کردیا جائے گا‘‘۔
قطر معاہدہ میں تو امریکہ نے صرف اپنے اور نیٹو کے حوالے سے ضمانت حاصل کی تھی۔ اس وقت بھی اس امر کی طرف توجہ دلائی جارہی تھی کہ اگر یہ معاہدہ سہ فریقی نہ ہوا تو بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔
بہرطور اب صورت حال یہ ہے کہ طالبان تیزی سے آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ طالبان کے خلاف کارروائی کی دعویدار افغان سکیورٹی فورسز کے لگ بھگ اڑھائی ہزار اہلکار گزشتہ دس دنوں کے دوران اسلحہ سمیت طالبان سے جاملے۔
اطلاع یہ ہے کہ طالبان نے ان سکیورٹی اہلکاروں سے خدمات لینے کی بجائے یہ کہہ کر طویل رخصت پر بھیج دیا ہے کہ امارات اسلامی ان کی خدمات کے حوالے سے فیصلہ کرے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کے تعاون سے طویل عرصہ تک افغانستان کا صدر رہنے والے حامد کرزئی ایک بار پھرامریکہ کو للکارتے دیکھائی دے رہے ہیں۔
کرزئی کہتے ہیں کہ امریکہ نے افغانستان کو برباد کردیا۔ یقیناً یہ درست بات ہوگی لیکن کیا اس بربادی میں کرزئی کا کوئی کردار نہیں؟
افغان سیاست کا المیہ یہی ہے رنگ اورزبان بدلتے لمحہ بھر کی دیر نہیں لگتی۔
آپ حامد کرزئی کے حالیہ بیانات کو لے لیجئے ایسا لگتا ہے کہ کوئی مجاہد آزادی سامراجی قوت کو للکار رہا ہو۔
ستمبر کے وسط تک امریکی انخلاء کو مکمل ہونا ہے کیا واقعی یہ انخلا کے لئے دیاگیا وقت حتمی ثابت ہوگا؟ ضمنی سوال یہ ہے کہ وہ عظیم افغان سکیورٹی فورسز کہاں ہیں جنہیں امریکہ اوراتحادیوں نے برسہابرس تربیت دی، جدید اسلحہ فراہم کیا؟
کیا اب ایسا نہیں لگ رہا کہ امریکہ سے کھاپی لیا، 20سال گزارلئے اب طالبان کی آمد متوقع سے ” زیادہ” دیکھائی دے رہی ہے تو نئی وفاداریوں کے لئے تیاریاں ہورہی ہیں۔
مجھے صمداللہ اچکزئی اور مرتضیٰ شبلی کی یہ بات حقیقت کے قریب لگتی ہے امریکی کوشش کریں گے کہ کابل اور بڈگرام کے ہوائی اڈے طالبان کے ہاتھ نہ لگنے پائیں۔
کیا ہم یہ سمجھیں کہ ایک بار پھر کابل میدان جنگ بننے جارہاہے۔ ایسا ہوا تو نتائج کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
عجیب سی کھچڑی پک رہی ہے۔ قطر معاہدہ امریکہ اور طالبان کے درمیان تھا امریکیوں نے افغان حکومت کو اس میں شامل نہیں کیا تو کیا اب امریکہ اور طالبان دونوں قطر معاہدے سے پیچھے ہٹیں گے یا پھر انخلا کے عمل کو سست کرکے امریکی کابل کو طالبان کی دسترس سے بچانے کی کوشش کریں گے۔
یہ وہ بنیادی سوال ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی انخلا کے بعد طالبان جس طرح "فتوحات سمیٹتے ” چلے آرہے ہیں فی الوقت تو ان کی طاقت کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر رہا لیکن اگر کابل کے باہر مزاحمت ہوتی ہے تو پھر خانہ جنگی کا دروازہ کھل سکتا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ تاجکستان سے ملحقہ سرحدی چوکیوں پر طالبان کا قبضہ معمولی بات نہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ افغان سکیورٹی فورسز مزاحمت کے موڈ میں بالکل نہیں۔
تو کیا کابل پھر سے ڈاکٹر نجیب اللہ کے آخری ایام والا شہربننے جارہا ہے؟
ایسا ہوا تو افغانستان پھرایک بند گلی میں پھنس جائے گا جس سے نکلنے کے راستے پر طالبان قابض ہوں گے۔
سوال یہ ہے کہ امریکہ نے طالبان اور افغان حکومت کو مذاکرات کی میز پر لابیٹھانے سے گریز کیوں کیا اور کیا اب وقت خود امریکیوں کے ہاتھ سے نکل نہیں گیا۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ پچھلے بیس برسوں کے دوران ہوئے جمہوری تجربات، اربوں ڈالر کی امداد، تعمیروترقی کے دعوے ان سب سے بڑھ کر انتخابی عمل میں افغان عوام کی بڑی تعداد کی شرکت ان سب کامستقبل کیا ہے؟
کڑوا سچ یہ ہے کہ حالات دن بدن خراب ہورہے ہیں۔ افغان امور کے تجزیہ کار درست کہتے ہیں کہ افغانستان ایک بار پھر 9/11 سے قبل والے دنوں میں کھڑا ہوتا محسوس ہورہا ہے۔
یہ تقریباً درست بات بھی ہے جس طرح دس دنوں میں طالبان نے 60سے زائد اضلاع اور ایک سرحدی مقام (تاجکستان کی سرحد) پر قبضہ مستحکم کیا اس سے یہ امر دوچند ہوجاتاہے کہ امریکی کبھی بھی افغانستان کے جمہوری عمل کے حوالے سے سنجیدہ نہیں تھے
بلکہ انہوں نے جمہوری نظام کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔ یہ امر بھی دوچند ہے کہ فی الوقت تو طالبان کو جوابی مزاحمت کا سامنا نہیں ہے لیکن کیا آنے والے دنوں میں امارات اسلامی سے اختلافات رکھنے والے گروہ خاموشی سے طالبان کی بالادستی قبول کرلیں گے یا پھر وہ بھی مزاحمت کے لئے منظم ہورہے ہیں۔ اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں ہی مل سکتا ہے۔ اس وقت تو یہی لگ رہا ہے کہ طالبان کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ ہے نہ مزاحمت کا خطرہ اور وہ ہفتہ دس دن میں کابل کے دروازے پر دستک دے رہے ہوں گے۔ بہرطور 20سالہ جمہوریت کی بساط الٹتی دیکھائی دے رہی ہے۔ ایسا ہوا تو ایک بار پھر پڑوسی ممالک کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا،
اس حوالے سے اگلے کالم میں عرض کروں گا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر