مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

غربت، خواب اور عذاب||حیدر جاوید سید

سوشل میڈیا پر ان دنوں جنسی بے راہ روی کا شکار ایک طبقے (مولوی اور مولویوں جیسے) کی ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں اس سے یہ خطرہ دن بدن بڑھ رہا ہے کہ اور کچھ ہو یا نہ ہو مولوی صاحبان متفقہ طور پر کیمرے والے موبائل کو مرتد قرار دے دیں گے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جناب پرویز خٹک (وفاقی وزیر دفاع) نے ارشاد فرمایا ہے کہ ملک میں کوئی غربت نہیں، مہنگائی ہوگی تو ملک چلے گا، مہنگائی اپوزیشن کا ڈرامہ ہے، لوگوں کے پاس گاڑیاں ہیں اچھا رہن سہن ہے۔ انہوں نے چیلنج کیا کہ خیبر پختونخواہ میں غریب ڈھونڈ کر دیکھاو۔
وزیر خزانہ شوکت ترین فرماتے ہیں خوابوں کی تعبیر کی طرف جارہے ہیں۔
یہ دونوں ارشادات قومی اسمبلی میں فرمائے گئے۔ وزیر دفاع کی تقریر پر تو خود ان کی اپنی جماعت کے لوگ ہنستے رہے۔ اپوزیشن نے بھی آڑے ہاتھوں لیا۔
وزیر دفاع درست فرماتے ہیں غربت کہاں ہے۔ 55روپے کلو والی چینی 110روپے کلو ہے۔ 35روپے کلو والا آٹا 80روپے کلو، 400روپے کلو والا بڑا گوشت 700روپے کلو اور 800روپے کلو والا چھوٹا گوشت 1300روپے کلو ہے۔ دالیں، سبزیاں اور روزمرہ ضرورت کی دوسری اشیاء مہنگی ہوئی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہ لیا جائے کہ غربت بڑھتی ہے۔
پرویز خٹک آجکل تحریک انصاف میں ہیں اور وفاقی وزیر دفاع ہیں۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے ہیں، جہاندیدہ، تجربہ کار ہی نہیں اس سے سوا بھی چند خصوصی خوبیوں کے مالک ہیں۔ اپوزیشن کو ان کا چیلنج قبول کرکے خیبر پختونخوا میں سے غریب تلاش کرکے دیکھانا چاہیے۔ محض تنقید برائے تنقید درست بات نہیں۔
فقیر راحموں کے اس شرارتی سوال سے تحریر نویس متفق نہیں ہے کہ اگر خیبر پختونخوا میں غربت نہیں ہے تو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت پچھلے تین سال سے سالانہ اربوں روپے پختونخوا میں کن لوگوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں؟
گزشتہ شب مہنگائی کے بغیر نیا پاکستان دیکھا تھا افسوس کہ بجلی چلی جانے کی وجہ سے آنکھ کھل گئی ورنہ کوشش یہی تھی کہ اچھی بھلی خریداری کرلی جائے۔
ویسے ایک بات ہے بازار میں فقیر دیکھائی نہیں دیئے۔ خیر یہ خواب کا معاملہ ہے دوبارہ خواب دیکھا تو تفصیلی عرض کروں گا۔
فی الوقت ہم اس خواب کی بات کرتے ہیں جس کا ذکر وزیر خزانہ شوکت ترین نے کیا بلکہ خواب نہیں خوابوں کی تعبیر کی بات کی۔ گزشتہ 72 سال کا ریکارڈ یہی ہے کہ یہاں خواب تعبیروں سے پہلے چوری ہوجاتے ہیں۔ کامیاب تعبیر فروش صرف وہ لوگ ہیں جو ہر دو میں اقتدار کی انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ ہوجائیں۔
سوشل میڈیا پر ان دنوں جنسی بے راہ روی کا شکار ایک طبقے (مولوی اور مولویوں جیسے) کی ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں اس سے یہ خطرہ دن بدن بڑھ رہا ہے کہ اور کچھ ہو یا نہ ہو مولوی صاحبان متفقہ طور پر کیمرے والے موبائل کو مرتد قرار دے دیں گے۔
آپ سمجھتے ہیں نا کفر میں رعایت ہوتی ہے مرتد کے لئے کوئی رعایت نہیں۔
پچھلی شب سے ہمارے مفتی قوی کی ویڈیو نے بھی خاصی رونق لگارکھی ہے۔
’’ویڈیو لیکس کے موسم میں‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے کالم پر مذہبی حلقوں میں موجود کچھ دوست ناراض ہیں ان کا موقف یہ ہے کہ آپ نے سب کو ایک لاٹھی سے ہانکا اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔
عرض کیا یہ تناسب اب کیوں یاد آیا قبل ازیں تو آپ لوگ کہا کرتے تھے اہل مذہب کے علاوہ باقی کے سب لوگ گمراہ ہیں؟
مکرر عرض کرتا ہوں برائی عقیدے اور مذہب کی طرح نہیں رویوں کی طرح پھیلتی ہے اس کا خاتمہ ڈھکوسلوں اور مردہ تاویلات سے ہوسکتا ہے نہ فتووں سے۔
ہمیں اپنے رویوں، اقدار، قدروں، سماجی اخلاقیات سب کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ اپنے اندر کے کج تلاش کرنا ہوں گے۔ (انفرادی اور اجتماعی طور پر) باردیگر یہ سوچنا ہوگا کہ حقیقی ورثوں سے کٹنے کے نقصان کا بوجھ کم کیسے کیا جائے اور یہ کہ کیا اس سماج کو جس میں ہم اور آپ رہتے ہیں کسی نئے سماجی معاہدے کی ضرورت ہے۔
مختلف طبقات کے اہل دانش کو آگے بڑھ کر سماج کی رہنمائی کرنا ہوگی۔ یہ بھی عرض کردوں ہمیں اپنی تاریخ اور مسلط کردہ اقدار دونوں کا بھی ازسرنو جائزہ لینا ہوگااور یہ بہت ضروری ہے۔
ہمیں اپنی نئی نسل کو اپنی تہذیبی روایات و اخلاقیات سے روشناس کرانا ہوگا مگراس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم یہ تسلیم کریں کہ تہذیبی روایات اور اخلاقیات کا تعلق ہمارے سماج اور تاریخ کے ارتقائی سفر سے ہے، مذاہب و عقائد سے بالکل نہیں۔
کوئی بھی سماج اپنے ورثے میں اخلاق باختگی لے کر آگے نہیں بڑھتا جس دن ہم ان حقیقتوں کو سمجھ لیں گے اصلاح میں آسانی رہے گی۔
فی الوقت ایک اور بات عرض کرنا چاہتاہوں۔ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں پیزا ڈیلیوری بوائے کے طور پر کام کرنے والے طالب علم کے ساتھ ہوئے گینگ ریپ کے ملزمان (طالب علموں) کو یونیورسٹی نے معطل کردیا ہے۔
ابھی تک اس المیہ کی پولیس رپورٹ درج نہیں ہوپائی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا مجرمانہ کردار قابل مذمت ہے۔ یونیورسٹی کے ہی بعض اساتذہ کرام انتظامیہ کے اس رویہ سے نالاں ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر مشتاق نے تو باقاعدہ خط لکھ کر صورتحال پر افسوس کے ساتھ دکھ کا اظہار کیا ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ دو دن تو یہ کہتی رہی، گینگ ریپ کے کردار غیرقانونی طورپر ہاسٹل میں مقیم تھے، تیسرے دن انہیں طالب علم تسلیم کیا۔
سوال یہ ہے کہ قانونی کارروائی میں انتظامیہ رکاوٹ کیوں ڈال رہی ہے۔ کیا کوئی ایک مجرم انتظامیہ کے کسی بڑے کا قریبی عزیز ہے؟
وضاحت انتظامیہ کو کرنی چاہیے کیونکہ یہ بھی کہا جارہاہے کہ اگر مقدمہ درج ہوا تو کچھ ایسے چہروں سے بھی نقاب اترنے کا خطرہ ہے جو انتظامیہ کاحصہ ہیں۔
بہرطور اس افسوسناک واقعہ کے حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ کی لیپا پوتی والی پالیسی شرمناک حد تک قابل مذمت ہے۔
آخری بات وزیراعظم عمران خان کا گزشتہ روز والا بیان ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ’’خواتین کے لباس مسائل کی وجہ ہیں مرد روبوٹ نہیں‘‘ (یہ نرم سے نرم تفسیر ہے ان کے بیان کی) جناب وزیراعظم کے اس بیان پر بہت کچھ عرض کیا جاسکتا ہے مگر صرف یہی عرض کرنا مناسب ہوگاکہ بندہ پرور کبھی بولنے سے قبل غور کرنے کی زحمت بھی کرلیا کیجئے کیوں ہر تیسرے دن تماشے لگواتے رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: