دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یہ سماج نہیں جنگل ہے صاحبو!||حیدر جاوید سید

کیسا سماج ہے یہ چند برس قبل اُدھر ایس ایس پی کے منصب کے حامل شخص نے سابق اہلیہ کی کچھ تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال دیں۔ پھر کراچی یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر نے اپنی سابق اہلیہ کی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیسا سماج ہے یہ چند برس قبل اُدھر ایس ایس پی کے منصب کے حامل شخص نے سابق اہلیہ کی کچھ تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال دیں۔ پھر کراچی یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر نے اپنی سابق اہلیہ کی۔ اسسٹنٹ پروفیسر کو تین دن قبل مجموعی طور پر 10سال سزا ہوئی ہے اس مقدمے میں
لاہور کے مدرسہ کے طالب علم سے زیادتی کرنے والے مفتی عزیزالرحمن کو پولیس نے بیٹے سمیت میانوالی میں جے یو آئی کے مقامی مرکز سے گرفتار کرلیا ہے دوبیٹے لاہور کے مدرسوں سے گرفتار ہوئے۔
گوجرانوالہ میں معصوم بچی سے زیادتی کرکے اسے قتل کردیا گیا۔ پچھلے ایک ہفتہ کے دوران صوبہ پنجاب میں بچوں سے زیادتی اور قتل کے 5 المناک واقعات سامنے آئے۔
دو دن ادھر اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک بائیس سالہ طالب علم سے گینگ ریپ ہوا یہ طالب علم تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے پیزا بوائے ڈیلیوری کے طور پر کام بھی کرتا تھا۔
گلی محلہ، مدرسہ مسجد اور یونیورسٹی ہر جگہ نفس کے اسیروں کا ہجوم ہے۔ کوئی سماجی روایات، اخلاقیات، رشتے اور احترام آدمیت رہا ہی نہیں، کیوں؟
اس سوال کا جواب بہت تلخ ہے۔ جواب یہ ہے کہ جب کسی سماج کو اس کی قدیم روایات، اخلاقی ورثے اور تاریخ سے کاٹ کر نئے ٹرکوں کی بتیوں کے پیچھے دوڑائیں گے تو یہی نتیجہ نکلے گا۔
تہذیبی روایات کا تعلق مذہب و عقیدوں سے نہیں سماج کے اپنے اصل اور تاریخ کے ساتھ اس ارتقائی سفر سے ہوتا ہے جو سماج طے کرچکا ہو۔
آپ دنیا بھر کے ان ممالک کو دیکھ لیجئے جہاں اسلام کسی بھی طریقے سے پہنچا (کسی بھی طریقہ کی وضاحت غالباً ضروری نہیں) ان ممالک کے لوگوں نے اسلام یا پھر اس سے قبل بھی جو مذاہب قبول کئے انہیں اپنی سماجی روایات، تہذیبی ورثے اور تاریخ پر بھاری نہیں پڑنے دیا۔
یہاں تقسیم شدہ برصغیر کے ممالک میں تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ حملہ آوروں کو ہمارا ہیرو بناکر پیش ہی نہیں کیا گیا بلکہ مسلط کردیا گیا ہے۔
حملہ آور خود اخلاقی روایات، تہذیب و تمدن سے عاری تھے اس پر ستم ان حملہ آوروں کے مبلغین نے ڈھایا جنہوں نے یہ باور کروایا کہ نیا مذہب قبول کرتے ہی پرانا سب کچھ ختم۔
ارے کیوں بھائی کیسے ختم، عربوں میں اسلام آیا تو انہوں نے نیا مذہب قبول کیا اپنی تاریخ، تہذیب اور سماجی روایات کو حرفِ غلط کی طرح مٹا نہیں دیا تھا۔
عرب عرب تھے، رہے ہیں اور رہیں گے۔ یہ المیہ صرف ہمارے یہاں ہوا کہ مذہب کی تبدیلی کے ساتھ پچھلا سب کچھ حرف غلط کی طرح مٹانے کو فرض اول سمجھ لیا گیا۔
اپنے اصل سے نہیں کٹتے۔ نظریہ اور دھرم تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ سماجی روایات، تاریخ اور اخلاقیات کے اصول تبدیل نہیں ہوتے کیونکہ یہ اپنی زمین اور تاریخ سے پھوٹتے ہیں، پروان چڑھتے ہیں۔
سچ کہوں تو ہم سبھی اپنی تاریخ، تہذیب اور سماجی روایات کے قتل میں ساجھے دار ہیں نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اب کوئی ہمیں سمجھائے کہ وہ اخلاقی روایات، سنہری اصول اور قصے کہانیاں کہاں ہیں جو سناتے ہوئے کہا گیا تھا ایسے ہوتے ہیں انسان کامل؟
متعصب مذہب پرستوں نے جو ماحول بنایا اس میں گھٹن، نفرت، خود پرستی اور خود لذتی کے سوا کیا ہے۔ چار اور نگاہیں دوڑاکر دیکھ لیجئے، کون سی جگہ ’’بااماں‘‘ ہے۔ مسجد، مکتب، مدرسہ، گلی محلہ؟
کہیں سے کوئی خیر کی خبر؟ میرے ایک دوست کہا کرتے ہیں
’’ہم عجیب لوگ ہیں دودھ میں مکھی کی نشاندہی کرکے اسے ناقابل استعمال قرار دیتے ہوئے دودھ ضائع کروادیتے ہیں اپنی چائے کے کپ میں مکھی گرجائے تو نکال پھینکتے ہیں اور چائے سُڑکنے لگتے ہیں‘‘۔
وہ غلط نہیں کہتے مدرسہ میں مفتی نے طالب علم کو زیادتی کا نشانہ بنایا تو چند اہل مذہب ہی بولے باقی تاویلات گھڑتے اور پیش کرتے رہے (پچھلے کالم میں تفصیل کے ساتھ عرض کرچکا)
گوجرانوالہ میں جنسی درندے نے بچی کی بے حرمتی کے بعد اسے قتل کردیا اور اسلام آباد میں یونیورسٹی کے طلباء نے ہی ایک طالب علم سے گینگ ریپ کیا تو ان خاموش پڑے مذہب پرستوں کی باسی کڑی میں ابال آگیا۔
فرمایا یہ اسلام اور خدا سے دوری کے نتائج ہیں۔ واہ جی، اسلام اور خدا سے دوری کے نتائج وہ مفتی بھی اسلام اور خدا سے دور ہی تھا کیا؟
قدروں سے محروم جو مقدس کتابیں پڑھنے کا ڈرامہ کرتے ہوئے ہم جنس پرستی کرتا تھا پھر قرآن مجید پر جھوٹا حلف دیا؟
معاف کیجئے گا یہ سماج اب انسانوں کے رہنے بسنے کے قابل نہیں رہا۔
میرے لائق احترام دوست اعجاز نقوی کہتے ہیں امید کا دیا جلائے رکھنا چاہیے۔ بجا ہے لیکن کس کے لئے حضور۔ امید کا دیا انسانوں کی رہنمائی کے لئے جلایا جاتا ہے یہ تو آدمیوں کا جنگل ہے۔ جنگل کٹتے ہیں سرکار میدان بنتے ہیں، زمینوں کی آبیاری ہوتی ہے، بستیاں بستی ہیں۔
جنگلوں میں وحشی بستے ہیں، اخلاقیات اور قدروں سے محروم۔
آپ حیران ہورہے ہوں گے کہ یہ آج کیا لکھا جارہا ہے۔ حیران مت ہوں، تسلیم کیجئے کہ کردار سازی یا تطہیر ذات جو بھی کہہ لیجئے اس کے لئے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔
وجہ یہی ہے کہ ہم اپنی زمین و تاریخ سے جڑے ہوئے لوگ نہیں ہمارے تو ٹینکوں، بموں، میزائلوں تک کے نام حملہ آوروں کے ناموں پر ہیں۔
ہماری تاریخ میں اس سرزمین کی تاریخ و تہذیب اور روایات کا کتنا حصہ ہے؟
سوالوں سے بھاگنے کی ضرورت ہے نہ بدمزہ ہونے کی، سوال تو ہوں گے۔
یہ نہ کہیں کہ مذہب سے دوری نے اخلاقی مسائل پیدا کئے۔ اہل مذہب کا اپنا کیا حال ہے کتنے نام گنوائوں اہل مذہب کے جن کی وجہ سے مذہب شرمندہ ہوا، مفتی عزیز تازہ مثال ہے۔
مجھے معاف کیجئے گا جس ملک میں طاہر اشرفی جیسا شخص اہم ترین منصب پر فائز کردیا جاتا ہو اس ملک میں جو ہورہا ہے وہ درست ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ سماجی وقار و تہذیب اور اخلاقیات کچھ بھی زندہ سلامت نہیں بچا۔
مان لیجئے ہم نے ریت پر تاریخ لکھی ریت سے عمارتیں اٹھائیں اس لئے سب ریت ریت ہوا۔
بصد ادب معذرت مجھ سا امید پرست مایوس ہے آپ میں حوصلہ ہے تو اٹھیں سماج کو ازسرنو بنانے کی کوشش کریں لیکن یاد رکھیں اپنے اصل سے کٹے لوگ باوقار سماج تشکیل نہیں دے پاتے۔
اصل سے رجوع کرنا ہے تو حملہ آوروں کی نہیں اپنی تاریخ تلاش کیجئے۔ سمندر پار کے کسی وسیب کی نہیں اپنی تہذیب اور گم شدہ اخلاقی روایات کو ڈھونڈ نکالئے ممکن ہے اس طرح کچھ بہتری ہوسکے ورنہ جنگل میں رہیں گے تو درندے چیرپھاڑ کھائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author