نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جناب عثمان کاکڑکی رحلت اور سوالات||حیدر جاوید سید

مکرر عرض کروں ان کی وفات کے حوالے سے سامنے آنے والے دونوں سوالوں پر منہ بنانے کی بجائے یہ ضروری ہے کہ ان سوالات کا تسلی بخش جواب دیا جائے ۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہ

حیدر جاوید سید
سابق سینیٹر اور پشتون قوم پرست رہنما عثمان کاکڑ بھی رخصت ہو گئے ۔ سندھ حکومت نے بلاول بھٹو کے کہنے پر انہیں علاج معالجے کے لئے کوئٹہ سے کراچی منتقل کروایا لیکن وہ جانبر نہ ہو پائے اور سفر حیات مکمل کر کے رخصت ہو گئے ۔عثمان کاکڑ کا جنازہ بلوچستان کی تاریخ کے بڑے جنازوں میں سے ایک تھا۔
پشتو میں بھیگی ہوئی اردو میں ان کی تقاریر کے بعض کلپس نے گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر دھوم مچائی ہوئی ہے ۔ سادہ مزاج وضعدار صاحب مطالعہ شخص کی شہرت ان کے ساتھ ساتھ چلی اور اب یادوں میں محفوظ رہ جائے گی۔ عثمان کاکڑ نے بطور سینیٹر ایوان بالا میں مظلوم طبقات و اقوام کا مقدمہ پیش کرکے لوگوں کے دل جیتے ان کے جنازے کا جلوس اور نماز جنازہ دونوں شاہد ہیں کہ وہ عام شہری کے دلوں میں بستے تھے ۔
ان کی وفات کسی سانحہ سے کم نہیں ہم مرزا اسد اللہ خان غالب کے انداز میں کہہ سکتے ہیں۔
"کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کچھ دن اور”
لاریب ہر ذی شعور کو موت کا ذائقہ بہر طور چکھنا ہی ہے ۔
عثمان کاکڑ کی علالت کے حوالے سے دو اطلاعات ہیں اولاً یہ کہ وہ اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں اچانک گرے گرنے سے سر پر چوٹیں لگیں۔ اچانک گرنے کی وجہ ذہنی دبائو کو قرار دیا جارہا ہے ۔ ذہنی دبائو ان دھمکیوں کی بدولت تھا جو پچھلے کچھ عرصے سے انہیں اپنی سیاسی فہم و فکر کے
اظہار پر دی جارہی تھیں اور وہ خود متعدد مواقع پر ان دھمکیوں کا ذکر کرتے رہے ۔
دوسری اطلاع ان کے صاحبزادے کا مؤقف ہے ۔
اپنے والد کی وفات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ
”میرے والد کو ٹارگٹ کیا گیا ان قوتوں کے ایما پر جو انہیں راستے سے ہٹانا چاہتی تھیں”
عثمان کاکڑ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر بنے تھے ایک متحرک و فعال اور باشعور سیاسی کارکن جب کسی منتخب ایوان کا حصہ بنتا ہے توہ وہ اپنی فکر و فہم کے حوالے سے خود کو منوا لیتا ہے ۔
انہوں نے بطور سینیٹر ایوان بالا میں جو تقاریر کیں اگر ان کی جماعت ان تقاریر کو مرتب کروا کے کتابی شکل میں شائع کرے تو سیاسی کارکنان کی نئی نسل کے لئے یہ نصاب کا کام دے گی بہت زیادہ نہیں ان سے صرف دو ملاقاتیں ہوئیں یہ سطور لکھتے وقت دونوں ملاقاتوں کی یادیں بھی دستک دے رہی ہیں۔
لکھ بھگ ساڑھے تین برس قبل ان سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب میں لاہور کے ایک انگریزی اخبار ( دی فرنٹیئر پوسٹ) کے ایڈیٹر کے طور پر کارکن صحافیوں کے ایک مقدمہ میں سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے لئے اسلام آباد پہنچا تھا وہ کارکن صحافیوں سے یکجہتی کے لئے سپریم کورٹ بلڈنگ آئے اس دوران کچھ گپ شپ رہی
اس سے چند ماہ بعد وہ لاہور آئے تو ٹیلی
فون پر رابطے میں ملاقات طے ہوئی یہ ملاقات میری لائبریری میں ہوئی انڈس ویلی (پاکستان) میں آباد قومیتوں کے مسائل و مشکلات اور فیڈریشن کی جانب سے قومیتی ریاست کی حقیقت کو تسلیم نہ کرنے پر خوب مکالمہ ہوا۔
وہ سرائیکی قوم پرستوں کے اس مؤقف کے حامی تھے کہ پاکستانی فیڈریشن میں آباد قومیتوں کی شناخت کو سیاسی و تاریخی طور پر تسلیم کروانے کے لئے ضروری ہے کہ قوموں کے درمیان نیا عمرانی معاہدہ ہو۔
مجھے یاد آرہا ہے کہ میں نے انہیں اپنے قیام پشاور کے برسوں میں نئے عمرانی معاہدہ کے حوالے سے کئے گئے ایک سوال اور اس کے جواب میں ایک سیاستدان مولانا کے ارشاد سے آگاہ کیا تو وہ چند لمحے تک زیر لب مسکراتے رہے پھر بولے
”شاہ جی آپ ا خبار نویس لوگ بڑے ظالم ہو سادہ لوگوں کو گھیر گھار کر ایسے سوال پوچھتے ہو جن کا جواب تاریخی لطیفہ بن جاتا ہے” ۔
ڈیڑھ دو گھنٹے کی اس نشست کے بعد ان سے پھر ملاقات نہیں ہو پائی۔
ایک قوم پرست سیاستدان کی حیثیت سے عثمان کاکڑ پاکستان فیڈریشن کی دیگر قوموں میں اپنے اجلے مؤقف کی وجہ سے خاصے مقبول تھے ہمارے سرائیکی قوم پرست تو انہیں سینٹ میں اپنا وکیل قرار دیتے تھے حقیقت بھی یہی ہے کہ انہوں نے سرائیکی قومی تحریک اور اس کے اہداف کے حوالے سے ہمیشہ سرائیکی وسیب کے لوگوں کی حمایت کی۔
وہ اس دنیا سرائے سے رخصت ہو چکے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ۔
مکرر عرض کروں ان کی وفات کے حوالے سے سامنے آنے والے دونوں سوالوں پر منہ بنانے کی بجائے یہ ضروری ہے کہ ان سوالات کا تسلی بخش جواب دیا جائے ۔
تسلی بخش جواب کیسے ممکن ہے اس کا ایک ہی حل ہے وہ یہ کہ ایک جوڈیشل کمیشن بنایا جائے جسے حساس اداروں کے ماہرین کے ساتھ طبی ماہرین کی بھی معاونت حاصل ہو یہ کمیشن تین نکات پر تحقیقات کرے
اولاً یہ کہ عثمان کاکڑ نے آخری ایام میں جن دھمکیوں کا ذکر کیا وہ کس نے دیں۔
ثانیاً یہ کہ کیا ذہنی دبائو سے قالین پر گرنے والے کو سرمیں اتنی شدید چوٹیں لگ سکتی ہیں ۔
ثالثاً ان کے صاحبزادے کا موقف ہے
تحقیقات ضروری ہیں حقیقت سامنے آنی چاہئے لوگوں کو سوالات کا جواب مل جائے تو سازشی تھیوریاں رزق نہیں حاصل کر سکتیں ۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ ممکن ہو گا؟ اس کا جواب حکومت کے پاس ہے اور لوگ بہر طور حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author