رضوان ظفر گورمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستائیس سال قبل ایک طالب علم بس پہ اسکول جاتے ہوئے ایک خوفناک حادثہ کا شکار ہو کر ہسپتال پہنچا۔بچہ شدید زخمی تھا جب حالت خطرے سے باہر ہوئی تو ایمرجنسی سے وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا۔بچے کی ماں ہاسپٹل میں بیٹے کی دیکھ بھال بھی کرتی اور باہر سے دوا دارو اور دیگر کام بھی سنبھالتی۔اسی وارڈ میں ساتھ والے مریض کے تیمار دار امین بھٹی نے یہ دیکھا تو ماں سے بولا مجھے بھی اپنا بیٹا سمجھیں اور آہستہ آہستہ باہر کی تمام ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں۔
ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد بچہ اپنی ماں کے ساتھ گھر آ گیا اور چند ماہ میں اس قابل ہو گیا کہ بغیر بیساکھی کے کھڑا ہو سکے اور بیساکھیوں کے سہارے چل سکے۔امین بھٹی نے ماں بولا تھا تو بیٹا کیسے اپنے بھائی کا حال چال پوچھنے نہ آتا وہ وہاڑی سے لودھراں آیا اور اپنے ساتھ لائے گئے کیمرے سے بچے کی تصویر بھی کھینچی اور پھر آتے رہنے کے وعدے کے ساتھ واپس چلا گیا۔پھر حالات نے امین بھٹی کو وعدہ وفا کرنے کی فرصت نہیں دی سالوں گزر گئے لیکن امین بھٹی اپنا وعدہ نہیں بھولا اور ستائیس سال بعد امین بھٹی اپنی یاداشت اور خلوص کے سہارے اپنی منہ بولی ماں اور چھوٹے بھائی کو تلاشتا ہوا آخر کار ہمارے دوست ریلوے کے ملازم محمد آصف کے گھر کی دہلیز تک آ پہنچا۔آتے ہوئے وہ ستائس برس سے محمد آصف کی سنبھالی ہوئی تصویریں بھی لایا تھا۔
مجھے محمد آصف کی اس کہانی نے یاد دلایا کہ ہم نے ہوش سنبھالا تو ہر سال سردیوں میں اپنے دادا کے ہاں اک پٹھان فیملی کو مہمان بنتے دیکھا کبھی ہمارے دادا کی اینٹوں کی بھٹی ہوا کرتی تھی اور وہ پٹھان فیملی اس کا کام سنبھالتی تھی۔پھر بھٹیوں کا دور ختم ہوا دادا کی اولاد پڑھ کر ملازمت پیشہ ہو گئی دادا جی وفات پا گئے مگر ہمارے لڑکپن تک پٹھان فیملی سے کوئی نہ کوئی آ ہی جاتا تھا پھر ہم شہر شفٹ ہو گئے۔شفٹنگ کے کئی سال بعد اس فیملی کا اک پٹھان پوچھتے پوچھتے ہمارے گھر تک آ ہی گیا۔
میں نے زمانہ طالب علمی میں سفر کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔دسمبر کی یخ بستہ کہر آلود صبحوں اور جون کی تپتی دوپہروں میں ویگن کے پیچھے لٹک کر سفر کیا۔گاؤں سے کوٹ ادو آتے وقت سنانواں سے محمد عمران نامی وکیل اپنی گاڑی پہ لفٹ دے دیا کرتے تھے۔اسی طرح مظفرگڑھ جاتے ہوئے ڈان سکول کے پرنسپل اعجاز چانڈیہ صاحب نے بھی اک دو بار اپنی کار میں لفٹ دی اور دوران سفر وہ اپنی کہانی سناتے کہ کیسی غربت میں بھی انہوں نے محنت اور امید نہیں چھوڑی تھی آج وہ سنانواں کے معروف کاروباری ہیں۔
اک دفعہ مظفرگڑھ سے کوٹ ادو پنڈی ایکسپریس پہ آنا ہوا تو اٹامک ڈی جی خان کے اک انکل جن کا تعلق راولپنڈی سے تھا نام جن کا سید تطہیر حسین شاہ تھا سے ملاقات ہوئی تھی۔آج کئی برسوں بعد بھی مجھے ان کا مہربان چہرہ یاد ہے۔ان کا کوئی بیٹا نہیں تھا انہوں نے مجھے کہا تھا کہ میرا اگر بیٹا ہوتا تو وہ تمہارے جیسا ہوتا۔انہوں نے مجھے اٹامک ڈی جی خان میں ملنے آنے کے لیے بھی کہا تھا مگر تب پیسے اور وسائیل نہیں تھے آج جب میں اس قابل ہوں کہ ان سے مل پاؤں تو وہ اٹامک میں نہیں ہیں۔ویسے بھی وہ سفید بالوں اور سفید داڑھی والے سرخ و سپید رنگت کے حامل بزرگ تھے چند سالوں میں ہی وہ ریٹائر ہو گئے ہوں گے۔محمد آصف کی کہانی پڑھی تو یہ سب کردار یاد آ گئے جن سے ملاقات چند لمحوں پہ مبنی تھی مگر میری زندگی میں اپنا اثر چھوڑ گئے۔
ایسا خلوص ایسی محبت ایسا تعلق صرف قصے کہانیوں میں ملتا ہے یا پھر ہم برصغیر کے لوگوں میں۔پاک و ہند میں آج بھی خاندان بٹوارے کے وقت کے مکانات دکانوں اور امانتوں کو سنبھال کے رکھے ہوئے ہیں کہ کیا پتا کب رام یا اس کے خاندان کا کوئی فرد لوٹ آئے ادھر بھارت میں بھی کئی سکھ حضرات رحیم کی واپسی کی آس میں امانتیں سنبھالنے کی وصیتیں کر کے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
ملکی مسائل کا واحد حل۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
ریاستیں کیوں بنائی جاتی ہیں؟۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
تخت لہور اور سرائیکی وسیب کے سرائیکی محافظ۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
محرم کلیکشن،امام حسین کے کاپی رائٹس اور ہم سب۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی