نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زندگی کی روٹین بوریت توڑنی ہے؟ آؤ بیٹے ساتھ||حسنین جمال

بیوی جو کچھ بھی پہن لے تم نے سڑے منہ سے کہنا ہے کہ ’ہاں ٹھیک ہے، اب بتاؤ جانا کہاں ہے۔‘ کیونکہ تم اسے روز دیکھتے ہو، تمہارے لیے نیا کچھ نہیں ہے۔

حسنین جمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم نے کبھی پھلوں کا جوس بنایا ہے؟ زندگی کے سارے فلسفے اسی میں ہیں۔ چھیل کر، باریک ٹکڑے کر کے، بیچ پرے پھینک کے، جوسر مشین میں پھل جب ڈالا جاتا ہے اور مکمل ستیاناس ہونے کے بعد جو رس نکلتا ہے وہ جوس کہلاتا ہے۔ وہ نہیں نکالنا تھا۔

جوس بنانے اور نکالنے میں بہت فرق ہے۔ جوس بنانے کے لیے تم بلینڈر کا استعمال کرو گے بیٹا۔ وہ مشین جس میں اماں یا بیگم جب ملک شیک بناتے ہیں تو آواز سنتے ہی پورے گھر کے منہ میں پانی آ جاتا ہے، تو اس میں، کیا بنانا ہے؟ جوس!

فرض کیا تم فالسوں کا جوس بناتے ہو۔ اب فالسے دھوئے، جگ میں انڈیلے، تھوڑا نمک ڈالا، چینی ملائی، پانی ڈالا اور چلا دی مشین۔
مشین چل پڑی، تم رک جاؤ۔

سارا عمل سلوموشن کر کے سوچو ذرا دماغ میں۔ بٹن دبایا، مشین کے بلیڈ نے گھومنا شروع کیا، پہلے آٹھ دس فالسے کٹے، پھر مزید اس تیز بلیڈ کی زد میں آئے، پھر جو فالسہ بلیڈ گھومنے سے بنتے اس بھنور میں پھنستا گیا اس کا دی اینڈ ہوتا گیا۔

جب سارے فالسے کرش ہو گئے، چینی نمک بھائی بھائی ہو گئے تو تھوڑی سی برف بھی ڈال دی تم نے۔ وہ بھی پس گئی۔ اب کیا بنا؟ ٹھنڈا جوس؟ تو زندگی کا اینڈ بھی ٹھنڈا جوس ہے!
فرق ہے تو اتنا کہ بعضوں کا جوس بنایا جاتا ہے اور کچھ کا بالکل نکال پھینکتا ہے مقدر۔ پھنس گئی جان شکنجے اندر جیوں بیلن وچ گنا!

تو بھائی جان وقت کے بھنور میں پیس تو دیے جانا ہے، چاہے بلینڈر سے جوس بنے، بھلے جوسر میں نکالا جائے یا پھر گنے والا حال ہو، جوس تو گیا۔ کوشش یہ کرو کہ پھوک سلامت رہ جائے۔
وہ جو پھوک ہے، جو چھلکا ہے، جو آؤٹر لئیر ہے۔ وہ تمہاری حیرت ہے اور جو کچھ جوس کی شکل میں نکل جاتا ہے وہ تمہیں دماغی بڑھاپے تک پہنچانے کی وجہ ہے۔

یہ جو گزر رہا ہے نہایت تیزی سے، ہر سانس کے ساتھ، اس وقت نے تمہیں بدلنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ یہ گزرے گا اور اس زناٹے سے گزرے گا کہ ہڈی پسلی ایک کر کے جائے گا، سب کو پتہ چلے گا، ایک تم بچو گے جو سب سے آخر میں جانے گا کہ ہوا کیا ہے تو جان لو، ابھی سے سمجھ لو، چھلکا شامل رکھو جوس بننے کے اس عمل میں، مغز نے تو اپنی صورت بدلنی ہی بدلنی ہے۔

جس وقت سارا جوس نکل جانا ہے، ہڈیوں میں مکھ نہیں بچنی اس وقت سمجھ آئی تو کیا آئی۔ حیرت بچا لو!

جب کوئی دوست نئی چیز دکھائے تو اس پہ حیران ہو جاؤ، خوش ہو کے پوچھو کہاں سے لی، کب لی، تعریف کرو کہ تم پر سوٹ کرتی ہے۔ جب بچہ اپنی ہینڈ رائٹنگ دکھائے تو اس پہ حیران ہو جاؤ، جب بیوی نئے کپڑے پہن کر دکھائے تو اسے بہترین کمپلیمنٹ دو، ماں کوئی کھانا بنا دے تو اس کا ذائقہ دل سے پسند کر لو، کولیگ کوئی اچھی رپورٹ بنا دے تو اسے دل کھول کے سراہ دو، گرل فرینڈ سو دفعہ کی ہوئی بات دوبارہ کرے تو پہلی مرتبہ کی طرح آنکھیں کھول کے سراپا حیرت ہو جاؤ۔ کیوں؟

یہ سب کچھ تم اس لیے نظرانداز کر دیتے ہو کہ یہ تو روٹین ہے۔ دوست کی خریدی گئی نئی گھڑی، دس سال پرانا ماڈل ہے، تم نے دیکھا ہوا ہے، قیمت بھی پتہ ہے۔
بچے کی ہینڈ رائٹنگ میں نیا کیا ہے، پوری دنیا لکھتی ہے؟ لیکن اس بچے کے لیے زندگی کی سب سے بڑی کامیابی اس کی لکھائی ہے، جو خوبصورت ہے، اس کے خیال میں۔

بیوی جو کچھ بھی پہن لے تم نے سڑے منہ سے کہنا ہے کہ ’ہاں ٹھیک ہے، اب بتاؤ جانا کہاں ہے۔‘ کیونکہ تم اسے روز دیکھتے ہو، تمہارے لیے نیا کچھ نہیں ہے۔
ماں نے کھانا بنایا، تم نے کھا لیا۔ کھانا ہی ہے نا؟ ذائقہ پسند کیوں کریں؟ روز کھاتے ہیں۔ نہیں، ذائقہ تمہاری شکل پہ نظر آنا چاہیے۔

کولیگ نے جو کام آج کیا وہ تم دس سال پہلے کر چکے ہو، تم کیوں سراہو گے اسے؟ ایسی رپورٹیں تو اب تمہارا روز کا معمول ہیں۔
گرل فرینڈ نے جو بات کی وہ پہلے بھی سو دفعہ کی دہرائی ہوئی ہے، ہو سکتا ہے کئی اور دوستوں نے بھی کہی ہو، تو اس میں کیا ہے جو حیران ہو کے منہ کھول لیا جائے؟

یہ اسی لیے ہے بیٹے کہ تمہاری حیرت بھری جوانی میں مر چکی ہے۔ تمہارے لیے کچھ بھی نیا نہیں ہے، سبھی کچھ بہت پرانا لگتا ہے، صدیوں پرانا، ایسا ہی ہے؟ اور جب سبھی کچھ پرانا ہو تو کیوں تعریف کرو گے، کیوں حیران ہو گے، کیوں سراہو گے؟ ٹھیک؟

جوس نکل چکا ہے۔ جوس بنانا تھا
نکلوانا؟
نہیں تھا!
چھلکے؟
بچا لینے تھے!
پورا کا پورا زندگی کے بھنور میں گھوم کے پسنا نہیں تھا!

وقت اب بھی ہے۔ شروع کر دو۔ جس وقت سورج غروب ہوتا ہے کم از کم ایک گھنٹہ اسے نیچے اترتے ہوئے دیکھو، کسی بچے کو سائیکل چلانا سیکھتے دیکھو، کسی بے سرے کے گانے کی تعریف کر دو، کسی سر والے کو سننے کے لیے چلے جاؤ، کھانا کھانے سے پہلے اس کی خوشبو انجوائے کرنا شروع کرو، روٹین توڑو یا اس میں نئی مصروفیت شامل کر لو۔ کچھ بھی کرو چھلکا بچاؤ!

حیرت ہونے کا احساس اپنے اندر زندہ کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک مثال اور دیکھو۔ کبھی تم نے دوستوں کی محفل میں لطیفہ سنایا ہو اور کوئی بھی نہ ہنسا ہو؟ کسی نے کہہ بھی دیا ہو کہ یار پہلے کا سنا ہوا ہے۔ اس وقت کیسا لگتا ہے؟ بس اوپر والے سب لوگوں کو عین ویسا ہی لگتا ہے جب تم حیرت کا اظہار نہیں کرتے۔

تو، بات اتنی سی ہے کہ سامنے جب بھی کچھ آئے، یہ مت سوچو بیٹے کہ یہ تو دیکھا ہوا ہے، سنا ہوا ہے، کیا ہوا ہے، معلوم ہے۔ سوچ لو کہ نہیں معلوم، جان لو کہ نہیں سنا، ٹھان لو کہ نہیں کیا اور مان لو کہ نہیں دیکھا۔

معلوم ہونے کا احساس جو ہے وہ رس نکل جانا ہے، وہی سنیارٹی ہے، وہی بڑھاپا ہے اور وہی دراصل ایک بور آدمی کا وجود ہے۔

تو جس وقت تم پہنچو ستر اسی برس کی عمر پر اور تمہارے پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں کہیں کہ بابا جی بڑے تجربہ کار عالم آدمی ہیں لیکن تمہارے نیڑے نہ لگیں، تو بس جان لو کہ استاد گڑبڑ وہی تھی جو فقیر بتایا کرتا تھا پر تمہیں ڈگری، عہدے، تجربے یا علم کا بخار چڑھا تھا۔

تمہاری حیرت باقی سب کی خوشی ہے، سب کی خوشی تمہارے لیے زندگی ہے اور یہی وہ چھلکا ہے، پھوک ہے جو بلینڈر کے جوس میں ساتھ شامل ہو جاتا ہے لیکن جوسر اسے نکال کے الگ ڈھیر کر دیتا ہے۔
حیرت کو الگ ڈھیر مت کرو، حیرت کے ڈھیر میں جیو!
یہ تحریر سب سے پہلے انڈی پینڈنٹ اردو پر شائع ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

حسنین جمال کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author