سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے ہیڈ کانسٹیبل قیصر شکیل کو دورانِ ڈیوٹی زخمی ہونے کے باوجود اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرنے پر انہیں وزیرِ اعظم ہاؤس بلا کر حوصلہ افزائی کی اور شاباش دی فرض شناسی کی اس عمدہ مثال پر وزیرِ اعظم کا مذکورہ اہلکار کو انعام دینے کا بھی اعلان کیا۔ٹریفک وارڈنز موسم کی سختی اورگرمی کو جس طرح ہنستے ہوئے برداشت کررہے ہیں وہ قابل تحسین ہے۔ گرمی کی شدت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب تو اے سی بھی بعض اوقات کام کرنا چھوڑدیتے ہیں۔ موسم کی تلخی کے باوجود اللہ کی اے سی جیسی آسائش پرمیں جتناشکر کیا جائے وہ کم ہے لیکن جب میں چلچلاتی دھوپ میں سڑکوں پر کھڑے ٹریفک وارڈنز کو دیکھتی ہوں تو میں سجادہ شکر بجالاتی ہوںکہ ایک طرف ہم جیسے لوگ ہیں جنہیں اے سی نہیں تو کم از کم سایہ اور پنکھا دستیاب ہے لیکن دوسری طرف ہمارے یہ جانباز ٹریفک وارڈنز سردی ہو یا گرمی، اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم آج بھی ان کی اپنے فرائض کی ادائیگی سے قطعاً خوش نہیں اور ان کے ساتھ بدتمیزی اور لڑائی جھگڑا کرنا تو جیسے ہمارے نوجوانوں نے اپنا اولین مقصد بنالیا ہے یہی نہیں بلکہ قانون کی خلاف ورزی پر اپنی غلطی تسلیم کرےاور اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے پولیس، ٹریفک وارڈنز پر تنقید کرنا جیسے ہم نے اپنا حق ہی سمجھ لیا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ دھوپ چھائوں کی سختیوں کو عزت سے نگاہ سے دیکھیں الٹا ان کو حقیر اور تیسرے درجہ کا شہری تصور یہ سوچے سمجھے بغیر کیا جاتا ہے کہ وہ بھی کسی ماں کے لعل ہیں اور اپنے بیوی بچوں اور گھر کی کفالت کے لئے سخت ترین ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔
اگرچہ ہر محکمے میں کالی بھیڑیں شروع سے ہی ہوتی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم پورے محکمے کو ہی برا سمجھنے لگیں۔ اسی طرح ٹریفک وارڈنز جن کو پولیس کے کالے کرتوتوں اور خراب رویے سے تنگ آکر متعارف کروایا گیا تھا جس کا مقصد پڑھے لکھے اور صاف ستھرے یونیفارم پہن کر عوام کے ساتھ شائستگی کے ساتھ پیش آنا تھا لیکن افسوس کہ بعض ٹریفک وارڈنز نے پولیس کی طرح کاہی شرمناک رویہ اختیار کرلیا جس کی بنا پر پورا ڈیپارٹمنٹ بدنام ہوا۔ چند اتھرے ٹریفک وارڈنز کی بنا پر پورے محکمے کو خراب یا بدنام نہیں کہا جاسکتا۔ بس یہی بات ہمیں سمجھنی چاہیے۔ پولیس ٹریفک وارڈنز سب قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں اور ہمیں بھی ایک ذمہ دار شہری کا ثبوت دیتے ہوئے ٹریفک کے اصولوں پر دل و جان سے عمل کرنا چاہیے۔ درحقیقت اکیلے کوئی بھی معاشرہ مثالی نہیں بن سکتا بلکہ اس کے لئے ہم سب کو مل کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔ قانون اور اس کے محافظوں کو عزت و تکریم سے نوازیں گے تو وہ بھی عوام کی عزت کریں گے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ کئی ٹریفک وارڈنز اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران جان سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔
اب اندازہ کیجئے کہ یہ ٹریفک وارڈن ملتان کے 48سے 49درجہ سینٹی گریڈ کی گرمی میں 8،8گھنٹے موٹی ٹاٹ والی یونی فارم پہنے کھڑے رہتے ہیں جبکہ ہم گھروں میں اے سی میں بیٹھ کر بھی ہلکے اور باریک کپڑے پہنتے ہیں۔ ٹریفک وارڈنز ہوں یا سکیورٹی گارڈز یا پھر پولیس اہلکار، سب ہی ہماری توجہ اور محبتوں کے مستحق ہیں کیونکہ جن سخت حالات میں وہ اپنے فرائض منصبی ادا کررہے ہیں وہ کوئی خوشگوار نہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت ان کے موسم کے لحاظ سے یونی فارم پر بھی توجہ دیتی مگر افسوس کہ کوئی اس غیرانسانی عمل کی طرف دیکھنے کو تیار نہیں۔ موم بتی مافیا جسے جانوروں کے حقوق تو یاد ہیں مگر افسوس کہ 48سے 49 سینٹی گریڈ والے درجہ حرارت میں کھڑے ٹریفک وارڈنز کے مسائل بارے کوئی خبر نہیں یا شاید وہ اس بارے کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتے۔ یہاں ہم سرحدوں پر کھڑے اپنے فوجی بھائیوں کو کیسے بھول سکتے ہیں جو سردی ہو یا گرمی یا پھر برفیلے پہاڑوں، اپنے فرائض منصبی چابکدستی کے ساتھ کئی دہائیوں سے انجام دے رہے ہیں۔ افسوس تو اس سوچ پر ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ سکیورٹی پر مامور یہ لوگ ہم پر کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ اس کا وہ معاوضہ لیتے ہیں لیکن کوئی یہ بتانے کی جرات کرے گا کہ عام سول سروس میں کتنے لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے کا خدشہ رہتا ہے اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ اپنے سکیورٹی کے اداروں پر انگلی اٹھانے کی بجائے ان کا مورال بڑھائیں اور اس بات کو ذہن نشین رکھیں کہ یہ ہمارے ادارے ہی ہیں جن کی بنا پر ہم رات کو سکون کی نیند سوتے ہیں۔
وطن عزیز کے تمام ادارے انتہائی اچھے اور بہترین انداز میں محدود وسائل میں رہ کر کام کررہے ہیں اس لئے کسی بھی ادارے کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے ان کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہاں بات ٹریفک اورڈنز کی ہو رہی تھی اگر وہ ٹریفک کی روانی برقرار نہ رکھیں تو ہم مطلوبہ جگہ پر وقت پر نہ پہنچ پائیں۔ اسی طرح ہمارے کمسن اور نوعمر بچے جو گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں لے کر ون ولنگ کرتے ہیں ان پر نظر بھی یہ وارڈنز ہی رکھے ہوئے ہیں اور اگر وارڈنز پر بے جا چالان کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے تو اس میں کسی حد تک سچائی بھی ہے جس پر ٹریفک وارڈنز کی گرفت بھی کرنی چاہیے تاکہ قانون سب کے لئے برابر کا اصول فروغ پاسکے۔ آج پاکستان کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ اداروں کی مضبوطی کی ہے اس لئے ضروری ہے کہ اداروں کو مضبوط اور بااختیار بنایا جائے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ بہتر انداز میں کام کرسکیں۔ ٹریفک وارڈنز ہوں یا پولیس، یہ سب ہمارے ادارے اور ہمارا فخر ہیں۔ ان کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے ہمیں بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لانی چاہیے۔اگرچہ ہر ادارے میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اس لئے ٹریفک وارڈنز کے نہ صرف مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے بلکہ اس ادارے کی کارکردگی بہتر بنانے بارے مثبت تجاویز پر بھی عمل کرنا بے حد ضروری ہے تاکہ ادارے کی کارکردگی میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ نکھار آتا رہے، یہی وقت کی آواز ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر