نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وفاقی بجٹ کے کھڑاک||حیدر جاوید سید

سرکاری ملازمین کے جی پی فنڈ پر ٹیکس نافذ کر دیا گیا ہے ( چند دن قبل ان سطور میں عرض کیا تھا اس ٹیکس کے لئے آئی ایم ایف کا سخت دبائو ہے)

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپوزیشن کا موقف ہے بجٹ کہ گورکھ دھندہ ہے اعداد و شمار کے ہیر پھیر سے عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔
ادھر وفاقی حکومت نے 3990 ارب روپے خسارے کا بجٹ جمعہ کو قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔ بجٹ کا مجموعی حجم 8483 ارب ہو گا۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنی بجٹ تقریر میں اعلان کیا کہ مجموعی طور پر 382 ارب کے ٹیکس عائد کئے جائیں گے ۔ 119ارب کی ٹیکس چھوٹ شامل ہے تنخواہوں اور پنشن میں دس فیصد اضافے کے ساتھ کم از کم تنخواہ بیس ہزار روپے مقرر کی گئی ہے ۔
اس کم از کم تنخواہ کی ادائیگی پر عمل کروانے کا طریقہ کار کیا ہو گا؟
یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے ماضی میں بھی وفاقی اور صوبائی حکومتیں نجی شعبوں کے لئے کم از کم تنخواہ کی حد تو بجٹ میں مقرر کرتی رہیں لیکن ان پر عملدرآمد کا طریقہ کار نہ ہونے سے ملازمین کو شکایات ہی رہیں۔
تین منٹ سے زائد کی فون کال پر ایک روپیہ ہو گا۔ وزراء اور میشران اس کی تردید کر رہے ہیں لیکن بجٹ تقریر میں بتایا گیا کہ ایک جی بی ا نٹرنیٹ ڈیٹا پر پانچ روپے اضافی ٹیکس عائد کیا جارہا ہے ۔
سرکاری ملازمین کے جی پی فنڈ پر ٹیکس نافذ کر دیا گیا ہے ( چند دن قبل ان سطور میں عرض کیا تھا اس ٹیکس کے لئے آئی ایم ایف کا سخت دبائو ہے)
موبائل ایس ایم پربھی دس پیسے ٹیکس نافذ کیا گیا ہے ‘ خام تیل کی درآمد اور آن لائن کاروبار پر 17فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز ہے ۔
وزیر خزانہ کہتے ہیں شرح نمو کا ہدف 4.8 فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا ہے ۔
ترقیاتی بجٹ 900ارب روپے اور دفاع کے لئے 1370 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لئے 3060 ارب’ احساس پروگرام 260ارب روپے سبسڈیز کے لئے 682 ارب اور کورونا وباء کے لئے 100 ارب روپے رکھے گئے
( وزیر خزانہ نے یہ نہیں بتایا کہ کورونا کے لئے پہلے 1200ارب روپے میں ہوئے کھشالے کا کیا ہوا؟)
اگلے سال جون تک دس کروڑ لوگوں کی ویکسی نیشن کا ہدف ہے ۔
ماہانہ 25ہزار روپے بجلی بل والے نان فائلر گھریلو صارفین پر 7.5فیصد اضافی ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کر دیا گیا ہے ۔ پانی کے بحران پر قابو پانے کے لئے 91 ارب روپے مختص کئے گئے ۔ چینی پر جی ایس ٹی بڑھانے کی تجویز منظور کر لی گئی تو چینی سات روپے کلو مزید مہنگی ہو جائے گی
نئی مردم شماری اور بلدیاتی انتخابات کیلئے پانچ ‘ پانچ ارب رکھے گئے ہیں۔ نیب کے بجٹ میں 37 کروڑ 68لاکھ 96 ہزار کی کمی کی گئی ہے ۔ صدر مملکت کی تنخواہ 8 لاکھ 96 ہزار اور وزیر اعظم کی دو لاکھ تین ہزار روپے ماہانہ ہوئی۔
وزیر خزانہ کہتے ہیں چھوٹی گاڑیوں پر ٹیکس وغیرہ کم ہونے سے موٹر سائیکل سوار اب کار سوار بن سکیں گے سبحان ا للہ کیا عقل کی معراج پر کھڑے شخص کے فرمودات ہیں۔
زراعت کیلئے بارہ ارب روپے رکھے گئے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ زرعی معیشت والے ملک کی وفاقی حکومت کو زراعت کی ترقی سے کتنی دلچسپی ہے ۔
بڑے افسران کی تنخواہوں میں 35فیصد اضافے کی تجویز ہے سول و ملٹری ملازمین کی ملازمین کی مجموعی پنشن کا حجم 480 ارب روپے ہو گا۔
صوبوں کو 3411 ارب روپے ملیں گے یاد رہے سندھ اس تقسیم کو مسترد کر چکا ہے اس کا مؤقف ہے سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے صوبے کے ساتھ غیر منصفانہ برتاو کیا جارہا ہے ۔
پانچ لاکھ کے بلا سود قرضے شہری آبادی کے گھرانوں کو کاروبار کے لئے دیئے جائیں گے ۔ دیہی آبادی کے گھرانوں کا جرم کیا ہے یہ نہیں بتایا گیا ۔
بجلی کے منصوبوں کے لئے 118 ارب روپے رکھنے کی تجویز بھی ہے ۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ 3990 ارب روپے کا خسارہ پورا کیسے ہو گا؟ سادہ سا جواب ہے ضمنی بجٹ آئیں گے نئے ٹیکس لگیں گے کیونکہ نوٹ چھاپ کے تو خسارہ پورا نہیں ہو گا۔
بجٹ کا سولہ فیصد دفاعی حصہ ہے جس میں سات فیصد بری فوج کے لئے اور نو فیصد فضائیہ اور بحریہ کے لئے ۔
صاف سیدھی بات ہے حکومت کے لئے وصولی کا ہدف پورا کرنا ممکن نہیں ہو گا یوں ظاہر ہے کہ شہریوں پر مزید بوجھ پڑے گا۔ پٹرولیم لیوی میں160 ارب کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے یہ آسمان سے تو نہیں اترے گا پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس(خالص حکومتی آمدن) میں مزید اضافہ ہوگا۔
مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا۔
نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف کی معاونت و رہنمائی میں یہی بجٹ بن سکتا تھا۔
قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران ناخوشگوار باتیں بھی ہوئیں اس پر جتنا افسوس کیا جائے وہ کم ہے ۔
پی ٹی آئی اور نون لیگ کی خواتین ارکان ایک دوسرے سے الجھ پڑیں اس دوران پی ٹی آئی کی ا یک خاتون رکن قومی اسمبلی تو آپا فردوس اعوان کا سٹائل اپنائے ہوئے تھیں اور مرد ارکان فرما رہے تھے ”ان کے مرد کہاں ہیں عورتوں کو آگے کیوں کر دیا۔ خود آئیں سامنے تو ہم بتائیں”
یہ بجٹ اور بجٹ سیشن کا احوال ہے اس پر قناعت کیجئے اور اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے دعا جو کہ بہت ضروری ہے ۔
پسِ نوشت / قرضوں اور سود کی ادائیگی کیلئے 3060 ارب روپے رکھے گئے سوال یہ ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں نے کورونا سے پیدا ہوئے بحرانوں کی وجہ سے پچھلے سال جولائی سے اکتوبر کے درمیان غریب ممالک کے قرضے اڑھائی سال کے لئے ری شیڈول کر دیئے تھے تو پھر یہ 3060 ارب روپے جو قرضوں اور سود کی ادائیگی کیلئے رکھے گئے کس ” مرض ” کی دوا ہوں گے ؟

یہ بھی پڑھیں:

About The Author