علی عبداللہ ہاشمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے دنوں قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے نام پر بظاہر نیوٹرل اور درحقیقت ن لیگی صحافیوں کے ماتمی دستے نے ن لیگ اور مشاہد حسین سید کی حکومتِ وقت کے ساتھ ساز باز کو چھپانے کے لئے مصطفٰی نواز کھوکھر کی مظلومیت کا جو رونا رویا ہے اس کا مقصد روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس سے پہلے بھی یہی لوگ 16 مارچ 2021 کو پی ڈی ایم اجلاس میں “میاں صاحب کو واپس بلانے پر” اسی قسم کی چالاکیاں کر کے ایسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کی پہلے سے ہو چکی ڈیل کو آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو شہباز شریف کا کہ جس کے بغض میں اور اِس کو نیچا دکھانے کیلئے اِنہوں نے نہ صرف اپنی ڈیل کو میڈیا پر قبول کر لیا بلکہ مریم نواز تو یہاں تک کہہ گئیں کہ وہ عمران خان کے پانچ سال پورے کرانے کی حامی ہیں۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ن لیگ اور اس کی ٹرول صحافی بریگیڈ جھوٹ پھیلانے کی اتنی شوقین کیونکر ہے اور ان کے جھوٹوں کا نشانہ ہر دفعہ پیپلز پارٹی ہی کیونکر ہوتی ہے؟
کیا ہی اچھا ہوتا کہ مولانا اور نواز شریف ایسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے ہو چکے اتحاد کا اعلان کر کے عمران خان کو سیاسی اعتبار سے چاروں شانے چِت کر دیتے، ایسا کرنے سے پیپلز پارٹی سے ان کی جان تو ویسے ہی چھوٹ جانی تھی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے دامن کی گندگی پورے شور شرابے اور اہتمام کے ساتھ پیپلز پارٹی پر اچھال دی۔ اس کارِ خیر میں مریم نواز کے سوشل میڈیا ٹرولز کے علاوہ اندرون و بیرون ملک مقیم درجہ دوم کے صحافیوں نے ان کی فرنٹ لائین بریگیڈ کا کردار ادا کیا۔ مریم کے آلہ کاروں نے گالیوں اور طعنوں کا وہ ڈھونگ رچایا کہ سوشل میڈیا سے لیکر اخبارات تک اور وہاں سے ہر نیوز چینل تک اظہارِ رائے کے تمام فورمز پر لوگ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی پر تنقید کرنے لگے اور ان کے نواز شریف کو پاکستان واپس بلانے والے فقرے کا لیفٹنٹ جنرل آصف غفور کے شریف خاندان کے خلاف ریمارکس سے موازنہ کرنے لگے۔
پیپلز پارٹی قیادت نے نہ صرف خاموشی اختیار کی بلکہ طرفین کے کارکنان کی چند روزہ دھینگا مشتی پر جیالوں کو پی ڈی ایم اتحادیوں کےخلاف سخت زبان استعمال کرنے سے روک دیا گیا۔ بلاول کی مناہی کے بعد ماحول بہتر ہونے لگا تو ن لیگ نے “چور مچائے شور” کے سنہری اصول کو برُوئے کار لاتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کو جلتی پر تیل ڈالنے کا ٹاسک دے دیا جنہوں نے پیپلز پارٹی اور اے این پی کو شو کاز نوٹس جاری کر کے پی ڈی ایم کا خاتمہ بالخیر کروا دیا۔ حالانکہ اصل کہانی صرف اتنی سی تھی کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے ہوتے ہوئے میاں مولانا گٹھ جوڑ من مرضی سے ایسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کرنے سے قاصر تھا لہذا جھوٹ، گالی اور الزام تراشی کی آڑ میں انقلاب کی دھونی رچا کر ان دو جماعتوں سے گلو خلاصی کروا لی گئی۔
اسی طرز پر چار دن پہلے ایک کالم کو ملک بھر میں مارکیٹ کیا گیا جس کے پہلے حصے میں اعزاز سید نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے کمرے کے بیرونی منظر کی ایماندارانہ عکاسی کی جہاں اسے معلوم پڑا کہ باہمی تقسیم میں قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی تھی۔ جسے انہوں نے Good Will Gesture کے طور پر ن لیگ کو دے دیا اور مشاہد حسین اس کے سربراہ مقرر ہوئے لیکن بوجوہ مشاہد حسین نے عمران خانی سرکار سے سانٹھ گانٹھ کر لی اور اپنے تئیں (جو کہ سراسر جھوٹ ہے) حکومتی سینیٹر ولید اقبال کو انسانی حقوق کی کمیٹی کی سربراہی کے لئے نامزد کر کے بدلے میں قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا قلمدان اپنے لیئے پسند فرما لیا۔ اب بنتا تو یہ تھا کہ انسانی حقوق جیسی اہم کمیٹی پر عمرانی سرکار سے حلوہ مانڈا کرنے پر ن لیگ یا کم از کم مشاہد حسین کے لتے لئے جاتے مگر عین اسی جگہ اعزاز سید نے پٹڑی بدل لی اور اسے سابق سربراہ قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق مصطفٰی نواز کھوکھر کے سہانے دور کی یادیں ستانے لگیں جس میں انسانی حقوق کے بہت سے تاریخی کام ہوئے ہیں۔
اعزاز سید نے ہر ممکن طور پر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ جیسے بلاول بھٹو نے مختلف مواقع پر ن لیگی موقف کی حمایت کرنے پر مصطفٰی کو کارنر کیا ہے۔ یہی نہیں، اس نے شہید بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے بیٹے کو دل بڑا کرنے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔ وہ یہ بھول گیا کہ اسکے نانا کے قاتل ادارے کو بلاول کی شہید ماں نے صرف یہ کہہ کر معاف کر دیا تھا کہ “جمہوریت بہترین انتقام ہے۔” بہت سی کتابوں کا مصنف بغضِ بھٹو میں یہ بھی بھول گیا کیسے آصف علی زرداری نے سیف الرحمٰن اور شریف خاندان جیسے عظیم ظالموں کو محض مسکرا کر درگزر کر دیا تھا۔ وہ بھول گیا کہ آصف زرداری کو 11 برس شہر شہر جیلوں میں پھرانے والا نواز شریف جب کوٹ لکھپت جیل میں اپنے پلیٹلیٹس اوپر نیچے کر رہا تھا تو یہی چھوٹے دل والا بلاول اس کی مزاج پرسی کیلئے جیل تک چلا گیا تھا۔ افسوس مصطفٰی نواز کیلئے بین ڈالنے والے نے اپنے قارئین کو یہ نہیں بتایا کہ 2018 سے ن لیگ قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں انسانی حقوق کی کمیٹیوں کے پیپلز پارٹی کے پاس ہونے پر معترض رہی ہے اور بارہا تقاضا کر چکی ہے کہ ان میں سے ایک کمیٹی ان کو دے دی جائے۔ وہ یہ بتانا بھی بھول گیا کہ صرف ایک دن پہلے مصطفٰی نواز نے بذاتِ خود چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو فون کر کے کسی بھی کمیٹی میں اس کا نام قبول کرنے سے منع کیا تھا اور یہ بتاتے تو شاید اس کے پیٹ میں مروڑ ہی اُٹھنے لگتے کہ بلاول بھٹو نے بذاتِ خود مصطفٰی کو فون کر کے ان کا کمیٹی کی ذمہ داری بارے ارادے پوچھا تھا جس پر مصطفٰی نے کسی بھی نئی ذمہ داری کے لئے معذرت کر لی تھی۔ بلاول چاہتا تو بقیہ 25 سینیٹرز میں سے کسی کو بھی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا سربراہ مقرر کر دیتا مگر مصطفٰی کی عدم موجودگی میں اس نے ایسا کرنا مناسب نہیں سمجھا اور تین برس سے جاری مسلم لیگ کے شکوے کو ختم کرنے کے لئے تحفتاً یہ کمیٹی اسے پیش کر دی جس نے اپنے ہینڈلرز کے کہنے پر اسے عمران خان کی گود میں ڈال دیا۔
اس سے پہلے دیگر دو صحافیوں نے اسمبلیوں سے استغفوں کے مدعے پر گلگت میں مصطفی نواز اور عینی مری کی لڑائی کا شگوفہ اُڑا دیا تھا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عمر میں چھوٹی ہونے کے باوجود مصطفٰی نواز عینی مری کو آپی کہتے ہیں اور شائید ہی کوئی ایسا دن ہو جب وہ آپس میں کم از کم گفتگو نہ کرتے ہوں۔ عینی گرم مزاج ہے اور اس کا سیاسی ڈیبیٹ میں مصطفٰی سے اختلافِ رائے ضرور ہوا تھا مگر اگلے ہی لمحے دونوں بہن بھائی پھر سے اکٹھے تھے اور ان کے اس تعلق بارے تمام باخبر صحافیوں کو بخوبی علم بھی ہے لیکن کیونکہ ن لیگی منجن بیچنا ہوتا ہے اور منفعت بھی اسی میں ہے کہ عوام کا دھیان شریف خاندان کی “ذاتی مفاد کیلئے کچھ بھی کر گزرنے” والی مکروہ سیاست سے ہٹایا جائے سو ہمارے صحافی دوست بے پر کی اُڑانے کا کوئی موقع بھی جانے نہیں دیتے۔ اعزاز والے کالم کو ہی لے لیں جسے ملک کے طول و عرض میں بیٹھے اہلِ قلم تک پہنچانے کا ٹاسک ن لیگی ٹرولز اور صحافیوں نے بذاتِ خود سرانجام دیا تا کہ 16 مارچ والی رنگ بازی کی طرح اس بار بھی ن لیگ کی اسٹیبلشمنٹ ایجنٹی پر پیپلز پارٹی کو بدنام کیا جائے۔
ن لیگ ہر بار ایسا کیوں کرتی ہے۔ آج 2021 میں یہ بات کوئی راز نہیں ہے۔ نواز شریف کی سیاست میں آمد بھلے جنرل غلام جیلانی کے طفیل ہوئی ہو مگر ان کی ترقی اسٹیبلشمنٹ کی جی حضوری اور پیپلز پارٹی کے خلاف بڑھ چڑھ کر آوازے کسنے پر ہوئی سیاست کے گہوارے ہی میں انہیں اچھی طرح سمجھا دیا گیا تھا کہ “اگر ملکی سیاست میں اوپر اُٹھنا ہے تو اسٹیبلشمنٹ کی 1 نمبر دشمن پیپلز پارٹی کو گالی دینا ہو گی” اور یہی واحد سبق تھا جس کے اچھی طرح یاد کرنے پر انہیں تین مرتبہ وزیراعظم ہاوس میں متمکن کروایا گیا۔ لیکن یہ سبق تو اوروں نے بھی پڑھا تھا بلکہ دل سے یاد کرنے پر چھوٹی سے طلبا تنظیم APMSO کو ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت تک بنا دیا گیا۔ یہی تو کارن ہے چوہدری برادران اور مذہبی سیاسی قوتوں کے پچھلے 50 برس سے پاکستانی سیاست میں Relevant رہنے کا تو پھر ن لیگ کو کیا پڑی ہے جو اپنے کالے کرتوت بار بار پیپلز پارٹی پر ڈالتی رہتی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ رائٹ ونگ کی ساری قوتیں 1967 میں پیپلز پارٹی کے جنم سے بالعموم اور بالخصوص بھٹو صاحب کی ناحق پھانسی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے سارے کالے کارناموں کی ناصرف رازدان بلکہ بینیفیشری رہی ہیں۔ نواز شریف سمیت رائٹ ونگ کے سیاسی و مذھبی چورن فروش اچھی طرح جانتے ہیں کس کس طرح سے ووٹ چوری کر کے اور بلیک میلنگ سے وفاداریاں تبدیل کرا کے پیپلز پارٹی کے مینڈیٹ کو شہر شہر کُترا گیا ہے۔ حال ہی میں نواز شریف نے جو انقلابی چولا پہنا ہے اسی کی برکات ہیں کہ وہ خود کو نظریاتی سمجھنا شروع ہو گئے ہیں لہذا اس سے پہلے کہ عوام کو ان کے خالی پن کی سمجھ آنے لگے، وہ جھوٹ اور مکر کے جال بُن کر ایک مرتبہ پھر اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بننے کے خواہشمند ہیں۔
دوسرا یہ کہ بلاول کی موجودگی میں نواز شریف کو اپنی بیٹی کا مستقبل تاریک ہوتا نظر آتا ہے۔ مریم نواز سونے کی بھی بن جائیں تو بلاول بھٹو کا علمی و عملی میدان میں مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں سو وہی پرانا اور آزمودہ حربہ زیرِ کار لاتے ہوئے لیڈر موصوف صحافیوں، نشریاتی اداروں، پیڈ ٹرولز اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے حقیقی عوامی لیڈر بلاول بھٹو کو نیچا دکھا کر اپنی متنازع بیٹی کا گراف اونچا کرنا چاہتے ہیں جو ایمپائر کی انگلی کے سہارے تو شاید ممکن ہو دولے شاھی چوہوں سے کالم لکھوا کر تو ہرگز ممکن نہیں۔ رہ گئے مصطفٰی نواز کھوکھو، تو بلاول نے تو ان کی غیر موجودگی میں کسی اور کو قائمہ کمیٹی کی سربراہی نہیں دی لیکن جب ن لیگ کے حامی اِن کا نام لے کر پیپلز پارٹی کے خلاف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کر رہے تھے تو مصطفٰی کو اپنے خول سے باہر آ کر ان کے الزامات کا جواب دینا چاہیے تھا جو صد افسوس کہ انہوں نے نہیں کیا۔ معذرت سے کہنا پڑتا ہے کہ اس خاموشی سے معزز سینیٹر نے ن لیگی پراپیگنڈے کو تقویت دی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر