نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتان کی گرمی کا توڑ ’’درخت‘‘||سارہ شمشاد

اسی طرح مسافر جب سفر پر روانہ ہوں تو کھلی جگہ کھجور، جامن اور آم کی گٹھلی زمین میں دبادیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پھل کے ساتھ موسم کی سختی کو بھی حد تک کم کیاجاسکے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملک بھرمیں آجکل گرمی اپنے زوروں پر ہے اور سورج کی تمازت نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں اور وہ اللہ سے مدد طلب کررہے ہیں کہ کسی طرح سے سورج میاں کا جاہ و جلال کچھ کم ہو تو انہیں بھی سکون ملے کیونکہ طویل دورانیے کی بجلی کی لوڈشیڈنگ نے عوام کی تکالیف میں مزید کئی گنا اضافہ کردیا ہے جس کے بعد عوام یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’اللہ میاں تھلے آ‘‘ تاکہ سورج میاں کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوسکے۔ اگرچہ گرمی نے پورے ملک میں عوام کی مت ماردی ہے لیکن ملتان جو پہلے ہی گرد، گرما، گداو گورستان کے حوالے سے مشہور ہے، نے عوام کی باں باں کروادی ہے اور ہو بھی کیونکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملتان اور سورج کے درمیان فاصلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ختم ہی ہوتا جارہا ہے کیونکہ ضلعی حکومت یہاں پر درخت لگانے کی بجائے درخت کاٹنے کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھے ہوئے ہے اسی لئے تو ملتان شہر میں آپ کو اِکادُکا درخت نظر آئیں گے۔ لاہور جسے ایک دور میں پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ آج بھی کسی حد تک وہاں درخت موجود ہیں جو گرمی کی شدت کو کم کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ شام کے بعد وہاں موسم کافی بہتر ہوجاتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ عرصہ دراز سے محرومیوں اور پسماندگی کے شہر ملتان کی ترقی اور بہتری کے لئے چونکہ حکمرانوں کے پاس کوئی وقت ہی نہیں اسی لئے تو آج تک کسی نے اس شہر کی ترقی کے لئے مجال ہے کہ کوئی پلان بھی ترتیب دیا ہو۔ ادھر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت بلین ٹری سونامی کا کریڈٹ لیتے نہیں تھکتی مگر افسوس کہ اس میگا پراجیکٹ کاعشرعشیر بھی ملتان شہر میں نظر نہیں آرہا۔ کچھ عرصہ قبل ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی اس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ملتان اگلے 10برسوں میں رہنے کے قابل نہیں رہے گا جس کی تصدیق تو ابھی سے ہونا شروع ہوگئی ہے کہ اب لوگوں کے لئے بغیر اے سی کے ملتان میں رہنا محال ہے۔
ملتان چونکہ قدامت پسند شہر ہے اور یہاں کے لوگ بھی کچھ زیادہ خوشحال نہیں اس لئے اے سی جیسی آسائش کی ہر گھرمیںموجود نہیں۔یہی نہیں بلکہ یو پی ایس بھی غریبوں کی پہنچ سے دور ہے کہ دیہاڑی دار، تنخواہ دار طبقہ تو پہلے ہی بدترین مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہے اور بڑی مشکل سے معاملات کو نمٹا رہاہے ایسے میں وہ یو پی ایس جیسی پرتعیش چیز کے بارے میں کیسے سوچ سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے شکار ممالک میں پاکستان پہلے 5نمبروں پر ہے لیکن اس کے باوجود اس طرح کے جنگی اقدامات تاحال نہیں کئے گئے جن کی اشد ضرورت ہے۔ اگر یہاں وزیراعظم عمران خان کی موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کوششوں کی تعریف نہ کی جائے تو بڑی زیادتی ہوگی۔ ابھی چند روز قبل ہی تو پاکستان کوموسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے انٹرنیشنل کانفرنس کے انعقاد کا اعزازحاصل ہوا جس میں تمام بڑے عالمی رہنمائوں نے پاکستان کی اس حوالے سے کی جانے والی کوششوں کو خوب سراہا لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان بدترین آبی بحران کا شکار ہے اور تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح ڈیڈلیول تک گرگئی ہے جس کے باعث ملک بھر میں یکدم لوڈشیڈنگ میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بعض ماہرین تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں بدترین آبی قلت ہے اور روزمرہ کی ضروریات گلیشیئرز پگھلنے کے باعث حاصل ہونے والے پانی سے پوری ہورہی ہیں۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ نے ’’بلین نہیں ٹریلین ٹری سونامی‘‘ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان ہمیشہ آئندہ نسلوں کا سوچنے کی بات کرتے ہیں جس پر کسی کو کوئی شبہ نہیں لیکن اس وقت اگر یہاں صرف ملتان کی بات کی جائے تویہاں سایہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا اسی لئے تو ادھر کا درجہ حرارت بے حد بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ شنید تھی کہ حکومت طلباء کو اگلی کلاس میں پروموٹ کرنے کے لئے ایک درخت لگانے کو بھی لازمی قرار دے رہی تھی لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ یاد رہے کہ کئی ممالک اس پر پہلے ہی عملدرآمد کرواچکے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک بہتر تجویز ہے جس کے ذریعے ملک بھر میں درختوں کی تعداد میں اضافہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ حکومت کے پاس تو اتنی بھی فرصت نہیں ہے کہ وہ لگے ہوئے درختوں کو ہی بچانے کی کوئی سبیل کرے اسی لئے تو ملتان شہر سے کئی کئی ایکڑ پر مشتمل آموں کے باغات بنا سوچے سمجھے ختم کرکے وہاں رہائشی کالونیاں بنائی جارہی ہیں اور یہ تک سوچا نہیں جارہا کہ آم سے نہ صرف ملک کو زرمبادلہ بلکہ درختوں سے آکسیجن بھی حاصل ہوتی ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سارے کام حکومت نے ہی نہیں کرنے بلکہ کچھ کام خود ہم عوام نے بھی کرنے ہیں۔ درخت لگانا ان میں سے ایک ہے۔ اگر عوام درخت لگانے کو اپنی قومی ذمہ داری سمجھ لیں تو پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکتا ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ عوام بالخصوص والدین اپنی آنے والی نسلوں کا سوچیں اور انہیں ریلیف فراہم کرنے کی سبیل ابھی سے کریں کیونکہ آجکل ماحولیاتی آلودگی جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اس کے باعث عوام کے لئے صاف فضا میں سانس لینا ایک خواب بن کر رہ جائے گا اسی لئے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کے کل کے لئے درخت لگانے کو اپنی ذمہ داری گردانیں اور دوسروں کو بھی زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ترغیب دیں تاکہ موسمیاتی مشکلات کا مقابلہ کیا جاسکے۔ عوام کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ ہر کام اللہ اور حکومت کے سپرد کرکے اپنے فرائض سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ عوام کو ایک مہذب اور باشعور قوم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے
چھوٹے بڑے درخت لگانے کے لے کوئی ایک دن نہیں مقرر کرنا چاہیے بلکہ ہر روز ایسی چھوٹی موٹی سرگرمی کرنی چاہیے۔ اسی طرح مسافر جب سفر پر روانہ ہوں تو کھلی جگہ کھجور، جامن اور آم کی گٹھلی زمین میں دبادیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پھل کے ساتھ موسم کی سختی کو بھی حد تک کم کیاجاسکے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا صرف حکومت کا ہی نہیں عوام کا بھی فرض ہے تبھی جاکر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک سرسبز پاکستان دے سکتے ہیں۔ ضروری ہے کہ دیگر مسائل کے ساتھ اس اہم ترین ایشو بارے بھی سنجیدگی سے غور کیاجائے بصورت دیگر آج ملتان کے 10سال کے بعد رہنے کے قابل نہ رہنے کی خبریں آرہی ہیں تو کل اس فہرست میں لاہور، کراچی سمیت دیگر شہر بھی آسکتے ہیں اس سے پہلے کہ معاملات اس نہج پر پہنچیں ہم سب کو اس صدقہ جاریہ میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالنا چاہیے یہی وقت کی پکار ہے۔ملتان کی ضلعی انتظامیہ کو بھی اپنے طور پر عوام میں درخت لگانے بارے آگاہی مہم شروع کرنی چاہیے اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو روکنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں اور ہفتہ میں ایک دن سکولوں، کالجوں اوریونیورسٹیوں سمیت تمام تعلیمی اداروں میں ایسا وقف کرنا چاہیے جہاں ایک ٹٹوریل پیریڈ ہو اور طلبا شہر کے مختلف حصوں میں جاکر پودے لگائیں یہی نہیں بلکہ 10نمبر بطور سیشنل پودوں کی نگہداشت کرنے والے طلبہ کو دیئے جائیں۔ساتھ ہی ساتھ سند جاری کرتے وقت طلبا کی درخت لگانے کی کاوشوں کو بھی تسلیم کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author