حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرمی دن بدن بڑھتی جارہی ہے ضرورت سے زائد بجلی کے وعدے کھوکھلے نکلے اس کے ساتھ لوڈشیڈنگ کا عذاب حسب سابق ہے ویسے سیاست کا موسم بھی گرما گرم ہے ۔
مریم نواز اور پیپلز پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات شازیہ مری آمنے سامنے ہیں۔ مریم نواز نے گزشتہ روز کہا پی پی پی اب پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے اس کے حوالے سے مجھ سے سوال نہ پوچھا جائے ۔
شازیہ مری کہتی ہیں ۔ یہ عجیب ہے پی ڈی ایم جس جماعت نے بنائی اس کو نکال کر ایک اجنبی خاتون مالک بن بیٹھی انہیں تو پی ڈی ایم کا نام استعمال نہیں کرنا چاہئے ۔
اس سے بھی گرما گرم معرکہ ایک ٹی وی پروگرام میں ہوا جہاں آپا فردوس عاشق اعوان نے پی پی پی کے نومنتخب ایم این اے پروفیسر قادر مندوخیل کوگالیاں دینے کے بعد تھپڑ رسید کر دیا۔ بات کرپشن پر ہو رہی تھی قادر مندوخیل نے ان سے کہا آپ نے بھی تو طلباء و طالبات کے لئے حاصل کردہ بسوں کے معاملے میں کھٹالہ کیا اس لئے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے آپ کو وزارت سے ہٹایا۔
بات بڑھ گئی پھر جو ہوا وہ سوشل میڈیا پر دوڑتے بھاگتے ویڈیو کلپس میں دیکھا جا سکتا ہے ۔
اس معرکہ پر مزید کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں البتہ اگر تھپڑ قادرمندوخیل نے مارا ہوتا تو خواتین کے حقوق کے علمبرداروں کو اس وقت غشی کے دورے پڑ رہے ہوتے ۔
چلیں لمحہ موجود سے نکل کر پاکستانی سیاست کی تاریخ کے اوراق الٹتے ہیں۔ ایک قلم مزدور کی حیثیت سے پچھلی ساڑھے چار دہائیوں میں ۔ سیاستدانوں ‘ ادیبوں ‘ شاعروں ‘ علماء اور اہل دانش کے سینکڑوں انٹرویو کئے ۔ کیسے کیسے نفیس لوگ ہماری تاریخ کے روشن حصے کا نور تھے ۔ معراج محمد خان ‘ خاطر غزنوی ‘ نوابزادہ نصر اللہ خان ‘ سردار شیرباز مزاری ‘ مولانا شاہ احمد نورانی ‘ پیر صاحب پگاڑا مرحوم ‘ مرشد جی ایم سید ‘ محمدحنیف رامے ‘ رسول بخش پلیچو ‘ پروفیسر غفور احمد ‘ نصر اللہ خٹک ‘ مفتی محمد خان قادری ‘ جسٹس(ر) جاوید اقبال اور بھی نام ہیں جن سے پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے لئے انٹرویو کیا۔
غلام احمد قاصر مرحوم اور دیگر بہت سارے اہل دانش سے مکالمے ان دنوں ہوئے جب ”مشرق” کا ادبی صفحہ شروع ہوا تھا۔
بیگم کلثوم نواز مرحومہ کا انٹرویو بہت ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ ابھی ماڈل ٹائون والی قیام گاہ پر نظر بند تھیں یہ غالباً نومبر 2000 کی بات ہے ہم کسی نہ کسی طریقہ سے ان تک پہنچ گئے دس بارہ منٹ ہی بات چیت ہو پائی اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد بہت پیشیاں بھگتیں۔
( یہ انٹر ویو روزنامہ آج پشاور اور دستک کراچی میں شائع ہوا تھا )
سوالوں کے جواب دینا پڑے ایک آدھ بڑے صاحب نے دھمکی آمیز زبان برتی لیکن پھر قصہ یوں تمام ہوا کہ اس کے چند دن بعد میاں نواز شریف اور ان کا خاندان جنرل پرویز مشرف کی حکومت سے دس سالہ معاہدہ جلاوطنی کرکے ملک چھوڑ گیا۔
سیاستدانوں میں سب سے نفیس شخص اور منتخب الفاظ میں سوال کا جواب دینے والوں میں مرشد جی ایم سید ‘ پیر پگاڑا اور نوابزادہ نصر اللہ خان تھے ۔ کیا مجال کہ ایک لفظ کم یا زیادہ بولیں سوال کے جواب میں جی ایم سید بات کرتے تھے تو ایسا لگتا تھا جیسے پوری انسانی تاریخ ہاتھ باندھ کر روبرو کھڑی ہو۔
اس طرح سردار شیرباز خان مزاری مختصر جواب دیا کرتے ہر سوال کا۔
پیر صاحب پگاڑا تو سوال کاجواب دیتے ہوئے ایک دو کتابوں کا حوالہ بھی دے دیتے کہ وہ دیکھ لینا۔
یہ سبھی بزرگ جو اب ہمارے درمیان موجود نہیں وسیع المطالعہ تھے ۔ ہمارے لمحہء موجود کے سیاستدانوں اہل دانش اور علماء کتنا پڑھتے ہیں تاریخ اور عصری موضوعات پر حتمی رائے نہیں دی جاسکتی
البتہ مولانا فضل الرحمان کا مطالعہ اور حافظہ دونوں کمال کے ہیں۔
سرائیکی قومی سیاست کے اولین معماروں میں سے ایک مرحوم تاج محمد خان لنگاہ بھی اپنی ذات میں تاریخ ہی تھے گو سوال کا جواب بہت طویل دیتے تھے لیکن غیر ضروری بات نہیں کرتے تھے ۔
مرحوم مفتی خان محمد قادری اور ڈاکٹر جسٹس(ر) جاوید اقبال سے لیے گئے انٹرویوز پر بھی ان کی اشاعت کے بعد بہت شور مچا دونوں صاحبان اپنی کہی بات پر ثابت قدم رہے بلکہ مفتی قادری مرحوم نے تو شادمان لاہور میں واقع اپنی مسجد میں نماز جمعہ کے خطبہ میں اس انٹرویو کے ایک ایک لفظ کی ذمہ داری قبول کرکے ان شرپسندوں کا منہ بند کر دیا جو توہین مقدسات کا شور مچائے ہوئے تھے( اور کہتے تھے چونکہ انٹر ویو لینے والا شیعہ تھا اس نے مفتی صاحب کے انٹرویو میں اپنے عقیدے کی ملاوٹ کردی ہے ) اسی طرح ڈاکٹرجاوید اقبال نے تحریری طور پر کہا کہ انٹرویو ریکارڈ شدہ ہے اور میں نے یہی کہا ہے کہ جو شائع ہوا ہے
دونوں میں ایک قادری صاحب نے کہا تھا "ماضی کے کسی نظام کو آئیڈیل قرار دے کر لوگوں کی ذہن سازی کرنا جرم ہے ہر عہد اپنے لئے اس عہد کی ضرورتوں کے مطابق نظام کی تشکیل چاہتا ہے ۔ اپنے زندہ وجود کو بھلا کر ہزار بارہ سو سال پیچھے کے ریاستی نظام اور سماج میں لے جانا ممکن نہیں” ۔
اس طرح فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا تھا کہ "جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ علامہ اقبال کس اسلامی نظام قسم کی چیز کے علمبردار تھے انہیں مزید پڑھنے کی ضرورت ہے ۔ علامہ اقبال میرے والد تھے مجھ سے بہتر ان کی فکر و فہم کو کون سمجھ سکتا ہے”
ان دونوں بزرگوں کے جوابات لے کر ایک طرف مذہبی حلقوں میں سے چند لوگ شور مچانے لگے تھے دوسری طرف خود ساختہ ماہرین اقبالیات نے اودھم مچایا۔
گزرے ماہ و سال کی یادوں میں سے کچھ نکال کر ان سطور میں کبھی کبھی جو عرض کرتا ہوں اس کے دو مقصد ہوتے ہیں
اولاً یہ کہ ہمارے شعبہ کے نوجوان دوستوں کو مطالعے اور سماجی تعلقات دونوں کو اہمیت دینی چاہئے ثانیاً یہ کہ آپ جس شخصیت سے انٹرویو کرنے جارہے ہیں اس کے بارے میں مکمل آگہی ہو۔
منہاج القرآن کے بانی پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کے دو تین انٹرویو کئے ۔ کیا شاندار مطالعہ ہے ان کا اولین انٹرویو جو”مشرق” کے لئے ہی ہوا تھا بہت شاندار رہا تب یہ انٹرویو مشرق کے چاروں ایڈیشنوں میں شائع ہوا ۔( ان دنوں ” مشرق ” این پی ٹی کا اخبار تھا نجکاری بعد کے برسوں میں ہوئی )
ہاں ایک قلم مزدور کے طور پر مجھے یہ حسرت ساری عمر رہے گی کہ ذوالفقار علی بھٹو اور یحییٰ بختیار مرحوم کا انٹرویو نہ کرسکا۔ بھٹو صاحب کی زندگی میں تو ہم ابتداً اخبار کے بچوں کے صفحے میں کام کرتے تھےاسی دوران آگے بڑھ کر معاون رپوٹر بنے اور پھر ایک واقعہ کے بعد ادارتی صفحہ پر بھیج دیئے گئے ادارتی صفحات سے یہ رشتہ 45 برس پرانا ہے ۔
یحییٰ بختیار مرحوم سے کوشش کے باوجود رابطہ نہ ہوسکا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر