نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شاہ محمود کی جنوبی پنجاب بارے گھن گرج||سارہ شمشاد

وزیراعظم عمران خان آجکل جنوبی پنجاب کے نمائندوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں جس کے باعث وسیب زادوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے کہ اب وہ دن دور نہیں جب جنوبی پنجاب کو اس کا اصل حق دیا جائے گا
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے نشتر میڈیکل یونیورسٹی ملتان کی سولرائزیشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہ کہ اس خطے کا منتخب نمائندہ اور ملتان کی مٹی کا سپوت ہونے کی حیثیت سے سوال کرتا ہوں کہ وزیراعظم عمران خان کے ہاتھوں سنگ بنیاد رکھے جانے والے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی تعمیر بارے ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ انہوں نے حکومت پنجاب سے سوال پوچھا کہ جنوبی پنجاب پراجیکٹ کے لئے 4ارب روپے مختص کئے گئے تھے لیکن 11ماہ گزرنے کے باوجود اس رقم کو تاحال استعمال میں نہیں لایا جاسکا ہے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے درخواست کی کہ رواں مالی سال کے اختتام میں صرف 23دن باقی ہیں لہٰذا وہ اس خطے کے عوامی نوعیت کے مسائل پر توجہ دیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی حکومت سے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی تعمیر اور فعال کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ شاہ محمود قریشی کا ملتان کے نمائندے کی حیثیت سے وزیراعلیٰ پنجاب سے سوال بالکل درست ہے کہ مالی سال ختم ہونے میں فقط 23روز باقی ہیں لیکن 4ارب کا بجٹ تاحال استعمال نہیں کیا جاسکا جس کے باعث اس کے Laps ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ اگرچہ ایسا جنوبی پنجاب کے ساتھ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوگا بلکہ اس سے قبل میرے خطے کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک روا رکھا گیا۔ مجال ہے کہ سوائے چند ایک لکھاریوں کے کسی نے کبھی کوئی چوں چراں بھی کی ہو۔ تاہم جہاں تک شاہ محمود قریشی کے وزیراعلیٰ پنجاب کی کلاس لینے کا تعلق ہے تو یہ کہنا کچھ غلط نہیں ہوگا کہ وہ آجکل بڑی فارم میں ہیں۔ مسئلہ چاہے فلسطین کا ہو یا افغان مشیر کو جواب یا پھر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے لئے مختص فنڈز کا، شاہ محمود قریشی کے دبنگ بیانات نے ان کی گڈی چڑھادی ہے۔ اگرچہ بعض تجزیہ کار شاہ محمود کے حالیہ بیانات کو بڑھکیں بھی قرار دے رہے ہیں کہ اس قسم کے زوردار بیانات کا مقصد پالیسی سازوں کو یہ باور کروانا ہے کہ وہ عمران خان کی طرح گفتار کے غازی ہیں اور پاکستان کو عالمی سطح پر بہتر انداز میں پیش کرسکتے ہیں۔ تاہم شاہ محمود قریشی کے حالیہ بیان سے ان کے لئے آئندہ الیکشن میں عوام کو بیوقوف بنانا کوئی خاص مشکل نہیں ہوگا لیکن شاہ محمود قریشی کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین ہیں اگر ان کے سینے میں اپنے علاقے اور اس کے لوگوں کے لئے اتنا درد ہے تو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کے معاملے کو خود دیکھیں تاکہ اپوزیشن اور پی پی پی کو ان کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کا موقع میسر نہ آسکے۔
ادھر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے کہا کہ پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ علاقے کو ہمیشہ اہمیت دی لیکن افسوس کہ موجودہ حکومت کو صوبہ بنانے کا طریقہ کار ہی نہیں پتہ۔ ویسے اگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر سوچا جائے تو گیلانی صاحب کچھ غلط بھی نہیں کہہ رہے کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لئے ابھی تک آئینی و قانونی راستہ اختیار ہی نہیں کیا گیا تبھی تو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کے سپنے پر عوام یقین کرنے کو ہی تیار نہیں کیونکہ 3برس میں پی ٹی آئی کی حکومت نے عوام کو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کے حوالے سے صرف لارے ہی تو دیئے ہیں تبھی تو 4ارب روپے کے فنڈز Lapse ہورہے ہیں لیکن حکومت پنجاب کے سر پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا تعلق بھی جنوبی پنجاب کے پسماندہ ترین علاقے ڈی جی خان سے ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اس حوالے سے ذاتی دلچسپی لیتے لیکن افسوس کہ معاملات آج بھی نشستن، گفتن اور برخاستن تک ہی محدود ہیں جس کے باعث عوام کے ذہنوں میں پی ٹی آئی حکومت کے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے حوالے سے غیریقینی کی صورتحال جنم لے رہی ہے جو کچھ غلط اس لئے بھی نہیں ہے کہ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے حوالے سے معاملات زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہیں اس لئے یوسف رضا گیلانی کا حکومت سے یہ استفسار بالکل درست ہے کہ کیا پی ٹی آئی نے پنجاب اسمبلی میں علیحدہ صوبہ کی قرارداد پیش کی ہے؟ انہوں نے کہا ہم نے صوبائی اور قومی اسمبلی سے علیحدہ صوبے کی قرارداد منظور کروائی تھی۔ سینٹ سے بل دو تہائی اکثریت سے منظور کروایا تھا۔ یہی نہیں بلکہ سینٹ سے قبل جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لئے فرحت اللہ بابر کی سربراہی میں کمیشن بھی قائم کیا تھا لیکن قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے صوبہ نہ بن سکا۔ یوسف رضا گیلانی نے درست حقائق پیش کئے ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ اگر آج کی طرح پہلے عوامی نوعیت کے مسئلے پر مفاہمتی پالیسی اختیار کرکے اپوزیشن کو منالیا جاتا تو آج معاملات کچھ اور ہی ہوتے لیکن جنوبی پنجاب صوبے کا قیام خالصتاً اس علاقے کا اپنا مسئلہ ہے اور اگر یہاں کے لوگوں کو وسائل مل گئے تو وہ خودمختار ہوجائیں گے اور پھر اپر پنجاب کو آنکھیں بھی دکھانے لگیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کو پسماندہ اور محروم رکھنے کی کوششیں قیام پاکستان کے بعد سے ہی جاری ہیں۔تاہم جہاں تک پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے جنوبی پنجاب صوبہ نہ بنانے کا تعلق ہے تو سچ یہی ہے کہ ایسا کرنے سے اس کی پنجاب میں حکومت ختم ہوجائے گی۔ دراصل یہی وہ خوف ہے جس کی بنا پر جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کا معاملہ صرف بیانات اور فائلوں تک کی محدود نہ ہو۔
پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں سب کو ساتھ لے کر چلا جاتا ہے مگر ہمارے وزیراعظم تو سولو فلائٹ کے خواہاں ہیں اور ساتھ ہی یہ بات بھی کرتے ہیں کہ اپوزیشن کو ساتھ بٹھانے کا مقصد صرف اور صرف این آر او دینا ہے جو درست ہے کیونکہ انتخابی اصلاحات کا معاملہ ہو یا کچھ اور، اپوزیشن ہمیشہ حکومت سے کچھ لو اور کچھ دو کے موڈ میں ہی نظر آئی۔ اس لئے فقط حکومت کو دوش دینا ہی اس معاملے میں کافی نہیں لیکن حکومت اپوزیشن کے باغی پن کو دیکھ کر ملک و درپیش اصل مسائل سے کسی صورت بھی روگردانی نہیں کرسکتی اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کے قیام اور عوامی ایشوز جیسے اہم نوعیت کے معاملات میں پیشرفت کے لئے آئینی اور قانونی راستہ اختیار کرے خاص طورپر اس وقت جب پیپلزپارٹی کی جانب سے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے حوالے سے حکومت کا ساتھ دینے کا برملا اور واضح اعلان کیا گیا ہے جس سے حکومت کو بھرپور فائدہ اس لئے بھی اٹھاناچاہیے کیونکہ اگر حکومت جنوبی پنجاب صوبے کا قیام عمل میں اپنی مقررہ مدت میں نہ لاسکی تو آئندہ الیکشن میں اس کا جنوبی پنجاب سے نام و نشان ہی مٹ جائے گا اس لئے ضروری ہے کہ حکومت اپوزیشن کو آنکھیں دکھانے کی بجائے معاملات کو سنجیدگی اور مفاہمتی انداز میں آگے بڑھانے کی سبیل کرے اور اس بات کا ادراک کرے ۔اس لئے بہتر یہی ہوگا وزیراعظم جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لئے فی الفور آئینی اور قانونی آپشن کے استعمال کی ضرورت پر زور دیں تاکہ اس خطے کے عوام کے مسائل میں کسی حد کمی آسکے اور کچھ تو امید ہوسکے یہی نہیں بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب 4ارب کے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے لئے فنڈز استعمال نہ ہونے پر عوام کو فی الفور وضاحت پیش کریں کیونکہ پاکستان کی عوام کو اب صرف وعدوں، نعروں اور دعوئوں سے نہیں ٹرخایا جاسکتا۔
وزیراعظم عمران خان آجکل جنوبی پنجاب کے نمائندوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں جس کے باعث وسیب زادوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے کہ اب وہ دن دور نہیں جب جنوبی پنجاب کو اس کا اصل حق دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ وزیراعظم سے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے احمد حسن ڈیہڑ، عون عباس بپی، سردار نصراللہ دریشک اور بیرسٹر سردار علی رضا دریشک نے ملاقاتیں کی ہیں جبکہ وفاقی وزیر صنعت و تجارت اینڈ انڈسٹری خسرو بختیار کا کہناہے کہ وسائل کا رخ جنوبی پنجاب کی طرف موڑیا ہے میگا پراجیکٹس جلد شروع ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لئے ترقیاتی فنڈز مختص کئے جائیں گے۔ خسرو بختیار سے ملاقات میں ایم پی اے میاں شفیع نے ضلع رحیم یارخان کے لئے 14ارب روپے کا ترقیاتی پیکیج دینے پر شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم جنوبی پنجاب کے نمائندوں سے صرف ملاقاتیں ہی نہ کریں بلکہ عوام کی امنگوں اور خواہشات کو سمجھیں اورفی الفور جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کو عملی شکل دینے کے لئے اپنے جارحانہ سپیل کا آغاز کریں تبھی جاکر وہ آئندہ الیکشن میں عوام کے دربار میں سرخرو ہونے کی توقع کرسکتے ہیں۔ ضروری ہے کہ شاہ محمود لفظی گولہ باری کی بجائے جنوبی پنجاب صوبہ تاحال ان کی حکومت کیونکر نہیں بناسکی، بارے عاوم کو سنجیدہ جواب دیں کیونکہ اس خطے کے عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ علیحدہ صوبے کے قیام کے وعدے پر دیئے تھے۔
یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author