نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلاول کا جائز شکوہ!!||سارہ شمشاد

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ رائے ونڈ کے وزیراعظم کو سزا کے باوجود باہر بھیج دیا گیا، یہ احتساب نہیں ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ رائے ونڈ کے وزیراعظم کو سزا کے باوجود باہر بھیج دیا گیا، یہ احتساب نہیں ہے۔ بلاول کا غیرجانبدار احتساب نہ ہونے پر سوال اٹھانا ان کا آئینی اور قانونی حق ہے اور ساتھ ہی ایک آزاد اور مضبوط اپوزیشن ہونے کا اظہار بھی کہ وہ حکومت کی غلطیوں کی نہ صرف نشاندہی کرے بلکہ ان پر آواز بھی اٹھائے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں آج تک کبھی غیرجانبدار احتساب ممکن ہی نہیں ہوسکا جس کی بنا پر آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ احتساب کا نعرہ لگانے والے خود ہی مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ اگرچہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی جانب سے ایک مرتبہ پھر سب کے لئے ’’احتساب‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہونے کا نعرہ بلند کیا گیا ہے لیکن پاکستان کے باشعور عوام پر من پسند احتساب کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ روز اول سے نیب نامی ادارہ اپنی پوری اور مستعد کارکردگی کا مظاہرہ ہی نہیں کررہا اور اگر کبھی بھولے بسرے ’’کسی‘‘ پر ہاتھ بھی ڈالا جاتا ہے تو اس احتساب کا کیا فائدہ جس کا لوگوں کو برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ احتساب کی سست روی سے عوام احتساب نامی چڑیا سے انتہائی مایوس ہیں کہ یہ ادارہ اب انہیں بوجھ ہی لگنے لگا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو عوام کی نیب بارے سوچ کچھ خاص غلط بھی نہیں ہے کیونکہ نیب کو آئے روز بیان جاری کرنے کی بجائے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ عوام میں بددلی جنم نہ لے کہ ان کے ٹیکسوں سے تنخواہیں لینے والے حق حلال کرکے نہیں کھارہے۔ اگر یہاں پر نیب کی پراسکیوشن کی بات کی جائے تو سوائے ماتم کے کچھ نہیں کیا جاسکتا کہ عدالت میں اس قدر کمزور دلائل پیش کئے جاتے ہیں کہ بعض اوقات تو یہ محسوس ہونے لگتاہے کہ نیب ملزم کو الزامات سے نجات دلوانے میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ اگر یہاں پرصرف شریف خاندان کی ہی بات کی جائے تو سب سمجھ میں آجائے گا۔ نوازشریف چند ہفتوں کا کہہ کر طبی بنیادوں پر لندن گئے تھے مگر اب ڈیڑھ برس ہونے کو آیا ہے مجال ہے کہ ان کی واپسی کی کوئی امید بھی ہو۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پاکستان پیپلزپارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری نے میاں نوازشریف کو وطن واپسی کامشورہ دیا تو مریم بی بی ایسے سیخ پا ہوئیں کہ زرداری صاحب سے ان کی جان کی حفاظت کی گارنٹی مانگ لی حالانکہ یہ وہی مریم بی بی ہیں جوخود بھی ضمانت پر عرصہ دراز سے ہیں اور اداروں کو وقتاً فوقتاً للکارتی رہتی ہیں۔ مریم بی بی ووٹ کو عزت دو کا تو نعرہ لگاتی ہیں لیکن خود اس پر عمل کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ جن سیاسی جماعتوں میں قیادت نسل در نسل منتقل ہو وہاں ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ عوام سے مذاق ہی ہے۔ شاید ایسا نعرہ مستانہ لگانے والوں کو یہ لگتاہے کہ عوام کا حافظہ بڑا کمزور ہے اور وہ جنرل جیلانی اور جنرل ضیا نے کس کو سیاست میں دوام بخشوایا، کی حقیقت کو یکسر ہی بھلاچکے ہیں۔
تاہم جہاں تک بلاول کے احتساب کی شفافیت پر انگلیاں اٹھانے کی بات ہے تو وہ بالکل درست ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کو عدالتوں سے ریلیف کوئی پہلی مرتبہ نہیں ملا بلکہ ماضی میں ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں جہاں من چاہے فیصلے بھی بزور طاقت کروائے گئے۔ جسٹس قیوم اور شہباز شریف کی ریکارڈنگ تاریخ کا وہ بدنما داغ ہے جس سے ہم چاہ کر بھی جان نہیں چھڑواسکتے حالانکہ ماضی میں تو عوام (ن) لیگ اورپ ی پی پی کی کرپشن کے قصوں سے سے ہی بہت تنگ تھی۔
اگرچہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کرپٹ مافیا کے خلاف آخری دم تک لڑنے کے عزم کااظہار کئی مرتبہ کیا گیا ہے لیکن کرپٹ عناصر کی گرفت اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا عمل جس سست روی کا شکارہے اس کا خمیازہ اس ملک کی غریب عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے کہ اب تو وفاقی وزیر اسد عمر ازخود مہنگائی بڑھنے کا اعتراف کررہے ہیں حتیٰ کہ وزیراعظم مہنگائی کی پریشانی کے باعث سو نہ پانے کی بات کررہے ہیں تو پھر ایسے میں عوام ان سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ آخر وہ کون سی وجہ ہے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس کیونکر نہیں آسکی ہے۔ کوئی بھی ادارہ دیکھ لیں وہاں کرپشن کے ایسے ایسے ہوشربا سکینڈل دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ آفرین ہے مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل پر جو پی آئی اے کے ساتھ سٹیل مل فری دینے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان عوام کو نوکریاں فراہم نہ کرنے کی بات تو کرتے ہیں لیکن انہیں کوئی راستہ یا منزل دکھانے سے انکاری ہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ پاکستان میں کرپشن کو قانونی حیثیت دے دی جائے کیونکہ کرپشن فری پاکستان کا خواب تو کبھی پایہ تکمیل تک پہنچے گا نہیں اسی لئے کرپشن کو جائز قرار دے دینا چاہیے تاکہ عوام بے جا خواری ہونے سے بچ سکیں۔ ظاہر ہے کہ جب تک سسٹم کی اوورہالنگ نہیں کی جائے گی اور جب تک آقائوں کو خوش کرنے کی بجائے آئین و قانون پر عمل داری کو اپنی اولین ترجیح نہیں مانا جائے گا اس وقت تک کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔ عمران خان کئی مرتبہ کرپشن کے خاتمے کے لئے چین کے ماڈل کو فالو کرنے کی بات کرچکے ہیں لیکن نجانے ایسی کون سی مجبوری ہمیشہ ان کے آڑے آجاتی ہے کہ تین برس اقتدارمیں رہنے کے باوجود کرپشن کے ناسور کو ختم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ان کے اپنے بعض وزیروں کے کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی خبریں بھی زبان زد عام ہیں جس کے باعث عوام کا سیاست اور سیاستدانوں پر سے ا عتبار اٹھ چکا ہے کہ سیاستدانوں کو ملک و قوم کا نہیں صرف اور صرف اپنا مفاد عزیز ہے اسی لئے تو جس کا جہاں اور جتنا دائو لگ رہا ہے، اس لوٹ سیل کے میلے میں سب ایک اور متحد ہیں اور ایک دوسرے کی کرپشن کو بے نقاب کرنے کی بجائے اس پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ مجال ہے کہ کسی کو پاکستان اور اس کی نگوڑی عوام کی رتی برابر بھی فکر ہو۔
اگرچہ پاکستان کی تباہی و بربادی کی ذمہ داری صرف سیاستدانوں پر ہی نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ جج، جرنیل، بیوروکریٹ، بزنس مین سمیت سب کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں اسی لئے تو یہ ناسور ہمارےاداروں کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے۔ احتساب سب کا جو نعرہ وزیراعظم عمران خان نے لگایا تھا اب اس کو پوراکرنے کا وقت ہے کیونکہ عوام تو پہلے ہی حکومت کی سخت پالیسیوں سے نالاں ہیں اور اگر کرپٹ عناصر کو بھی حسب روایت مزید چھوٹ دے دی گئی تو عوام کے غیض و غضب سے تحریک انصاف کو آئندہ الیکشن میں کوئی بچا نہیں پائے گا اس لئے لازم ہے کہ حکومت نہ صرف احتساب کے عمل کو بہتر کرنے کی نیب کو ہدایت کرے بلکہ فوری اور کڑااحتساب عوام کو ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے۔
تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین بھی وزیراعظم عمران خان سے نالاں ہیں اور علیحدہ پریشر گروپ بناکرا نہوں نے اپنی پاور بھی شو کردی ہے اور ساتھ ہی فوری اور غیرجانبدار انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ نذیر چوہان کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ان حالات میں جب تحریک انصاف کے اپنے ہی لوگ احتساب کی شفافیت پر انگلیاں اٹھائیں گے تو پھر اپوزیشن کا تو کام ہی حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنا ہے اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ کرپشن کے آگے بند باندھنے کے لئے سنجیدہ اور ضروری اقدامات کو اپنی اولین ترجیح سمجھے خاص طورپر اس وقت جب FATF کی جانب سے 40میں سے صرف 31نکات پر عملدرآمد کی بات کی جارہی ہے۔ اگرچہ FATF کسی حد تک پاکستان کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لئے کی جانے والی کوششوں سے متفق ہے لیکن ابھی مزید بہت کچھ کیا جاسکتاہے، کی بھی رٹ اس نے ساتھ ہی جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان حالات میں جب پاکستان کو اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں کو سخت مشکلات کا سامناہے تو ضروری ہے کہ وہ غیرجانبدارانہ اور بے رحم احتساب کے اصول پر عمل کو اپنی ذمہ داری گردانے کیونکہ اگر احتساب کے فیصلے پسندوناپسند کی بنیاد پر جاری رکھے گئے تو اقوام عالم میں پاکستان کے بنانا Banana سٹیٹ ہونے کے تاثر کوتقویت ملے گی کہ اگر کسی بااثر پر ہاتھ ڈالا جائے تو وہ ریاست کو بلیک میل کرنا شروع کردیتا ہے لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ ریاست اتنی کمزور نہیں کہ کرپٹ عناصر کو لگام نہ ڈال سکے مگر اس کے لئے تمام اداروں کاایک پیج پر ہونا بے حد ضروری ہے کیونکہ اگر آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہ کر کام کئے جائیں تو کرپشن کے ناسور کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author