اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی وسیب یا جنوبی پنجاب ؟||حیدر جاوید سید

آپ نے ایک بار پھر متوازن بات کی جہاں تک پی ٹی آئی کیخلاف قوم پرستوں کیطرف سے کسی ردعمل کا اظہار نا کرنا شاید اس بات کی علامت ہے کہ پی ٹی آئی کو سنجیدہ سیاسی جماعت نہیں سمجھا گیا اور نا ہی آن سے کسی قسم کی توقع کی جا رہی ہے شاید موسمی کھمبی سے زیادہ اہمیت نہیں دی اسے

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیدر جاوید سید
شبیر لکھیسر رہبر سرائیکی وسیب اور سرائیکی پارٹی کے بانی مرحوم تاج محمد خان لنگاہ کے ساتھیوں میں سے ہیں
” پیپلز پارٹی اور سرائیکی قوم پرستوں سے درخواست "
کے عنوان سے لکھے گیے کالم پر ان کا تبصرہ پڑھ لیجے یہ تبصرہ سرائیکی قوم پرست سیاست کی بانی سیاسی جماعت کی فہم سے عبارت ہے
برادرِ عزیز محمود مہے اور دیگر مختلف الخیال دوستوں کی آرا موصول ہورہی ہیں ایک قلم مزدور کا فرض یہی ہے کہ سرائیکی قومی سوال ۔ سرائیکی وسیب یا ” جنوبی پنجاب ” پر احباب کی آرا وسیب اور قارین کے سامنے رکھے میری کوشش ہوگی کہ تنازعہ مکالمہ میں تبدیل ہو ناکہ نفرت کی وہ آگ مزید بھڑکے جو چند ناسمجھ دوست بھڑکائےہوئے ہیں
سرائیکی قومی سیاست قومی شناخت پر استوار ہوئی یہ قومی شناخت کی بحالی کی جدوجہد ہے وہ قومی شناخت جسے رنجیت سنگھ نے پامال کیا اور ملتان اپنی آزادی سے محروم ہوگیا وہ ملتان جسے اس خطے کے اولین انسانیت پرست حکمران راجہ پرہلاد کی بدولت تاریخ میں روشن مقام حاصل ہے ،
میں اپنے قابل احترام مرحوم بزرگ دوست اور سرائیکی تحریک کے بانیوں میں سے ایک جناب استاد فداحسین گاڈی کے دانشور صاحبزادے مشتاق گاڈی کی اس بات سے متفق ہوں کہ جب ہم ماضی یا یوں کہہ لیجے اپنی تاریخخ پر بات کرتے ہیں ہیں تو ہمیں برطانوی سامراج کے قبضہ ملتان کے وقت مزاحمت کرنے والے دیوان مول راج کو بھی یاد رکھنا چاہیے ،
سچ یہی ہے کہ میں نے ہمیشہ یہ عرض کیا کہ قومی تحریک طبقاتی تحریک ہوتی ہے نا ہی کسی دھرم و عقیدے کی کوکھ سے جنم لیتی ہے
ہرقومی تحریک اپنی وسوں کے عصری شعور سے جنم لیتی ہے سرائیکی قومی تحریک بھی اپنے عصری شعور کی نمائندہ ہے ، وسیب کے مختلف الخیال دوستوں میں آرا کا اختلاف ہوسکتا ہے اختلاف فکر انہونی ہر گز نہیں انہونی یہ ہوگی کے وسیب میں ہماری قدیم سماجی روایات اور مکالمہ کے یقین کو ترک کر کے ملاکھڑے ہونے لگیں
آپ سرائیکی قوم پرست سئیں شبیر لکھیسر کے خیالات و جذبات سے آگئی حاصل کیجے وہ لکھتے ہیں
"مرشد !
آپ نے ایک بار پھر متوازن بات کی جہاں تک پی ٹی آئی کیخلاف قوم پرستوں کیطرف سے کسی ردعمل کا اظہار نا کرنا شاید اس بات کی علامت ہے کہ پی ٹی آئی کو سنجیدہ سیاسی جماعت نہیں سمجھا گیا اور نا ہی آن سے کسی قسم کی توقع کی جا رہی ہے شاید موسمی کھمبی سے زیادہ اہمیت نہیں دی اسے
جہاں تک پیپلزپارٹی کی بات ہے تو وہ ملک کی معتبر جماعت ہے اور خطے کے عوام ان سے کافی توقعات رکھتے ہیں
کیونکہ وسیب کے لوگوں ۔ے ہمیشہ پی پی پی کوووٹ دیا ہے (اگر انکا ووٹ درست گنا گیا ہو تو) اور سرائیکی خطے کے ادیب دانشور شعرا اور سیاسی کارکن جتنا پیپلزپارٹی کے قریب ہیں شاید کسی اور وفاقی جماعت کے ساتھ نہیں ہیں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے تو سئیں عاشق بزدار کو پیپلزپارٹی میں سرائیکی کلچرل ونگ کے نام سے عہدہ دیا تھا اور پارٹی کی موجودہ قیات نے نام بدل کر جنوبی پنجاپ کر دیا ہے سرائیکی قوم پرست پیپلزپارٹی سے اس کی توقع نہیں کر رہے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ملک بھر میں واحد جماعت ہے جو قومی فلسفے کو سمجھتی ہے مگر عمل آسکے برعکس ہوا تو غصہ یا رنجش فطری بات ہے جب سینیٹ میں مزید پاکستانی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کی بات چلی تواس میں سے پیپلزپارٹی نے سرائیکی کو نکال دیا سب سے اہم بات یہ کہ قوم پرستوں کی طرف سے سرائیکی صوبے کیلیے جو علاقے کلی کیے جا رہے تھے و تاریخی طور پر پنجھاپ کے علاقے نہیں ہیں
بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ صاحب کہتے تھے کہ رنجیت سنگھ ملعون کے قبضے سے پہلے کا صوبہ ملتان اور ریاست بہاولپُور سرائیکی وطن کا جغرافیہ ہے- اور پیپلزپارٹی نے یہ بھی پورا نہیں دیا بحر حال پیپلزپارٹی کو وسیب کے عوامی مطالبہ پر توجہ دینی چاہیے قوم پرست شاید پورے جغرافیہ کے ساتھ نام پر کمپرو مائز کر لیں "
شبیر لکھیسر کی خدمت میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ وقت ہاتھ سے نکل نہیں گیا ان کی جماعت سرائیکی پارٹی دوقدم آگے بڑھے قوم پرستوں اور وسیب میں سیاست کرنے والی ان وفاقی سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر لا بیٹھائے تاکہ پچھلے کچھ عرصے سے لگے تماشے بند ہوں دونوں طرف کے ذمہ داران ایک دوسرے کے سامنے اپنا موقف رکھے مکرد عرض ہے مکالمہ ہی وہ واحد طریقہ ہے جس پر عمل کرکے قابل قبول حل نکالا جاسکتا ہے جہاں تک میری رائے ہے تو میں نے برادر عزیز محمود مہے سے یہی عرض کیا تھا
” پیپلز پارٹی فطری طور پر سرائیکی وسیب کے لوگوں کے دلوں کے قریب ہے بدقسمتی یہ ہے کہ ہم پیپلز پارٹی کو سیاسی جماعت سمجھتے ہیں اور وسیب میں اس کے اسٹیج سے کچھ لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں جیسے پیپلز پارٹی کوئی نیا عقیدہ یا ایسا مذہب ہے جو طل وطنیوں کے لیے مخصوص کردیا گیا اور اختلاف رائے کفر ہوگا "
ایسا نہیں ہے پیپلز پارٹی ایک سیاسی جماعت ہے وفاقی سیاست کرتی ہے اس سے بات چیت ہونی چاہیے پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی قوم پرستوں کو اچھوت یا ایجنٹ قرار دینے یا
"قوم پرستیں کوں چخے کرو” جیسے الفاظ کا استعمال نامناسب ہے ،
سرائیکستان ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدر عنایت اللہ مشرقی اور سوجھل دھرتی واس کے چیئرمین انجینئر شاہنواز مشوری کی خدمت میں بھی یہی عرض کیا ہے کہ وسیب کا ماحول خراب نہ ہونے دیجئے
آپ آگے بڑھیں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ تقسیم شدہ سرائیکی وسیب کو یکجا کر کے فیڈریشن میں قومی شناخت کے حامل صوبہ کے قیام کی جو جدوجہد شروع ہوئی تھی اس کی تاریخ کو مسخ کرنے اور حال پر دھول اڑانے والوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے اپنا کردار آدا کریں

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: