احمداعوان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کی تنظیم اپنی تنظیمی مدت مکمل کر کے مستعفی ہو چکی، راجہ پرویز اشرف کو تنظیم نو کی بھاری ذمہ داری دے دی گئی ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ سابق وزیراعظم پارٹی کی تنظیم نو کیلئے کیا سفارشات مرتب کرتے ہیں جس سے پیپلزپارٹی ایک بار پھر پنجاب میں اپنی سابقه پوزیشن پر آ جائے، پیپلزپارٹی پنجاب میں گزشتہ دس سال سے بلخصوص اور تقریباً پچیس سال سے بالعموم مسائل کا شکار نظر آتی ہے، پانچ نومبر 1996 کو تحلیل ہونے والی اسمبلی کے بعد 3 فروری1997 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے پورے ملک میں صرف 18 نشتوں پر کامیابی حاصل کی اور پنجاب سے ایک بھی نشت پر کامیابی حاصل نہ کر سکی تھی مگر اس کے باوجود پیپلزپارٹی تنظیمی طور پر گراس روٹ لیول پر مسلم لیگ ن سے زیادہ مضبوط تھی اور اس کی سب سے بڑی وجہ محترمہ بینظیر بھٹو کی تنظیموں میں ذاتی دلچسپی لینا اور کارکنان کو وقت دینا تھی، جلا وطنی کے آٹھ سالوں کے دوران بھی بی بی تنظیموں اور متحرک کارکنان سے مسلسل رابطے میں رہتیں اور انکی کارکردگی کا جائزہ لیتی رہتی تھیں. 2007-8 تک پاکستان پیپلزپارٹی کی پنجاب کے ہر شہر اور گاؤں کی سطح تک کی تنظیم مکمل طور پر فعال تھی اور مقامی عہدیدار عوام سے مسلسل رابطے میں تھے تبھی تو 18 اکتوبر2007 کو کراچی میں بی بی شہید کا اتنا فقید المثال استقبال ہوا تھا جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی، بی بی کی شہادت کے بعد جب پیپلزپارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی تو کچھ عرصہ تک تو یہ تنظیمیں مکمل طور پر فعال رہیں مگر آہستہ آہستہ غیر فعال ہوتی چلی گئیں جس کی سب سے اہم وجہ اعلیٰ ترین قیادت اور وفاق کے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کا ان تنظیموں اور بنیادی کارکنوں سے رابطے کا فقدان تھا، صدر مملکت جناب آصف علی زرداری صاحب کو اسٹیبلشمنٹ نے ایک گہری سازش کے تحت سیکورٹی خدشات کا بہانا بنا کر خصوصاً پنجاب کے کارکنان اور عوام سے دور کر دیا اور انتہائی مذموم سازش کے تحت مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو گراس روٹ لیول پر رابطے سازی کے لئے کھلا میدان اور مکمل سپورٹ فراہم کی گئی، پارٹی کی مزید بربادی اس وقت ہوئی جب 2012 میں منظور وٹو اور ان جیسے دیگر غیر متعلقہ افراد کو پیپلزپارٹی پنجاب کا مدارالمہام مقرر کر دیا گیا، پنجاب کا درمیانے اور نچلے درجے کا کارکن جو بی بی کی شہادت کے بعد پہلے ہی قیادت کی بے اعتنائی کا شکار تھا منظور وٹو کے صدر آنے کے بعد مقامی قیادت تک بھی شنوائی نہ ہونے کے باعث مکمل طور پر غیر فعال اور پارٹی سے لاتعلق ہو گیا، 2013 کے انتخابات سے کم و بیش دو سال پہلے سے میڈیا پر پاکستان پیپلزپارٹی کی پنجاب سے خاتمے اور تحریک انصاف کو پیپلزپارٹی کے متبادل کے طور پر لانچ کرنے کی پراپیگنڈہ کمپین ایک تسلسل کے ساتھ چلنا شروع ہو گئی، انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تنظیمی طور پر اس پراپیگنڈہ کا کوئی موثر جواب نہ دیا گیا، یہ پراپیگنڈہ اس قدر زوردار اور پراثر تھا کہ 2013 کے انتخابات میں پنجاب میں پیپلزپارٹی کا عام ووٹر یا تو اس منفی پراپیگنڈہ سے متاثر ہو کر گھر بیٹھ گیا یا پھر تحریک انصاف کی طرف مائل ہو گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2008 میں پیپلزپارٹی نے پنجاب سے جہاں 29% ووٹ لئے تھے وہ 2013 کے انتخابات میں کم ہو کر صرف 11% رہ گئے، ووٹوں کی اس کمی کی چند بڑی وجوہات میں تنظیموں کا غیر فعال ہونا اور پیپلزپارٹی کا ن لیگ کے ساتھ مفاہمت کا رویہ اور میڈیا کا پیپلزپارٹی کے خلاف خوفناک منفی پروپیگنڈہ شامل تھا۔
منظور وٹو کے جانے کے بعد نومبر 2016 میں چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے وسطی پنجاب کی صدارت کا تاج چوہدری قمرزمان کائرہ کے سر پر رکھا، ساتھ میں ندیم افضل چن کو جنرل سیکرٹری نامزد کیا اور راجہ پرویز اشرف، چوہدری فاروق، ندیم اصغر کائرہ اور چوہدری منظور پر مشتمل ایک رابطہ کمیٹی بھی بنائی جن کا کام پرانے کارکنان سے روابط کی بحالی تھا، ندیم افضل چن کے عہدہ چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چوہدری منظور احمد کو وسطی پنجاب کا جنرل سیکرٹری نامزد کیا گیا، قمرزمان کائرہ اور چوہدری منظور نے نئے سرے سے پارٹی کی تنظیم سازی شروع کی، ایک ایسی سیاسی جماعت جو کہ کم و بیش عرصہ دس سال تک میڈیا کے انتہائ منفی پراپیگنڈے کا شکار رہی ہو اور اندرونی سازشوں سے نبردآزما ہو، وہ جماعت جس کی ہردلعزیز لیڈر کو بھرے مجمعے میں شہید کر کے قیادت سے محروم کر دیا گیا ہو، جو پانچ سال وفاقی و صوبائی حکومتوں کے زیر عتاب ہو اور گذشتہ پچیس سال سے صوبہ پنجاب میں اقتدار میں نا آئی ہو کی تنظیم سازی ایک مشکل اور سُست عمل تھا مگر قمرزمان کائرہ، چوہدری منظور اور اسلم گل نے دیگر احباب کے ہمراہ اس مشکل کام کا بیڑا اٹھایا اور کافی احسن طریقے سے اسے سرانجام دیا، 5 دسمبر2017 کو پیریڈ گراونڈ اسلام آباد کےجلسہ میں پنجاب کی بہت بڑی ریلی کی شرکت اور 5 فروری 2018 کو موچی دروازہ لاہور کا عظیم الشان جلسہ ان کا اولین امتحان تھے جن میں قمرزمان کائرہ اور انکی ٹیم کامیاب رہی، 27 دسمبر 2019 کا لیاقت باغ راولپنڈی کا جلسہ انکی انتھک محنت اور کوششوں کا ثبوت تھا، پھر 16 اکتوبر 2020 کو پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ جلسے میں چیئرمین بلاول کی لالہ موسیٰ سے گوجرانوالہ تک کی فقید المثال ریلی اور 13 دسمبر 2020 کا مینار پاکستان لاہور کا جلسہ بھی وسطی پنجاب کی تنظیم کی محنت کی غمازی کرتا ہے، قمرزمان کائرہ کی قیادت میں گذشتہ تنظیم کی کارکردگی ماضی کی وٹو تنظیم کی نسبت بہت بہتر تھی مگر پھر بھی کافی تشنگی باقی رہی، ناجانے کیوں قمرزمان کائرہ اور انکی تنظیم کارکنان کے بےتحاشہ اسرار کے باوجود چیرمین بلاول سے وسطی پنجاب کو وہ وقت دلوانے میں ناکام رہے جس وسطی پنجاب مستحق تھا، ہم سب کے پیارے ابرار علی تنویر مرحوم اپنے آخری وقت تک اور سیمی کاظمی بھٹو آج بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ چیئرمین کو وسطی پنجاب کے بھرپور اور طویل دورانیے کے دورے کی دعوت دے رہے ہیں مگر نجانے کیوں اس دعوت کو ہر بار سرے سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
اس وقت جب پارٹی کے کافی سینئر لیڈران پنجاب کی قیادت کا تاج اپنے سر پر سجانے کے لئے متحرک ہیں تو میں قیادت سے اس سلسلے ميں چند گزارشات کرنے کی گستاخی کر رہا ہوں، پنجاب میں پارٹی کی تنظیم ایسے اشخاص کے حوالے کی جائے جو پارٹی کا اصل چہرہ ہوں، پہلے سے کسی عہدوں پر رہ چکے ہوں اور تنظیم سازی کی سائنس کو احسن طریقے سے سمجھتے ہوں، جن کا ہر درجہ کے کارکنان کے ساتھ مسلسل رابطہ ہو، جو اعلیٰ قیادت کا مقامی کارکنوں اور عوام کے ساتھ مثبت رابطے بحال کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں اور سب سے ضروری یہ کہ انکی بات کو اعلیٰ ترین قیادت اہمیت بھی دے۔
یاد رکھیں کہ تنظیم کوئی بھی آئے، جس مرضی کو صدر لگائیں مگر جب تک چیرمین صاحب بذات خود وسطی پنجاب کو وقت نہیں دیں گے تب تک مطلوبہ نتائج ملنے کی قطعاً امید نہیں اور جیسا کہ مضمون کے ٹائٹل سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ چیرمین کو وسطی پنجاب کا کارکن آج بھی پکار رہا ہے اور بدقسمتی سے آج بھی گزشتہ کی طرح اس پکار کا کوئی جواب نہیں آ رہا اور اس جواب کے مسلسل نا آنے سے ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں بہت زیادہ دیر نا ہو جائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر