نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صوفی بننے یونیورسٹی جائیں گے؟ ہو آئیں||حسنین جمال

بے لوث، بے غرض، بے نیاز، لاپروا کوئی بھی نہیں ہو سکتا، جب نہیں ہو سکتا تو یہ منصب اسی کا ہے جس کو سجتا ہے۔ قریب والوں سے باخبر رہیں، دور والوں کے دکھ مالک دور کرے گا۔

حسنین جمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اقبال کا شاہین ایک سائیڈ پہ کھڑا ہے دوسری طرف بلھے شاہ کہتے ہیں کنجری بنیاں میری عزت نہ گھٹدی (کنجری بن کر میری عزت نہیں گھٹتی) ۔ قصہ دونوں کا یار منانے پہ ختم ہوتا ہے۔ یار مان گیا تو بندہ مطمئن ہو گیا۔

ہم انسان ہیں۔ مہاتما بدھ بھی جب ریاضت میں تھے، جنگلوں میں، کسی درخت کے نیچے، سب اپنوں سے دور، تو بہرحال انہیں احساس تھا کہ وہ اپنا آپ مار رہے ہیں۔ یہ جو احساس ہے خود سے جنگ کرنے کا، خواہشات مارنے کا، بے غرض ہونے کا، عبادت کا، یار منانے کا، کسی بھی ایسی چیز کا جو انسان کی فطرت میں شامل نہیں، اسے نفس سے لڑنا کہا جاتا ہے۔

اسے انا کو مارنا بھی کہتے ہیں، یہی صوفی بنا دیتا ہے، یہی تصوف ہے اور یہی سب کچھ کر کے بندہ سمجھتا ہے کہ اس نے یار منا لیا۔
یہاں ایک مشکل ہے۔ آدمی کو بہرحال دماغ ملا ہے۔ اس میں جو ایک کیڑا ہے، وہ بہت بڑا ہے، وہ کسی وقت بھی سٹ مار سکتا ہے۔ جب تک وہ ہے آپ صوفی نہیں ہو سکتے۔

اب بات کو سمجھیں، بڑی باریک چیز ہے۔ کبھی جمعے سے گھر آئے ہوں اور آپ نے دیکھا کہ بھائی بیٹھا ہے، ٹی وی دیکھ رہا ہے، آپ اسے کچھ نہیں کہتے، رواداری میں، محبت میں، آپ سائیڈ سے گزر جاتے ہیں لیکن سوچتے ہیں کہ یار یہ بندہ کیسا بے توفیقا ہے! جمعے کے دن بھی اس یہ نہیں ہوا کہ جائے اور مالک کا شکر ادا کر آئے۔

تو بھائی کو بے توفیقا سمجھنے کا جو احساس ہے، یہ جو کوئی نیک کام کرنے کی فیلنگ ہے، دنیا چھوڑ کے جوگی ہو جائیں، چالیس مزاروں کے چلے کاٹ لیں، سب سے لاپروا ہو جائیں، کھانا پینا چھوڑ دیں، کسی کے تصور میں غرق ہو جائیں یا مراقبے کر لیں، یہ پیچھا نہیں چھوڑتی۔

یہ سادہ ترین لفظوں میں احساس برتری ہے۔

ہم کبھی سیلف لیس نہیں ہو سکتے۔ ہمارے ساتھ اپنے ہونے کا احساس بہرحال جڑا ہوا ہے۔ زندگی ہے، اس کا ایک فارمیٹ ہے، اسے یونہی چلنا ہے۔ جتنی مرضی کوشش کر لیں، یہ جو اپنے ہونے کا، اپنے وجود کا پھندا ہے، اس سے گردن کبھی نکل نہیں سکتی۔

تھوڑی سی مزید تفصیل دیکھ لیں۔ جوگی کو اتنا رومینٹی سائز کیوں کیا جاتا ہے؟ مطلب دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو جانا آخر کچھ اہمیت رکھتا ہے؟ اپنے ہونے کی نفی کر دینا، سب خواہشیں مار دینا، یہ کچھ کشش رکھتا ہے؟ تو جب یہ بھی ایک دنیاوی کھیل ہے تو پھر وہ جوگی کون جسے اپنے جوگ کا احساس ہو؟

یہ نہیں ہو سکتا۔ آپ سیلف لیس تبھی ہو سکتے ہیں جب آپ فوت ہو جائیں اور یا ذہنی توازن جگہ پہ نہ رہے۔ تیسری صورت کوئی نہیں۔

تصوف بھی یہی معاملہ ہے۔ آپ کہیں سے اسے سیکھ نہیں سکتے۔ بس خود کو اس ٹریک پہ لا سکتے ہیں اگر آپ کو یہ سب پسند ہے اور آپ میں صوفی ہو جانے کی صلاحیتیں ہیں۔ بات لیکن پھر بھی وہی رہے گی۔ چاہے آپ (موجودہ حالات میں ) کسی یونیورسٹی سے ڈگری لے کر صوفی ہو جائیں، چاہے آپ کسی خانقاہ کے مجاور ہوں۔ آپ صوفی کہلائیں گے، آپ کو پتہ ہو گا دنیا میں آپ کا مقام کیا ہے، لوگ آپ سے کیسی عقیدت رکھتے ہیں۔ جب سبھی کچھ پتہ ہے اور آپ اسی ٹریک پہ دوڑے جا رہے ہیں تو پھر بے غرضی کیسی، اور کیا ریاضت؟

یعنی پھر صوفی ہونا بھی ایک دنیاوی چیز ہے، روحانیت کہاں گئی؟ کوئی تو راستہ ہو؟

یہ جو بچے شدید گرمیوں میں باہر گاڑی رکنے پر آپ کے پاس آتے ہیں، پیسے مانگتے ہیں، یہ جو بوڑھے ہسپتال، کورٹ، کچہری کے باہر آپ کے سامنے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں، جو ملنگ دروازہ بجا کے آپ کو باہر بلاتا ہے اور بھیک مانگتا ہے، جو صفائی والا گٹر صاف کر کے نکلتا ہے اور باہر آ کے پائپ سے نہا رہا ہے، کوئی خاتون جو سیکس ورکر ہیں اور پورا محلہ ان کے اس کام سے واقف ہے اور وہ گزر رہی ہیں گلی سے، کوئی نشئی ہے اور گھر سے نکال دیے جانے پر روٹی کے پیسے مانگ رہا ہے، کوئی خواجہ سرا ہے جو شادی میں ناچ رہا ہے۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے سمجھ لیں کہ آپ ان میں سے ہیں۔

بھلے یہ ان کا بزنس ہے، زندگی گزارنے کا دھندا ہے، لیکن آپ کبھی کر سکتے ہیں؟ یہ وہ کام ہیں جو وقت کا جبر کرواتا ہے، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو۔ کیا ان کے جتنا بھی اپنے ہونے کا، اپنی اہمیت کا، اپنے دنیاوی مرتبے کا احساس آپ مار سکتے ہیں؟ بے شک اس کے پیچھے غرض بھی ہو آپ کی؟

نہیں؟ تو بس پھر کیا ریاضت اور کیسا جوگ اور کون صوفی؟ دنیا میں رہیں، دنیا کے بن کر رہیں، نوکری کریں، کاروبار میں کمائیں، سکھ چین کی روٹی کھائیں، بچے پالیں، گھر جائیں، سو جائیں!

جو کام کر کے آپ کو یہ احساس ہو جائے کہ بہرحال دنیا میں آپ کسی مرتبے پہ ہیں تو سمجھ لیں کہ مار کھا گئے، دماغ تگڑا ہے، وہ ایسے گھما کے مارتا ہے کہ زندگی ساری تیل ہو جاتی ہے اور سمجھ بہت بعد میں آتا ہے۔

ہاں، اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ اپنے گھر سے ہی شروع کر دیں۔ سوچیں کس بھائی بہن کا حق کتنا مارا ہے، اولاد کے ساتھ کیا نا انصافی کی ہے، شاگردوں میں سے کس کو صرف غصہ کھا کے کم نمبر دیے ہیں، کس کی اے سی آر خواہ مخواہ خراب کی ہے، سڑک پہ اوور ٹیک کرتے ہوئے کسے گالیاں دی ہیں، سالن خراب ہونے پہ بیوی کو کیا سنائی ہیں، پڑوسی کس حال میں ہے، سوشل میڈیا پہ فرینڈ بنے لوگ کس پریشانی میں ہیں، دھوپ میں ریڑھی پہ کچھ بیچتا ہوا بندہ کیا پیاسا نہیں ہو گا؟ سگنل پہ کھڑے سپاہی کو چھتری نہیں چاہیے ہو گی؟ اور اس طرح کے نو سو اٹھتر سوال آس پاس بکھرے ہوئے ہیں۔

ان سوالوں کا جواب بننے کی ٹرائے کریں، آسمانی اڈدیاں ویکھنا چھوڑ کے زمین کی طرف نظر ماریں، بڑے دکھ ہیں، بڑے غم ہیں، ادھری کر لیں، سب کے بیچ میں رہ کے جو ہو سکتا ہے وہ کر لیں۔ اتنا بہت کافی ہے!

بے لوث، بے غرض، بے نیاز، لاپروا کوئی بھی نہیں ہو سکتا، جب نہیں ہو سکتا تو یہ منصب اسی کا ہے جس کو سجتا ہے۔ قریب والوں سے باخبر رہیں، دور والوں کے دکھ مالک دور کرے گا۔
یہ سب کر لیں تو بابا آپ صوفی، آپ جوگی، آپ سائیں، آپ سر کے تاج، آپ مہان ہیں۔ کیا یونیورسٹی کیا مزار، سودا سبھی سامنے کا ہے، مول لگائیں اور تولنا شروع کریں۔
یہ تحریر سب سے پہلے انڈی پینڈنٹ اردو پر شائع ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

حسنین جمال کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author