دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اشتمالی نظام کو بھول جاؤ||ڈاکٹر مجاہد مرزا

ویسے اسلامی نظام معیشت عام سرمایہ دارانہ طرز معیشت سے کوئی زیادہ مختلف چیز نہیں ہے جسے اسلامی بینکاری کہا جاتا ہے اور جس میں مضاربہ کو لین دین کی بنیاد بنایا جاتا ہے

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج بھی بہت سے لوگ ہیں، بالخصوص پاکستان میں اور ہندوستان میں تو ہیں ہی جو ملک میں اشتمالی نظام (سوشلزم) رائج کرنے بلکہ اگر سچ کہا جائے تو اسے اسلامی نظام کی طرح ”نافذ“ کرنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ماسوائے نظام سرمایہ داری کے کسی بھی اور نظام نے چاہے وہ کمیونزم تھا، سوشلزم تھا، نیشنل سوشلزم تھا یا اسلامی نظام، نے کہیں بھی بتدریج رواج نہیں پایا۔ ہٹلر کے جرمنی سے لے کر لینن اور سٹالن کے روس اور سوویت یونین تک، ماؤ کے چین سے لے کر کاسترو کے کیوبا تک، ابن سعود کے سعودی عرب سے لے کر خمینی کے ایران تک، جہاں بھی جو نظام آیا اسے شورش کے بعد پہلی حکومتوں کو زبردستی ختم اور بعض اوقات ملیا میٹ کر دینے کے بعد ”نافذ“ ہی کیا جاتا رہا ہے۔

یہ سرمایہ داری کی خوبی نہیں تھی کہ اس نے رواج پایا بلکہ یہ اس کے بتدریج پروان چڑھنے کا وصف تھا جس کی بنا پر اسے نافذ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ آج سرمایہ داری نظام کی جدید ترین شکل یعنی کارپوریٹ سسٹم کو مختلف حیلوں حربوں سے، جس میں بڑا حیلہ شورش بپا کروانا ہی ہے، مختلف ملکوں میں ”نافذ“ ہی کیا جا رہا ہے۔ رنگین انقلابات اور بہار عرب اس کی مثالیں ہیں۔

انسان کے لیے کون سا نظام اچھا ہو سکتا ہے؟ بلاشبہ ہر طرز معیشت و سیاست کے اپنے خصائص ہوتے ہیں اور اپنے نقائص، چنانچہ اگر معروف نظاموں کے نقائص کی نفی کر کے ان کے خصائص کو طرز حکومت اور طرز معیشت کے امور میں مجتمع کر دیا جائے تو وہ انسانوں کے لیے انفرادی طور پر کارفرما کسی بھی نظام سے بہتر ہو سکتا ہے۔ اس کا تجربہ سکنڈے نیویائی ریاستوں میں کیا گیا ہے اور کامیاب رہا ہے۔ اب انہی ملکوں میں یہ بھی تجربہ کیا جا رہا ہے کہ اسلامی نظام معیشت کے کچھ حصوں کو بھی آزما کر دیکھا جائے۔

ویسے اسلامی نظام معیشت عام سرمایہ دارانہ طرز معیشت سے کوئی زیادہ مختلف چیز نہیں ہے جسے اسلامی بینکاری کہا جاتا ہے اور جس میں مضاربہ کو لین دین کی بنیاد بنایا جاتا ہے، اس میں منافع یا سود جو بھی کہہ لیں اس کی شرح اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے اور بس۔ یہ آج تک نہیں دیکھا گیا کہ کھاتے دار کو اس طرح کی بینکاری میں نقصان بھی اٹھانا پڑا ہو کیونکہ کہنے کو تو اسلامی بینکاری نفع نقصان کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے اگر لوگوں کو بینک میں رقوم جمع کروانے پر نقصان ہونے لگے تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ ایسے بینک میں اپنی رقوم رکھے بلکہ وہ اسی بینک میں رکھے گا جہاں اگر سود نہ لینا چاہے تو نہ لے لیکن کم از کم اس کی اصل رقم تو محفوظ رہے، اس کی مقدار تو کم نہ ہو۔

پھر وہ کون لوگ ہیں جو اشتمالی نظام کا آج بھی دم بھرتے ہیں؟ ایک تو یقیناً وہ لوگ ہوں گے جو کمیونسٹ یا سوشلسٹ پارٹیوں میں شامل ہوں گے۔ انہیں تو ایسا کرنا ہی ہوگا کیونکہ وہ سرمایہ داری نظام کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کو یہ گمان بھی ہوتا ہے کہ ان کے پسندیدہ نظام کے نفاذ کے بعد نسبتاً مساوات پیدا ہو جائے گی۔ جب کہ اب ہر کوئی جانتا ہے کہ بہت سارے لوگوں کو ایک سا کر کے ایک گروہ جو حاکم ہوتا ہے وہ اوروں سے بالکل مختلف ہو جاتا ہے۔

جارج آرویل کے کہنے کے مطابق وہ کچھ زیادہ ہی برابر ہو جاتے ہیں۔ اشتراکی نظام کی شکست و ریخت کے بعد وہاں کے حکام اور حاکم طبقے کے چونچلے اور مراعات کا پول کب کا کھل چکا ہے۔ چین کے سوشلزم میں چینی کسانوں کی حالت زار سے دنیا آگاہ ہے۔ شمالی کوریا کی غذائی کمی اور کیوبا کی پسماندگی بھی کسی سے نہیں چھپی ہوئی۔ مذکورہ ملکوں میں جو مساوات جسے یکسانیت کہنا زیادہ مناسب ہوگا، قائم بلکہ نافذ کی گئی وہ بھی بزور تھی۔

اشتراکی نظام کے انہدام کے بعد لوگوں کی خواہشات کے جو فوارے پھوٹے اور خواہشات کی تکمیل کی خاطر رہزن سرمایہ دارانہ، مجرمانہ اور غیر انسانی رویوں کے استعمال نے لوگوں کو شرمسار ہونے کی مہلت تک نہیں دی تھی۔ آج بھی سابق سوویت یونین اور مشرقی یورپ کی ریاستوں کی لڑکیوں کا دنیا بھر میں جس طرح استحصال کیا جا رہا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ہندوستان کی فلمی صنعت میں نیم برہنہ ناچنے والی ایکسٹرائیں ہوں یا ریاستہائے متحدہ امریکہ کے ”ڈایمنڈ کلبس“ میں سٹرپٹیز کرنے والیاں یا پھر یورپ اور مشرق وسطٰی میں قحبہ گیری کے دھندے میں روز بیچے جانے والی لڑکیاں ہوں ان میں سے بیشتر کا تعلق مذکورہ سابق سوشلسٹ ملکوں سے ہی ہے۔ جبکہ اس نظام کا خاتمہ ہوئے بھی تئیس سال ہونے کو ہیں۔

اشتمالی نظام کا گن گانے والے دوسرے لوگ وہ دانشور ہیں جو اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آئے اور جو اپنی اس صفت کو وفاداری کو بشرط استواری کا نام دیتے ہیں اور نازاں ہیں کہ وہ ”کچھ بھی پیچھے چھوڑ کر“ بقول ان کے آگے نہیں بڑھ رہے۔ جبکہ سائنسی سوچ کا تقاضا ہی یہی ہوتا ہے کہ جو غلط ثابت ہو گیا اس سے جان چھڑا لیں اور نئے نظری معاملات پر عمل پیرا ہوں۔ ناسٹلجیا اتنا بھی زیادہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اگر آپ کے لیے مخموریں خواب ہے تو اس کا تذکرہ دوسروں کے لیے حرز جاں سے کم نہ ہو۔

اس وقت دنیا میں بائیں بازو کے خیالات کی جانب اگر رجحان ہوتا ہے تو اس کی دو وجوہات ہوتی ہیں ایک تو محض فیشن کیونکہ سرمایہ دار نظام اپنے تمام تر تنوع کے باوجود، بہت سے منابع تک بہت سوں کی دسترس نہ ہونے کی وجہ سے اکتا دینے والا اور لایعنی لگنے لگتا ہے۔ اس رجحان کی جانب مائل ہونے کی دوسری وجہ انتہائی دائیں بازو والوں کی چیرہ دستیوں کے خلاف ردعمل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اول تو نئی نسل اس جانب اتنی راغب ہو ہی نہیں رہی اور جو تھوڑی بہت ہوتی بھی ہے تو وہ یا تو کچھ عرصے کے بعد نراجیت پسندی کو اپنا لیتی ہے یا عمر کے چوتھے عشرے کے اواخر میں سنجیدہ ہو کر عام کاروبار زندگی کے ساتھ مصالحت کر لیتی ہے۔ تو کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ اشتمالی نظام کو بھول جاؤ؟

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author