اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

برطانوی محاصرہء ملتان   (ایک ڈرامائی بیانیہ۔چوتھادرشن)||امجد نذیر

اُدھر لارڈ گَف شِملہ کے پُر فضا مقام پر آنے والی سردیوں میں محاذ ارائی کے مزید منصوبے بنا رہا تھا کہ وہیں پر اُسے ایڈورڈ کا خط ملا جِسمیں اُسنے کہا " ہم ملتان کی بغاوت کو شمپین کی جھاگ کی طرح اُڑا دیں گے" ۔

امجد نذیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یکم اپریل 1848 تا 26 جنوری 1849
مآخذات: (جاہن جونز کولے، مرزا ابن حنیف، پروفیسرعزیزالدین احمد، احمد رضوان اور دوسرے ذرائع)
تعارف : تعارف : ریاست ملتان کی قدامت، دریائے سندھ اور چناب کی عطا کردہ خوشحالی اور اہم ترین محلِ وقُوع کیوجہ سے ریاست ملتان کے ایک نہیں کئی محاصرے ھوئے اور ھوئے ھونگے، کُچھ معلوم اور کچھ نا معلوم ۔ مثلا 325 قبل مسیح میں سکندر مقدونی (جِسے ایران میں سکندر ملعون کے نام سے جانا جاتا ہے) کا محاصرہ، ٧١٢ میں محمد بن قاسم کی یلغار، ١١٧٥ میں محمد غوری کا حملہ، 1296 میں علاوٗالدین خِلجی کا محاصرہ، ١٣٢٠ میں غیاثالدین بلبن کی تباہ کاریاں، ١٣٩٧ میں تیمور لنگ کے پوتے پیر محمد کا قبضہ، 1810 سے 1818 تک نجیت سنگھ کی پئے در پئے یلغاریں اور قبضہ وغیرہ مگر تاریخ میں جسقدر جُزیاتی تفصیل برطانوی محا صرے اور ملتانی مزاحمت کی موجود ھے شاید کِسی اور کی موجود نہیں ۔
کسی بھی ڈرامائی بیانیے میں واقعات، کردار، تنازعات اور انجام ڈرامائی ایکشن کی جان ھوتے ھیں، اور 1848 میں کئیے گئے برطانوی محاصرے میں یہ تمام خصوصیات برجہء اُتم موجود ہیں، اِسی لئے برطانوی محاصرہ شاید واحد محاصرہ ھے جسے اپنے ڈرامائی خوبیوں سمیت دوبارہ بیان کیا جا سکتا ھے ۔ زیر نظر تحریر اسی نوعیت کی ایک کوشش ہے ـ آخر میں یہ عرض کرنا بھی ضروی ہے کہ راقم الحروف نے جاہن جوہنز کولے کے ‘پروٹاگونسٹ’ اور ‘اینٹاگونسٹ’ کو اَدل بَدل کرڈالا ہے اور مزید حالات و واقعات کی منظر کشی کے لئے درج بالا مصنفین سے استفادہ کیا ہے تاکہ ملتان دھرتی کا دفاع کرنے والوں کو تاریخ میں اُن کا درُست مقام دلوایا جا سکے ـ
اور یہ عرض کر نا بھی ضروری ہے کہ رنجیت سنگھ کی جارحیت کے پس منظر میں پنجابی (سِکھ) حُکمران ہونے کے ناطے مُولراج کی سیاسی حیثیت بھی سرائیکی اور ملتانی مورخین و مبصرین کے نزدیک زیادہ پسندیدہ نہیں رہی ـ راقم الحروف نے زیر نظر تحریر، جو تحقیق، ترجمہ اور تخلیق کا مرکب ہے، عروُس البلاد ملتان کی محبت اور اہمیت کے پیش نظر لِکھی ہے تاکہ برطانوی عسکری یلغار کیساتھ ساتھ تقریبا” پونے دو سو سال پہلے کے ملتان اوراسکے گردو نواح کا معاشرہ اور انگریزوں کے ساتھ مختلف معرکوں کا منظر اپنی جُزیات سمیت دِکھایا جا سکے ـ اِس پورے منظر میں مُولراج اور دوسرے سکھ ، مسلمان اور ہندو مزاحمت کاروں، سپاہیوں اور مُجاہدوں کی جو بھی سیاسی اور تاریخی حیثیت بنتی ہے، اُسکا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا گیا ہے ـ
چوتھا درشن
سدُو سَام کے مُقام پر پر محاذ آرائی
سورج کنڈ کے نزدیک نہر پر جہاں سے انگریزی افواج اور اُنکے معاون غدار ملتان کیطرف پیش قدمی کر رھے تھے دو تنگ سے پُل تھے جبکہ اُتر پَچھمی جانب قلعہ کے نزدیک اینٹوں کا بنا ھوا ایک نسبتا” مضبوط پل تھا ۔ تینوں پُلوں پر ملتانی دفاع کاروں نے حفاظت کے لئے توپیں نسب کر رکھی تھیں ۔ اِسی کارَن کارٹلینڈ اور ایڈورڈ نے یہاں سے پُل کراس کرنا مناسب نہ سمجھا بلکہ نہر کے ساتھ ساتھ اُتر پچھم کی سمت گاوں ٹبہ (قیصرانی) کیطرف سفر کرتے رھے ۔ گویا اب ملتانی سپاہ اور دُشمن کے درمیان یہ ننھی سی نہر ہی باقی رہ گئی تھی ۔ بندوقین سمبھال کر وہ بھی نہر کے بائیں کنارے دشمن کا تعاقب کرنے لگے تاکہ ہدف رَساء فاصلے سے اُن پر گولیاں برسائی جا سکیں ۔
یکم جولائی 1848 کو لیفٹینینٹ کارٹلینڈ نے اپنے ٹروُپس کو ٹِبہ قیصرانی پر پڑاو ڈالنے کو کہا ۔ وہیں پر اُسے جاسوسوں نے اطلاع دی کہ باغی سپاہی نہر پھلانگ کر انکا پیچھا کر رھے ھیں اور کِسی بھی وقت اُن پر حملہ ھو سکتا ہے ۔ کارٹلینڈ نے اپنے سپاہیوں کو فوری طور پر تیاری کا حکم دیا ۔ اُنکو یہ بھی معلوم تھا کہ ‘لیفٹینینٹ لیک’ داوؤد پوتروں کو لِیڈ کرتے ھوئے راستے میں کسی ٹیلے پر خیمے لگائے بیٹھا ھے جبکہ ملتانی فوج بھی صرف آدھے میل کے فاصلے پر ھے ۔ جونہی وہ لیک کے دستے کے قریب پہنچے، بڑی ھوشیاری سے آس پاس کے گاؤوں میں پھیل گئے تاکہ لیک کی پیروکار غدار بٹالئین کو ٹھکانے لگایا جا سکے ۔ اُنہوں نے گھات لگا کر نشانہ باندھا ہی تھا کہ لیک کے دستوں نے بھی فائر کھول دیا ـ اب سدو سام کے محاذ پر جنگ شروع ھوچکی تھی ۔ لیک کا دستہ ایک ایک کرکے بِکھر ھی رھا تھا کہ ایڈوَرڈ اپنی بٹالئین لئیے ملتانی فوج کے عقب میں حملہ آور ھو گیا ۔ عَین اُسی وقت لیفٹینینٹ کارٹلینڈ نے بھی دائیں جانب سے فائرنگ شروع کردی ۔ ھر چند کہ اُسکی ایک توپچی خاموش ھو چُکی تھی اور بہت سے جوان ضائع ھو گئے تھے لیکن لیک پھر بھی دائیں طرف سے ملتانی سپاہ پر مُسلسل دباو بڑھا رھا تھا تاکہ وہ سامنے والا گاؤں خالی کر دیں ۔ مگر اسکی یہ کوشش ذیادہ کامیاب نہ ھوئی ۔
اِسی لَمحے نواب بہاولپور کے معاون دستے کے ایک سینئر انگریز افسر ‘میکفرسن’ کو براہ راست ایک گولا آکے لگا اور وہ موقع پر ھی ڈھیر ھو گیا۔ اَب دونوں طرف سے توپ و تفنگ کے حملے جاری تھے ۔ ایڈورڈ جنونی کیفیت میں میدانِ جنگ میں بھاگ رھا تھا، کارٹلینڈ مرکزی دستے کی قیادت کر رھا تھا اور لیک اپنے بہاولپوری داؤد پوتری دستے کی ہمت بڑھا رھا تھا ـ اُن تینوں کی سمجھ سے باہر تھا کہ آخر ملتانی سِپاہ کیسے اور کہاں سے گولے داغ رھی ھے ۔ اور جان و مال کے نقصان کے با وجوُد کِسطرح جم کر مقابلہ کر رھی ھے ـ
تا حال میدانِ جنگ میں مُولراج ہی قیادت کر رھا تھا ۔ کھجوروں کے ایک جُھنڈ میں اُس نے بہت سی بندوقیں نسب کر رکھی تھیں اور مزکورہ بالا نہر کے کنارے چھوٹی بڑی جھاڑیوں کے بیچوں بیچ مجاھدین کو حسبِ ضرورت احکامت فراھم کر رھا تھا ـ سپاہی انتہائی سمجھداری سے دشمن کے ٹھکانوں کے نشانے باندھ رھے تھے ۔ درختوں کے جُھنڈ، ریتلی زمین اور نیم بالیدہ لَئی کے ٹانڈے اپنے ھم وطنوں کے لئیے سازگار ماحول تشکیل دے رھے تھے ۔ چند ہی گھنٹوں میں سپاہیوں نے دشمن کے بیسیوں جنگجُو ہلاک کر ڈالے ۔ باقی ماندہ اہلکار گھبرا کر کارٹلینڈ کی چھتری تلے دوبارا پناہ گزین ھو گئی ۔ اُنکے سامنے اور دائیں بائیں جُھلستی ھوئی زمین پر کئی سُوختہ تَن بے حس و حرکت پڑے تھے ۔ کھجور کے کئی درختوں کے سَر اُڑ گئے تھے ـ جھاڑیوں میں سے جگہ بہ جگہ دھواں اور شُعلے اٹھ رھے تھے اور سوّا نیزے پر جَلتا بَلتا سورج پہلے سے موجود تپِش کو اور ھوا دے رھا تھا ۔ سراسیمگی کے عالم میں کارٹلینڈ نے یکے بعد دیگرے اندھا دھند گولے برسانا شروع کر دیے ۔ ایسے میں ایک گولا اُس ہاتھی کے قدموں میں آگرا جس پر مُولراج سوّار تھا ۔ ھاتھی خوف کے مارے بھاگ کھڑا ھوا ، تھوڑی ہی دیر میں بھگدڑ سی مَچ گئ مگر دوتین تربیت یافتہ فِیل بانوں نے جلد ہی نیم پاگل ھاتھی کو سمبھال لیا ۔
موقع کا فائدہ دیکھ کر دُشمن کی سپاہ آگے بڑھی اور مسلسل فائرنگ کرنے لگی ۔ بھاری نقصان سے بچنے کیلئے سپاہِ مُلتان نے پسپائی اختیار کرنے میں ہی دانائی سمجھی ۔ صرف دو بندوقیں چھوڑ کر ـ جو بھاڑے کے ٹٹووں نے جلد ہی اپنے قبضے میں کر لیں ـ وہ اپنا تمام اسلحہ اور ہاتھی گھوڑے بھی ساتھ لیجانے میں کامیاب ھو گئے ۔ جبکہ دشمن کی 17 گھوڑوں اور چند فوجیوں کی لاشیں سمت بے سمت ڈھیر لا وارث پڑی تھیں ۔ پیچھے ہٹ کر ملتانی سپاہ شہر کی غلام گردشوں میں غائب ھوگئی البتہ وہ نہر کی تنگ پُلیوں پر توپچیوں کا پہرہ بٹھانہ نہ بُھولے ۔ پس اسی انداز میں سدؤ سام کی محاذ آرائی اختتام کو پہنچی جس میں پلڑا بھاری ھونے کا باوجود بھی دُشمن کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑا ۔
ملتانی سپاہ نے قلعہ کے اندر داخل ھو دروازے بند کر لئے ۔ حفاظت اور جوابی حملے کیلئے چند ایک دستے قلعہ کی بیرونی دیوار کے سامنے تعینات رکھے ـ کچھ توپچیاں درست مقام پر نسب کیں اور قلعے کے اندر دفاعی مورچوں کو ذیادہ سے ذیادہ مضبوط کرنا شروع کر دیا ۔ اُنہیں اندازہ تھا کہ سفاک دشمن اب قلعہ پر یلغار کرے گا ۔ اسی لئے اُنہوں نے دفاع اور وار کرنے کی پلاننگ شروع کر دی ۔ لڑکپن یا جوانی میں کِسی بھی رسمی عسکری تربیت کے بغیر بھی سپاہیوں نے اچھی خاصی ترتیب و تنظیم کا ثبوت دیا ۔ مولراج نے بھروسے کے تمام سپاہی اپنے دفاعی لائین میں سب سے آگے رکھے کیونکہ کاہن سنگھ کی معیت میں آنے والے اگینو اور اینڈرسن کی ہلاکت کے بعد سے ہی اُسے اندازہ ھو چلا تھا کہ "کمپنی” کی افوا ج امرتسر اور لاھور میں ساز باز کے بعد لازما” ملتان کا رُخ کریں گی ـ اُسنے اپنے اعتماد کے ساتھیوں کے ساتھ مِلکر مالی اور عسکری تیاریاں شروع کر دی تھیں ۔ دشمن کو دو تین محازوں پر کافی نقصان پہنچانے کے بعد اُسے پورا یقین تھا کہ آخری معرکہ قلعے کے اندر یا باہر ہی ھوگا ۔ اُسے قلعہ کے ناقابلِ شکست ھو نے کا یقین تھا اور کسی حد تک دشمن کی عیاری، ہشیاری اور غداروں کی حرص و ھوس کا بھی اندازہ تھا ۔ عمومی طور پر قلعہ کے اندر رہنے والے عام عوام کو قلعہ کی آہنی استقامت پر اسقدر اعتقاد تھا کہ وہ اطمنان سے معمول کی زندگی برقرار رکھے ھوئے تھے ۔ ہنر پیشہ افراد تخلیق و تزئین میں مصروف تھے، معمار روزمرہ کی تعمیرو مرمت میں ، قالین اور پارچہ باف نت نئے ڈیزائین بنانے میں اور دھنوان گایوں بھینسوں کی خدمت گزاری اور دودھ کے کاروبار میں ۔
بلا شُبہ قلعہ مُلتان اپنے ناقابل انہدام ھو نے میں اپنی مثال آپ تھا اسی لئے دریائے سندھ کے مغرب میں ڈیرہ جات اور چناب کے مشرق میں لیہ، بہاولپور، میانوالی اور ساہیوال کے عام شہریوں میں یہ تاثر عام تھا کی انگریزایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجُود قلعہ کے النگ اور پُشتے نہیں پاٹ سکتے ۔” ملتانی قلعے کی ایک اینٹ بھی”، انکی رائے میں، "کسی دیوہیکل شیطانی قوت کے بغیر اُکھاڑی نہیں جا سکتی” ۔ ملتانی سپاہ کو محکم یقین تھا کہ وہ گوروں اور اُنکے وفاداروں کے دانت کھٹے کر دے گی کیونکہ اُسنے اپنی کامیابی کیلئے تمام ممکنہ وسائل اِکھٹے کئیے ھوئے تھے ۔ انکو یہ بھی امید تھی کہ چَترسنگھ اٹاری والا دریائے جہلم کے کنارے جو لشکر اکھٹا کر رھا ھے وہ شاید انکی کُمک کو آرہا ھے مگر ایسا نہ تھا بلکہ راجہ شیرسنگھ کے جتھے بھی قلعہ ملتان کے محاصرے میں انگریزوں کا ساتھ دینے آرھے تھے ۔ لیکن تمام ت نا مساعد حالات کے با وجود مُلتانی افواج قلعہ کے دفاعی محاذ پر ڈٹ گئ ۔
اُدھر کارٹلینڈ، ایڈورڈزاورلیک ٹبہ (قیصرانی) میں خیمہ زن ھو کر ایک دوسرے کو مُبارک سلامت کہہ رھے تھے کہ انہوں نے 2 جولائی کی لڑائی میں مولراج اور ملتانی سپاہ کو قلعہ بند ھونے پر مجبور کردیا تھا ۔ تاہم اُنکی یہ مُسرت زیادہ دیرپاء ثابت نہ ھوئی ـ جلد ہی جاسوسوں نے اِطلاع پہنچائی کہ باغی سپاہ دوبارہ ندی پارحملہ کرنے کے لئے مورچہ بند ھو گئی ھے ۔ دشمن کے سپاہیوں نے بلا تاخیر کیل کانٹوں سے لیس ھونا شروع کردیا ۔ زرہ بکتر کَس کے ایڈوڈزاپنا پسندیدہ پستول بیَلٹ میں ٹھونس ہی رھا تھا کہ وہ ایک دھماکے سے پھٹ گیا ۔ اُسکے دائیں ہاتھ سے خون ہی کا ایک فوارہ نکلا اور چاروں طرف زمین سرخ ھو گئی ـ ابھی وہ تکلیف سے کراہ ہی رہا تھا کہ چند سپاہی جو ابتدائی جائزے کے لئے نکلے تھے واپس أگئے اور بتایا کہ اِطلاع جھوٹی تھی ـ ندی کنارے نہ کوئی لشکر نہ مورچہ بندی ـ صِرف اکا دکا عام لوگ اور گُھڑ سوار اپنے روز مرہ کاموں کے لئے اِدھر اُدھر آجا رھے تھے ۔
ہر چند قتل و غارت گری کے جنون میں اُسکا دایاں ہاتھ ضائع ھو گیا تھا مگر وہ چنگیزی روح پھر بھی اپنی بربریت سے باز نہ آئی ۔ اور کچھ ہی دنوں بعد از سر نوء ساز باز اور جوڑ توڑ میں جُت گئی تاکہ فتح ملتان کے خواب کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ لیفٹینینٹ لیک اور جنرل کارٹلینڈ نے اس کام میں اُسکی بھر پور معاونت کی ـ اور پھرلیفٹینینٹ لومزڈن بھی، جو ایک بٹالئن کی رھنمائی کے لئے حال ہی میں ملتان پہنچا تھا’ اِس کارِ ابلیس میں انکے سا تھ ھو گیا ـ
انگریز فوج کی صورت حال اب ایک تَنی ھوئی رسی پر چلنے کے مترادف تھی ـ ایک طرف اُسے ملتان کے بہادرسپوتوں کا خوف کھائے جارھا تھا اور دوسری طرف اسے (گوروں کو چھوڑ کر) اپنی ہی سپاہ سے (جس میں سِکھ بڑی تعداد میں شامل تھے) ہروقت بغاوت کا خطرہ رہتا تھا کچھ کاسہ لیس غداروں کے علاوہ زیادہ تر خالصہ دربار سے بھیجی گئی تھی ـ
اُنہیں شیر سنگھ اور چتر سنگھ اٹاری والا کی وفاداری پر بھی مسلسل شبہ رہتا یا دوسرے لفظوں میں اُنہیں کمپنی سرکار کی طرف سے ہی دونوں پر نطر رکھنے کی ہدایت دی گئی تھی ـ شیر سنگھ ، رنجیت سنگھ کے کمسن بیٹے اور کٹھ پُتلی مہاراجہ دُلیپ سنگھ کا ہونے والا سالا تھا جبکہ چَتر سنگھ شیر سنگھ کا ہونے والا سُسرـ دلیپ سنگھ کم عمر، ناتجربہ کار اور بے اختیار ہونے کیوجہ سے ویسے ہی کوئی سیاسی فیصلہ کرنے کے قابل نہیں تھا دوسرا اپنی دادی رانی جِنداں کی جبری بنارس جِلا وطنی کے بعد اب سوائے چترسنگھ اور شیر سنگھ کے علاوہ کسی سے کوئی مشورہ نہیں کر سکتا تھا ـ چَترسِنگھ اٹاری والے کی بیٹی شیر سنگھ سے منسوب تھی اور وہ اُترپچھمی پنجاب کا گورنر بھی تھا اور اسی مُناسبت سے بھی اُن دونوں کا لاھور دربار میں کافی اثرو رسُوخ تھا ـ پشاور میں جنرل لارنس اور ہزارا میں اُسکا ڈپٹی جیمز ایبٹ ، اٹاری والا پریوّار کے کافی قریب تھے مگر اس قرابت میں باہمی سیاسی مفادات اور شک کی سیاہی بھی شامل تھی ـ
دراصل رنجیت سنگھ کی موت (1838) کے بعد کوئی مستند نظام و انصرام نہ ھونے کے باعث پنجاب مثالی انتشار، نفسا نفسی اور خانہ جنگی کا شکار تھا، وزارت اور تخت نشینی کے جھگڑوں میں رنجیت سِنگھ کا اپنا خانوادہ کئی دھڑوں میں بَٹ چکا تھا ـ فوج الگ مُنہ زور اور مفاد پرست ھو چکی تھی ـ متفرق رجمنٹوں کے سردار ہمہ وقت تنخواہیں اور انعام و اکرام بڑھوانے، درباری توشہ خانہ کو لُوٹنے، نئے نئے حکمران بٹھانے، وفا داریاں بدلنے، انہیں قتل کرنے اور ذاتی رنجشیں چکانے اور انتقام بازیوں میں مصروف تھے ۔ دھونس، دھمکی، لالچ، رشوت، غداری، وفاداری اور ایجنٹی کے باہمی طنز، تمغے، کم و بیش سارے ہی سکے بساط بھر چلنے لگے تھے، اِسی طوائف الملوکی میں شیر سنگھ نے دھیان سنگھ وزیر کی مدد سے خالصہ فوج کو منظم کرکے رنجیت سنگھ کی اپنی راجدھانی لاھور شہر اور لاھور قلعہ میں داخل ھو کر ڈوگرا سرداروں اور عوام دونوں کو خوف وھراس کا شکار کیا، فصیل کے اندرناقابلِ بیان دھینگا مشتی ھوئی ـ جسکے ھاتھ جو آیا، اُٹھا کر لےگیا ـ صرف تین چار سال کے اندر رنجیت سنگھ کے خاندان ہی سے کئی افراد تخت پر بِٹھائے، اُتارے اور بے عزت کر کے جان سے مارے گئے ـ طاقت اور اختیار کا کوئی ایک فُلکرم نہ رھا، خالصہ دربار، عسکری رجمنٹیں، مقامی سردارسب ایک دوسرے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے ـ اِسکا ایک سبب تو رنجیت سنگھ کے اپنے نظام و انتظام کی نااہلی اور دوسرا انگریزوں کی دور ازکار سازشیں تھیں ـ ۔
اس ہڑبہنگ میں دو دھڑے یعنی ‘سدھانوالہ’ اور’ڈوگرا’ زیادہ ممتاز تھے ۔ جبکہ منظرِعام پرمُقابلہ گلاب سنگھ ڈوگرا اور شیر سنگھ اٹاری کے درمیان تھا ـ ایڈورڈ اور کارٹلینڈ سوچی سمجھی سکیم کے تحت بار بار شیر سنگھ سے قلعہ ملتان کی عسکری قوت کا ذکر کرتے رھتے تا کہ وہ اُسکے دل کو ٹٹول سکیں یا پھر اُسے یہ باور کرا سکیں کہ کامیاب ملتانی بغاوت کے نتیجے میں اَٹاروی والا خاندان اور بالخصوص شیر سنگھ اور چتر سِنگھ کے پاس بھی جیون سمیت کُچھ باقی نہی بچے گا ۔ اَلبتہ وہ اُوپر اُوپر شیر سنگھ سے نہایت عزت و احترام سے پیش آرھے تھے ـ شیر سنگھ اور اٹاری والا پریوّار بھی کمپنی سرکار کی طرف سے پنجاب حکومت میں اپنے حصے داری کی خواہش دل میں لئے ھوٖئے تھا ـ اس لئے وہ بھی اپنے مفاد کے تحت انگریزوں کا ساتھ دے رہے تھے ـ شیر سِنگھ کو ریزیڈنٹ پنجاب کیطرف سے ہدایات مِلیں کہ وہ دو اور مقامی افسروں (سہولت کاروں) یعنی اِمالدین اور جواہرلال کے ساتھ مِل کر قلعہ پر چڑھائی کریں ـ اور جنرل وہش کا ساتھ دیں ـ دوسرے لفظوں میں ملتان پر تین اطراف سے حملے ھو رہے تھے ـ خالصہ دربار کی فوج اُتر کی طرف سے، بہاولپور اور داؤد پوترے پوربی جانب سے، جبکہ جنرل کارٹلینڈ اور ایڈورڈ کی فوجیں پَچھم کیجانب سے حملہ اور ھونی تھیں ـ
یعنی مُلتانی قلعے اوراقتدار کے اِنہدام میں خالصہ دربار اور انگریز سرکار شیرو شکر تھے ـ ایک طرف کارٹلینڈ اور ایڈورڈز شیر سنگھ کو آداب و احترام دے رھے تھے دوسری طرف ایب آباد (ھزارا) کے جیمز ایبٹ کا رویہ اِٹاری والا خاندان سے خراب ہوتے ہوتے توحین آمیز ہو گیا تھا ـ جو کہ ایک سوچا سمجھا طریقہ ہی لگ رہا تھا ـ تاکہ اٹارہ والا کی خوش فہمیوں کو پاش پاش کرکے اُنہں کمپنی بہادر کے عام اھلکاران کے برابر لا کھڑا کیا جا ئے ـ ایک طرف انگریز کی طاقت دِن دُگنی، رات چُگنی ھوتی جا رہی تھی، دوسری طرف قلعہ ملتان میں اب صرف دو ہزار ریگولر آرمی، پانچ یا چھ توپیں ـ اور بہت محدوُد گولا بارود رباقی رہ گیا تھا ، باقی کی فوج تلواروں، برچھیوں یا پھر کھیتی باڑی کے اوزاوں سے ہی لڑنے پر مجبور تھی جنکی کوئی رسمی تربیت بھی نہیں تھی ـ
جنرل وہش کی سر کردگی میں ایک دستہ لاھور کیطرف سے ملتان کیجانب رواں دواں تھا ـ جبکہ دربار کی فوج شیر سنگھ اٹاری والا کی کمان میں ملتان آ رہی تھی ـ یہ صورتِ حال بھانپتے ہی مُولراج رہا سہا حوصلہ بھی ہار بیٹھا کیونکہ وہ پہلے ہی انگریز سرکار کیخلاف نبرد آزما ہونے کے لئے تیار نہ تھا ـ اسی لئے ایک طرف تو وہ ملتانی عوام کی مزاحمت کا سپہ سالار بنا پھرتا تھا اور دوسری طرف ریذیڈنٹ پنجاب کو معافی نامے یا رحم کی درخواستیں بھیجے چلا جا رہا تھا ـ حقیقت میں یہ مُلتان کے سپاہی اور عوام ہی تھے جو تن من دھن سے میدانِ جنگ میں کود پڑے تھے ـ اور تو اور مولراج ذیادہ تر سکھ سپاہیوں کی حمایت حاصلی کرنے میں بھی ناکام رہا تھا اور گراونڈ پر ذیادہ تر مقامی مسلم، پشتون اور ہندؤ افواج انگریز فوج کے خلاف بر سرِ پیکار تھے ـ کیونکہ ذیادہ تر سِکھ سپاہیوں کا خیال تھا کہ مُولراج نے خالصہ دربار اور دلیپ سنگھ کے خلاف بغاوت کی ہے ـ اس لئے اُسکو سزا ملنی چاہیے ـ لیکن جب مہارات سنگھ نے ملتانی باغیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو کسی حد تک ـ محدود وقت کے لئے ہی سہی ـ مگر صورت حال بدلنے لگی ـ
اُدھر لارڈ گَف شِملہ کے پُر فضا مقام پر آنے والی سردیوں میں محاذ ارائی کے مزید منصوبے بنا رہا تھا کہ وہیں پر اُسے ایڈورڈ کا خط ملا جِسمیں اُسنے کہا ” ہم ملتان کی بغاوت کو شمپین کی جھاگ کی طرح اُڑا دیں گے” ۔ جبکہ جاہن جونز کولے کے مطابق برطانوی آرمی کو مسلسل یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ اگر ملتانی باغی سپاہی، مقامی نوابوں، سرداروں اور سکھوں نے آپس میں اتحاد بنا لیا تو شکست فاش یقینی ہے ـ جُون جولائی کی جان لیوا گرمی میں دوتین مرتبہ مخالف فوج میں محاز آرائی ھو چُکی تھی ـ برطانوی کیمپوں میں وقتا” فوقتا” یہ اِعلان بھی ھوتا رہتا تھا کہ ملتانی سپاہ سے ایک یا دو ہفتوں کے بعد دوبارا سامنا ھو گا ـ اِسی دواران پہلے ہی دو ایک مرتبہ قلعہ بند کچھ ملتانی سپاہی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لئے باہر نکلے مگر کوئی گولی شُوٹ کیے بغیر اندر چلے گئے ـ اِن دو مہینوں کے دواران اگر وہ مکمل تیاری سے انگریزی فوج پر حملہ آور ھوتے توانگریز افسران میں سے شاید ایک بھی باقی نہ رہتا ـ مگر بد قسمتی یا مولراج کے متزلزل ارادوں اور اندرونی خوف نے ملتانی سپاہ کو ایسا کرنے سے بار بار روکا ـ یہی دوماہ ہی تاریخ کا رخ موڑنے کے لئے اہم ترین تھے اور دل ہی دل میں خوفزدہ مُولراج نے دونوں مہینے نہ خود کوئی بہادری کا جوہر دکھایا اور نہ ہی کِسی اور ملتانی سُورما کو سپہ سالاری سونپ کر آگے بڑھنے دیا ـ قلعہ بندی کے یہی دوماہ انگریزی اتحادی فوج کے لئے عسکری تاریخ کا سب سے بڑا اثاثہ ثابت ھوئے ـ
لیفٹینیٹ ایڈرورڈز ٹبہ قیصرانی پر پڑاو ڈالے میجر جنرل وہش کے تازہ دم دستے کے انتظار میں تھا تاکہ وہ تینوں اطراف سے ھملہ کرکے قلعہ ملتان کو روئی کے گالوں کیطرح اُڑا دے ـ بالآخر سورج کنڈ ندی کے مغرب میں دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کا فوجی اعزاز کے ساتھ استقبال کیا ـ

                                           

***

اے وی پڑھو:

تریجھا (سرائیکی افسانہ)۔۔۔امجد نذیر

چِتکَبرا ( نَنڈھی کتھا )۔۔۔امجد نذیر

گاندھی جی اتیں ٹیگور دا فکری موازنہ ۔۔۔امجد نذیر

گامݨ ماشکی (لُنڈی کتھا) ۔۔۔امجد نذیر

سرائیکی وسیع تر ایکے اتیں ڈائنامکس دی اڄوکی بحث ۔۔۔امجد نذیر

امجد نذیر کی دیگر تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: