عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کے مرکزی صدر میاں محمد شہباز شریف نے پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے نمائندوں کا ایک اہم اجلاس اپنے چیمبر میں بلایا ہے۔ اس اجلاس کی ایک خاص بات ہے کہ میاں محمد شہباز شریف نے پی پی پی اور اے این پی کی قیادت کو بھی اس اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ ارسال کیا۔ اس اجلاس کا مقصد کیا ہے؟
پاکستان مسلم لیگ نواز کے ایک سینئر پارلیمانی رکن سیاست دان کے مطابق اجلاس کا مقصد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پہ دباؤ بڑھانا ہے جو اس وقت اندرونی خلفشار سے دوچار ہے۔ اور اس کا دوسرا مقصد اسٹبلشمنٹ یہ تاثر دینا ہے کہ حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی قیادت پہ متفق ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز اس اجلاس سے کیا حاصل کرپائے گی؟ کیا پی پی پی اور اے این پی شہباز شریف کے ساتھ ہاتھ ملاکر دوبارہ ساتھ چلنے کو تیار ہوں گی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب جاننا بہت ضروری ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی اور اے این پی کو پی ڈی ایم سے نکالنے کی جو کوشش مسلم لیگ نواز نے اپنے سابقہ دور حکومت کی اتحادی جماعتوں اور مینگل گروپ کی حمایت کے ساتھ کی تھی اس کے نتائج کافی منفی نکلے ہیں۔ مسلم لیگ نواز نے جو پی پی پی اور اے این پی کے بارے میں یہ تاثر دیا تھا کہ وہ اسٹبلشمنٹ سے مل گئے ہیں اور اے پی ڈی ایم کے بنانے کے مقصد کے ایجنڈے سے ہٹ گئے ہیں، بظاہر پروپیگنڈا مہم ثابت ہوا ہے۔
پی پی پی اور اے این پی کو شو کاز نوٹس جاری کرنے کے بعد اور دھرنا کا پروگرام ملتوی کرنے کے بعد سے پاکستان مسلم لیگ نواز نے اپنے اینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیہ کے برعکس 180 درجہ کا یو ٹرن لیا ہے۔ پہلے مریم نواز شریف کا بیان آیا کہ ان کی جماعت پنجاب اور وفاق میں عدم اعتماد لانے کا نہیں سوچ رہے اور ہم چاہتے ہیں کہ عمرن خان پانچ سال پورا کریں۔ پھر مسلم لیگ نواز کی میڈیا میں ترجمانی کرنے والے رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف کے بارے میں میڈیا کو کہا گیا کہ نواز لیگ کی ترجمانی کے لیے جاوید لطیف کو ٹی وی پروگراموں پہ مدعو نہ کیا جائے۔ اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما اور میاں محمد نواز شریف و مریم نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر عمر نے ایک آفیشل بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ جاوید ہاشمی فوج اور اسٹبلشمنٹ کے دیگر اداروں کے بارے میں جو بیانات جاری کرتے ہیں وہ مسلم لیگ نواز کی پالیسی نہیں بلکہ ان کے ذاتی بیانات ہیں۔
کئی ایک ٹی وی پروگراموں میں مسلم لیگ نواز کی پاکستان میں صف اول کی قیادت جن میں شاہد خاقان عباسی، زبیر عمر، خواجہ سعد رفیق اور دیگر شامل ہیں نے پے درپے یہ بیانات دینے شروع کررکھے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ سے ان کی کوئی لڑائی نہیں ہے۔ خاقن عباسی کا کہنا تھا کہ ان کی صلح ہوچکی ہے۔
مسلم لیگ نواز کی حالیہ پالیسی "نقصان کنٹرول کرنے” اور "اسٹبلشمنٹ سے تعلقات کو بہتر بنانے” کی طرف ہے۔ اور اس پالیسی کو اینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیہ کی سابقہ پالیسی پہ سبقت حاصل ہوگئی ہے۔ مسلم لیگ نواز کے مرکزی صدر میاں محمد شہباز شریف جن کے بارے رہائی سے پہلے یہ خبریں سرگرم تھیں کہ مسلم لیگ نواز پہ ان کا کنٹرول ختم ہوچکا ہے اور نواز لیگ کو مریم نواز چلارہی ہیں اچانک سے پارٹی کے مرکزی وہیل سٹیئرنگ پہ مکمل کنٹرول کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔ اور اسٹبلشمنٹ سے اکاموڈیشن اور "نقصان کنٹرول” کرنے کی پالیسی میاں شہباز شریف کی "صلح جو” پالیسی کا ہی حصّہ ہے۔
ایسا نظر آتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے اندر سے "ش لیگ” نکالنے کے پروجیکٹ میں تبدیلی آگئی ہے اور میاں محمد نواز شریف نے خود ہی پوری پاکستان مسلم لیگ نواز کو ہی "ش” میں بدل دیا ہے۔ یعنی نام تو وہی ہے لیکن بیانیہ ش کا آگیا ہے۔
مسلم لیگ نواز کے اندرونی زرایع کا کہنا ہے کہ اس وقت مسلم لیگ نواز کے 99 فیصد اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور "بیانیہ” سے ہوئے نقصان کا ازالہ کرنے کے حق میں ہیں اور شہباز شریف کی لائن کو ہی حمایت حاصل ہے۔
مسلم لیگ نواز کے میڈیا ونگ کے خدوخال کو سنوارنے اور مین سٹریم میں شہباز شریف کے دست راست سمجھے جانے والے معروف صحافی، تجزیہ نگار نجم سیٹھی جنہیں عام طور پہ اینٹی اسٹبلشمنٹ بناکرپیش کیا جاتا ہے نے اپنے حالیہ ٹوئٹ میں مسلم لیگ نواز اور اسٹبلشمنٹ میں "صلح” کا خیرمقدم کیا اور اسے شہباز شریف کی کامیابی گردانا ہے۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف میں ابھرنے والے جہانگیر ترین گروپ کی طرف سے ایک نیا اقدام سامنے آیا ہے۔ گروپ نے قومی اسمبلی میں راجا ریاض کو پارلیمانی لیڈر بنایا تو پنجاب اسمبلی میں اپنا لیڈر بھکر سے تعلق رکھنے والے سینئر ترین رکن اسمبلی اکبر نوانی کو پارلیمانی لیڈر مقرر کیا ہے۔ راجا ریاض نے کے پی کے سے جہانگیر ترین گروپ میں پانچ اراکین صوبائی اسمبلی کی شرکت کا دعوا کیا ہے تاہم ان کے نام سامنے نہیں آئے۔
اگرچہ جہانگیر ترین نے گزشتہ روز لاہور جوڈیشل کمپلیکس میں میڈیا سے بات چیت کے دوران واضح کیا تھا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کا ہی حصّہ ہیں اور حکومتی بنچ پہ ہی بیٹھیں گے۔ زرایع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین "دباؤ کی حکمت عملی” پہ عمل پیرا ہیں اور وہ حکومت سے الگ نہیں ہوں گے اور "دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی” سے کام لیکر حکومت کی بقیہ مدت میں اپنے اوپر مقدمات میں ریلیف اور اپنے ساتھ کھڑے اراکین اسمبلی کے لیے مراعات، ترقیاتی فنڈز اور مہربان صوبائی و ضلعی نوکر شاہی کا ہدف حاصل کرتے رہیں گے۔
اس وقت شہباز شریف اور جہانگیر ترین کی صورت میں جو دو چیلنج پی ٹی آئی کی حکومت کو درپیش ہیں، کیا یہ اسٹبلشمنٹ کے اشارے سے ابھرے ہیں؟ ظاہر ہے شہباز شریف، ان کے ساتھی ، ایسے ہی ترین گروپ بھی غیر اعلانیہ طور پہ اس تاثر کو برقرار رکھیں گے کہ وہ یہ سب اسٹبلشمنٹ کے اشارے پہ کررہے ہیں لیکن آثار اور پردے کے پیچھے گفتگو سے ایسا لگتا ہے اسٹبلشمنٹ نے ان میں سے کسی کو اشارہ تو نہیں دیا لیکن اس نے پی ٹی آئی کے لیے ان دو تازہ چیلنچ پیش کرنے والوں کے خلاف پی ٹی آئی حکومت کو آؤٹ آف دا وے کوئی تعاون بھی پیش نہیں کیا ہے۔
جہانگیر ترین کی درخواست ضمانت میں دوسری مرتبہ توسیع، قاضی فائز عیسی کیس میں نظر ثانی کی اپیل کی منظوری، شہباز و حمزہ کی ضمانت سے یہ تاثر ضرور پیدا ہوا ہے کہ مسلم لیگ نواز کو اسٹبلشمنٹ نے کچھ سکھ کا سانس لینے ک موقعہ فراہم کیا ہے اور یہ شہباز شریف کی "نقصان کنٹرول کرنے اور اسٹبلشمنٹ کی جانب جارحانہ بیانیہ” ترک کرنے کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان مسلم لیگ نواز شہباز شریف کی قیادت میں پنجاب اور قومی اسمبلی میں تبدیلی کے راستےکی طرف جانے کا ذہن بنارہے ہیں؟ کیونکہ پاکستان پیپلزپارٹی نواز لیگ کے ساتھ اگر دوبارہ تعاون پہ غور کرے گی تو اس کی شرائط پی ڈی ایم میں کیے گئے فیصلوں پہ عمل درآمد ہوگا جس میں پنجاب اوروفاق میں عدم اعتماد کی تحریکیں لانے کی شرط بنیادی ہے۔ لیکن فی الحال مسلم لیگ نواز کے سربراہ شہباز شریف جس راستے پہ عمل پیرا ہیں اس سے تو بظاہر ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ بلکہ ایسا نظر آتا ہے کہ شہباز شریف اپنے اتحادیوں کے ساتھ 2023ء میں الیکشن کے لیے بساط بچھانے کی تیاری کررہے ہیں۔
مسلم لیگ نواز 2023ء کے ممکنہ انتخابات کے لیے جو سیاسی بساط بچھانے کی خواہش مند ہے اس کا بنیادی مقصد یہ تاثر قائم کرنا ہے کہ اسٹبلشمنٹ اور نواز لیگ میں سمجھوتہ ہوچکا ہے۔ اسٹبلشمنٹ پنجاب میں مسلم لیگ نواز کے راستے میں روکاوٹیں نہیں ڈالے گی- اور اسٹبلشمنٹ کو شہباز شریف قبول ہے۔ دوسرا تاثر یہ پیدا کرنا مقصود ہے کہ عمران خان کی قیادت میں ملک کو بحران سے نکالا نہیں جاسکتا- پنجاب اور وفاق چلانے کے لیے شہباز شریف بہترین انتخاب ہے اور اس سے اسٹبلشمنٹ کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ اس سیاسی بساط کا اندازہ پاکستانی قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی معروف ویب سائٹوں اور اخبارات میں نواز لیگ کی بی ٹیم خیال کیے جانے والے تجزیہ نگاروں کے تجزیے ہیں۔
بی بی سی اردو کی نیوز ویب سائٹ اور جیو-جنگ میڈیا گروپ و ڈان میڈیا گروپ سے منسلک چند اہم تجزیہ نگار جن میں سہیل وڑائج، سیدہ عاصمہ شیرازی، حامد میر،اعزاز سید، عمر چیمہ، فواد احمد اور نیا دور ویب ٹی وی پہ نمودار ہونے والے نجم سیٹھی، مرتضی سولنگی جو شہباز شریف کی رہائی سے پہلے اسٹبلشمنٹ اور نواز لیگ میں محاذ آرائی کو فیصلہ کن سطح پہ دکھا رہے تھے اور پی پی پی کو اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کرتے دکھائی دیتے تھے، ان کے حالیہ تجزیے شہباز شریف کی پروجیکشن اور نواز لیگ اور اسٹبلشمنٹ میں مبینہ ڈیل کو خوش آئیند قرار دے رہے ہیں۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ 19 مئی 2021ء کو بی بی سی اردو ویب سائٹ پہ سہیل وڑائچ کے تجزیے بعنوان "وزیراعظم کے لیے خطرناک ترین کون؟” اور 20 مئی 2021ء انگریزی روزنامہ ڈان میں فہد حسین کے ریڈ زون میں تجزیہ بعنوان ” ایس ایس سے جے کے ٹی اور زلفی بخاری تک: کیا گریٹ گیم کا آغاز ہوگیا ہے؟” میں یہ نتجیہ اخذ کیا گیا کہ آنے والے انتخابات میں پنجاب میں مقابلہ نواز لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان ہوگا اور پلڑا نواز لیگ کا بھاری رہے گا۔ فہد حسین نواز لیگ کے ٹکٹ کو ہاٹ کیک قرار دیتے ہیں۔ اور ان دونوں کے ساتھ ساتھ نجم سٹھی بھی نواز لیگ اور اسٹبلشمنٹ میں مبینہ صلح کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کا آج تمام اخبارات میں یہ بیان صفحہ اول کی زینت ہے کہ ” ملک کے تمام مافیاز حکومت کے خلاف اکٹھے ہوچکے ہیں – این آر آر او مانگ رہے ہیں جو نہیں ملے گا”۔ پی ٹی آئی حکومت ایک طرف تو شہباز شریف کی لندن واپسی ہر صورت روکنا چاہتی ہے تاکہ دکھاسکے کہ شہباز و اسٹبلشمنٹ میں کوئی ڈیل نہیں ہوئی – جبکہ دوسری طرف راولپنڈی رنگ روڈ کرپشن کیس میں اٹھائے گئے اقدامات سے یہ تاثر پختہ کرنے کی کوشش ہے کہ مبینہ کرپشن اور فراڈ میں ملوث کسی کو چھوڑا نہیں جائے گا چاہے اس کا تعلق کسی کیمپ سے ہو۔
پاکستان تحریک انصاف میں جو اندرونی خلفشار ہے اس بارے میں مسلم لیگ نواز کی کوشش یہ ہے کہ ایسا تاثر میڈیا کے زریعے قائم کیا جائے جس سے یہ لگے کہ پنجاب میں ہیوی ویٹ جیتنے والے گھوڑوں کے لیے مسلم لیگ نواز کا ٹکٹ ہاٹ کیک ہے۔ اور یہ تاثر ختم کرنا صرف پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ تاثر ختم کرنا پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے بھی اشد ضروری ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب نے خوشاب میں ضمنی انتخاب میں پی پی پی کی بدترین کارکردگی پہ سنٹر پنجاب کی تنظیم کے عہدے داروں کے استعفے منظور کرلیے ہیں۔ پی پی پی سنٹرل پنجاب اور پی پی پی وسطی پنجاب کے جیالوں کی اکثریت اور پی پی پی کے ٹکٹ ہولڈز کی اکثریت مسلم لیگ نواز کے ساتھ مفاہمت کی شدید مخالف ہیں اور ان کی جانب سے دباؤ ہے کہ پی پی پی پنجاب میں مسلم لیگ نواز مخالف سیاسی جماعتوں اور دھڑوں سے اشتراک اور تعاون بڑھانے کے لیے سنٹرل پنجاب میں فیصل صالح حیات کو پی پی پی کا صدر بنایا جائے۔ فیصل صالح حیات کے قریبی ساتھی دعوے کررہے ہیں کہ اگر وہ سنٹرل پنجاب کے صدر بنائے گئے تو پنجاب سے وہ کم از کم 30 صوبائی اسمبلی کے اراکین کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہوجائیں گے جبکہ 20 سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے والے اراکین ان کے ساتھ ہوں گے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت کی پنجاب بارے جو موجودہ تنظیمی اور سیاسی پالیسی ہے اس سے جیالوں کی اکثریت غیر مطمئن ہے۔ پی پی پی کے جیالوں کی شکایت ہے کہ پی پی پی کی جو مرکزی اور صوبائی میڈیا و سوشل میڈیا ٹیم ہیں وہ پنجاب میں نواز لیگ اور پی ٹی آئی کے مقابلے میں انتہائی ناقص کارکردگی کی حامل ہیں اور ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پنجاب کے دونوں حصوں کی ضلعی تنظیمیں تین سال کا عرصہ پورا کرچکیں اب ان کو ختم کرکے نئی تنظیمیں بنانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج پنجاب میں سیاسی حلقوں میں اپنے آپ کو پاکستان مسلم لیگ نواز کے مقابلے میں کم از کم پاکستان تحریک انصاف کے برابر کی ٹکر ثابت کرنا ہے۔
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر