رانامحبوب اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ لکھاری ، کتابیں، لوگ ، منظر، اور شہر ، حیرت زدہ کرتے ہیں۔ اقبال نے کہا:
ایک حیرت و سرمستی ہے سراپا تاریک
ایک حیرت و سرمستی ہے تمام آگاہی
پروفیسر ناصر عباس نیر، حیرت زدہ کرنے والے لکھاری ہیں۔ وہ نو آبادیاتی ماضی کی گرہیں کھولتے ہیں اور ماضی کی تفہیم سے ماضی کو بدلنے کا راستہ دکھاتے ہیں ۔ ایسی تخلیقی نثر کہ دل کی دنیا نثری شعریات کے نیر سے منور ہو جاتی ہے ۔ Empathy سے مختلف rational compassion ان کی تحریروں کو روشنی کا استعارہ بناتا ہے ۔برصغیر میں پوسٹ کولونیل مطالعات کے معتبر بنیاد گزار ،پروفیسر ناصر ، افسانہ نگار، مصنف اور مدون ہیں۔ وہ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے وسط میں شور کوٹ میں پیدا ہوئے ۔قدیم شور کوٹ، ہیر کے محبت بھرے جھنگ اور معرفت کے باہو سلطان کے درمیان واقع ہے۔ان کی نثر میں خاک کی مہک اور معرفت کی روشنی جنم بھومی کے باغ سے آتی ہے ۔انھوں نے فیصل آباد یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی اور ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کیا ۔تدریسی اور انتظامی ذمہ داریوں اور رشتوں میں بندھا استاد مگر لفظ و معنی کا دقیقہ شناس ہے۔ بے معنویت کے عہد میں وہ معنی کی شاہراہ کا شاہ سوار ہے۔ نسبتاً جواں عمری میں ہی انھوں نے لگ بھگ تیس کتابوں کی تخلیق اور تدوین جیسا "جناتی” کام کیا ہے ۔ وسیع و وقیع کام جو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔
پروفیسر، ناصر عباس نیر، استعماری قہر کو بے نقاب کرنے والے مفکر ہیں۔ وہ مقامی آدمی کو بھیانک سچائیوں کے رو برو لا کھڑا کرتے ہیں تا کہ وہ نوآبادیاتی تناظر میں زندگی اور آرٹ کی تفہیم کر سکے اور ایک بہتر، انسان دوست اور متوازن سماج کی تشکیل کے لئے آگاہی حاصل کرے ! وہ کرودھ کے بغیر حقیقت کی پرتیں کھولتے ہیں۔یورپ نے ایشیاء اور افریقہ میں زمینوں پر قبضہ کیا اور مقامی آدمی کی ثقافتی اور تہذیبی شناخت کو طاقت کے زور سے مٹایا ۔ قتلِ عام اور لوٹ مار کی ۔ 1857 کی جنگِ آزادی اور جلیانوالہ باغ کی بربریت کے باوجود طاقت کی معکوس منطق سے مقامی آدمی کو وحشی اورbarbarianکہا۔سامراجی بیانیے کو طاقت، نصاب اور ادارہ جاتی استناد سے نافذ کیا ۔مقامی تاریخ ، علمیات ، صنعت ، تہذیب اور ثقافت کا انکار مگر قتل و غارت سے بڑا جرم تھا ۔ مقامی آدمی کو تہذیب سکھانے کے نام پر ہندو مسلم تہذیب کو برباد کیا۔ پروفیسر ناصر عباس نیر جدیدیت اور نو آبادیات کے یورپی تصورات کی قلعی کھولتے ہیں۔ ادبی متون سے مشرقی جدیدیت کی روشن مثالیں پیش کرتے ہیں۔ یورپی جدیدیت کے برعکس وہ مشرق کی روشن فکر اور مقامی جدیدیت کی تفہیم سے جدیدیت پر یورپی اجارہ داری کے تصور کو رد کرتے ہیں۔ بودھی فکر، ابو لمعری ، بیدل اور غالب کی جدیدیت کی وضاحت کرتے ہوئے وہ جدیدیت کے یورپی تصور کو چیلنج کرتے ہیں۔ تاریخ کو مقامی gaze سے دیکھتے ہیں ۔یہ شکاری کی نہیں شکار کی نظر ہے ۔ وہ کربلائیں جنھیں نظم کرنے کو انیس و دبیر نہ ملے، ان کو نثر کے نیر نے رقم کر دیا ہے !
ان کی کتابوں میں ” دن ڈھل چکا تھا، چراغ آفریدم ،جدیدیت سے پس جدیدیت تک ، نظیر صدیقی: شخصیت اور فن ، جدید اور ما بعد جدید تنقید ،ساختیات:ایک تعارف ، مابعد جدیدیت:نظری مباحث ، مجید امجد:شخصیت اور فن ،لسانیات اور تنقید ، مابعد جدیدیت: اطلاقی جہات ، آزاد صدی مقالات (بہ اشتراک ڈاکٹرتحسین فراقی) ، متن، سیاق اور تناظر ،مابعد نوآبادیات اردو کے تناظر میں، مجید امجد حیات:حیات، شعریات اور جمالیات، ثقافتی شناخت اور استعماریاجارہ داری،عالمگیریت اور اردو ، اردو ادب کی تشکیلِ جدید ،خاک کی مہک ، اس کو ایک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں ، ہائیڈل برگ کی ڈائری ، فرشتہ نہیں آیا ، ” جدیدیت اور نوآبادیات ، ” ایک زمانہ ختم ہوا”، اور انگریزی مضامین پر مشتمل کتاب” Coloniality, Modernity and Urdu Literature”شامل ہیں۔کتابوں کی یہ طویل فہرست مقدار سے زیادہ معیار کے اعتبار سے حیران کن ہے۔ پوسٹ کولونیل ادب پر ان کا مطالعہ ادب کے قاری کے قلب کو روشن کرتا ہے اور قلب سے انقلاب ہے۔ان کی کتابیں سیاست کے طالب علموں کے لئے پڑھنا ضروری ہیں تاکہ وہ اس پیراڈائم کو سمجھ سکیں جو عوامی مسائل کے حل میں رکاوٹ ہے۔ "جدیدیت اور نو آبادیات”، ایسی روشن کتاب ہے جسے ریاستی تربیتی اداروں اور جامعات کے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے کہ موجودہ نوآبادیاتی جبر کی تفہیم ممکن ہو سکے ۔مرعوبیت اور مغرب کی نقالی کی بجائے، ماضی کی نئی تفسیر سے ماضی کو بدلنے کا شعور پیدا ہو سکے!
پروفیسر ناصر عباس کی حیرت انگیزتخلیقی زبان تنقید کو ادب ِعالیہ بناتی ہے ۔ شعری نثر نوآبادیاتی قصہ کھولتی ہے اورمقامی آدمی کا سچ روشن ہو جاتا ہے۔ نوآبادیاتی قتل و غارت کے قصے میں سب سے بڑا ظلم مقامی علمیات کی نفی اور زبانوں کا قتل عام ہے اور یہ اس قتل سے کہیں زیادہ بھیانک ہے جو بنگال، دلی، پنجاب،ملتان اور سندھ میں ہوا ۔ ولیم جونز، ٹی بی میکالے اور کمپنی کے سامراجی سوداگروں نے سالوں کی منصوبہ بندی سے سامراج کی برتری کا بیانیہ تشکیل دیا۔مقامی تاریخ سے انکار کیا۔جونز نے کہا کہ ہندوستان میں زبانوں کا امریکہ دریافت ہوا ہے۔ان زبانوں کو مگر بے مایہ ثابت کیا گیا۔سنسکرت اور فارسی کی تعلیم ختم کرکے انگریزی کا نصاب رائج کیا گیا تاکہ ایک ایسا طبقہ وجود میں آئے جو دیکھنے میں ہندوستانی اور فکرو عمل میں انگریز ہو ۔ یہ نفرت کی تعلیم تھی۔ سامراجی پالیسی کے تحت بر صغیر میں linguistic imperialism کا آغاز ہوا جس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ آج ہر لسانی اکائی دوسری لسانی اکائی کو برا کہتی ہے۔ہمارے لسانی رویے سامراج کی دین ہیں۔ اپنی زبان کو دوسری زبان سے برتر ثابت کرنے کا جذبہ،استعماری ہے!دنیا میں زبانوں کی تعداد بارہ ہزار سے کم ہو کر کوئی ساڑھے چھ ہزار رہ گئی ہے اور پوسٹ کولونیل ریاستیں مادری زبانوں کا انکار کرکے زبان کشی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔لسانی تعصب سامراجی ہتھیار ہے! تقسیم کرو اور لڑاو کی ریاستی پالیسی،کولونیل پالیسی کا تسلسل ہے!
پروفیسر ناصر کولونیل پیراڈائم کو کلاسیکل مشرقی متون اور شعریات کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور سامراجیت کو رد کرتے ہیں۔ بودھی فکر، گوتم ، بیدل اور غالب کی جدیدیت کی تفسیر سے حیرت زدہ کرتے ہیں۔ سوسیئر، فوکو، اور دریدا؛ قدیم اور جدید ، مشرق اور مغرب، ” جدیدیت اور نوآبادیات ” کے روشن متن میں مکالمہ کرتے نظر آتے ہیں تو مشرق سے ایڈورڈ سعید، گیاتری سپوک ، اچیبھے مقامی آدمی کے بیانیے کو روشن کرتے ہیں۔پروفیسر ناصر اس کہکشاں کا ستارہ ہے۔ مقامیت کا وکیل ہے۔ پوسٹ کولونیل ادب کو ناصر عباس سے بہتر نقاد اور لکھاری نہیں مل سکتا تھا۔ان کی تازہ ترین کتاب ” جدیدیت اور نو آبادیات” میرے دعوی کی دلیل ہے۔ پوسٹ کولونیل تھیوری پر لکھتے ہوئے ان کی تحریر میں کہیں بھی غصہ اور جھلاہٹ نظر نہیں آتی. آئیڈیالوجی کے جبر سے ماورا ، روشن فکر ان کی تحریر میں جادوئی تاثیر پیدا کرتی ہے۔آج کے episteme کے تناظر میں وہ علامتوں کی بازیافت کی بات کرتے ہیں اور ایسے دقیق مسائل پر لکھتے ہوئے ان کے لفظوں میں وہ تاثیر ہے کہ انتظار حسین جیسے بڑے لکھاری کی نسبت ان کی کتاب کی قرات آسان ہے:
لفظ تاثیر سے بنتے ہیں تلفظ سے نہیں
اہلِ دل آج بھی ہیں اہلِ زباں سے آگے
ہم کینسل کلچر کے عہد میں زندہ ہیں۔لوگ سماجی اور پروفیشنل مجلسوں سے ایک دوسرے کو بے دردی سے خارج کرتے ہیں۔یہ غالب اور ذوق کی معاصرانہ چشمک سے مختلف بات ہے۔پروفیسر ناصر مگر خوش قسمت ہیں کہ بڑے ہمعصر ان کے کام کی اہمیت اور خلاقیت کے معترف ہیں۔شمیم حنفی سے پروفیسر زاہد منیر عامر تک سکہ بند علماء نے ان کے کام کو سراہا ہے۔ تاہم میرے لئے ان کے کام کی اہمیت اور افادیت پر بات کرنا دل کا معاملہ ہے۔ پروفیسر ناصر کو بس ایک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں کہ لایعنیت کے اندھیرے میں وہ روشنی کا استعارہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
امر روپلو کولہی، کارونجھر کا سورما (1)۔۔۔رانا محبوب اختر
محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر
عمر کوٹ (تھر)وچ محبوبیں دا میلہ۔۔۔ رانا محبوب اختر
ماروی کا عمر کوٹ یا اَمرکوٹ!۔۔۔رانامحبوب اختر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر