حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سے پیوستہ ہفتے ایک دوپہر کابل کے ہزارہ آبادی والے علاقے میں قائم سید الشہداء سکول کے باہر اس وقت خودکش حملہ ہوا جب سکول میں چھٹی کے بعد بچے اپنے گھروں کے لئے روانہ ہورہے تھے۔
اس خودکش حملے میں 60 طلباء و طالبات شہید، درجنوں زخمی ہوگئے، سیدالشہداء سکول کے باہر حملے والی جگہ پر بچوں کی نعشوں، زخمیوں اور بستوں کے ڈھیر میں والدین اپنی اولادوں کو جس تڑپ سے تلاش کررہے تھے اس منظر نے ہر صاحب اولاد کو دہلاکے رکھ دیا۔
ہزارہ برادری والے اس علاقے پر حملہ پہلا واقعہ ہرگز نہیں۔ کابل میں ہزارہ برادری کے لوگ اپنے عقیدے کی وجہ سے پہلے طالبان کا ستم سہتے رہے اب داعش، لشکر جھنگوی العالمی اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے ساتھ کالعدم ٹی ٹی پی کے بھگوڑوں کی بربریت کا شکار ہیں۔
افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کے انخلاء کے شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد سے ان سطور میں تواتر کے ساتھ عرض کررہا ہوں کہ اگر افغانستان کے متحارب دھڑوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو ایک نئی خانہ جنگی افغانستان کا مقدر ٹھہرنے والی ہے۔
ہفتہ 8مئی کے سانحہ سیدالشہداء سکول کے بعد طالبان نے اس کارروائی سے اپنی لاتعلقی کااعلان کیا لیکن کابل میں ان کے اس اعلان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔
بعض حلقے اس سانحہ کا ذمہ دار داعش کو بھی قرار دے رہے ہیں۔ افغان حکومت کے ترجمان البتہ اسے طالبان سے جوڑ رہے ہیں۔
معاملہ جو بھی ہو تلخ حقیقت یہی ہے کہ شیعہ ہزارہ برادری مسلح جنگجوئوں کے لئے ہمیشہ تر نوالہ رہی اور اب بھی ہے۔ پچھلی بار جب ہزارہ آبادی میں ایک ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹر پر خودکش حملہ ہوا تھا تو داعش کے ترجمان نے کابل کے صحافیوں کو ٹیلیفون پر اسے اپنا کارنامہ بتاتے ہوئے جو کچھ کہا وہ ان سطور میں لکھنا ممکن نہیں البتہ ،خودکش حملہ آور کی شناخت بھارتی شہری کے طور پر ہوئی تھی جو 2018ء میں کاروباری ویزے پر بھارت سے افغانستان آیا تھا۔
اسی طرح کابل میں سکھوں کی عبادت گاہ پر ہوئے خودکش حملہ آور کی شناخت بھی بھارتی مسلمان کے طور پر ہوئی اور اس حملہ کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی تھی۔
افغانستان میں داعش خراسان کے پاس تین طرح کی افرادی قوت ہے اولاً عراق اور شام سے محفوظ راستے سے افغانستان پہنچائے گئے عرب و غیرعرب جنگجو یاد رہے ان جنگجوئوں کو امریکہ براستہ ترکی افغانستان لایا تھا اس کے لئے امریکہ کے زیراستعمال بڈگرام ایئر بیس استعمال ہوا۔
سال 2018ء اور 2019ء میں اس امریکی حکمت عملی پر افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے مجھ تحریر نویس سمیت متعدد لوگوں نے سوالات اٹھائے تھے۔
اہم ترین سوال یہ تھا کہ داعش کے جنگجوئوں کو افغانستان پہنچانے کا امریکی مقصد طالبان کے خلاف ایک حریف میدان میں اتارنا ہے یا خطے میں نئی عسکریت پسندی کا دروازہ کھولنا مقصود ہے‘
2018ء سے اب تک کابل میں داعش نے 27 کارروائیاں کیں ان میں گیارہ کارروائیوں کا نشانہ شیعہ ہزارہ آبادی بنی۔
سابق امریکی صدر ٹرمپ نے پچھلے برس جب یکم مئی 2021ء کو افغانستان چھوڑدینے کا اعلان کیا تو یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا امریکہ اب اپنے کام داعش کے ذریعے کروائے گا؟
یہ سوال بلاوجہ نہیں تھا امریکیوں نے خود اور افغان حکومت کے ساتھ مل کر اس عرصہ میں طالبان کے خلاف کارروائی کی لیکن اس نے کبھی داعش کو نشانہ نہیں بنایا۔
یہی وجہ ہے کہ امریکی انخلا کے اعلان کے بعد پوچھا گیا کہ اگر داعش، اسلامی موومنٹ ازبکستان اور لشکر جھنگوی العالمی و جنداللہ کے خلاف کارروائی کے بغیر امریکہ اور نیٹو رخصت ہوتے ہیں تو افغانستان میں ایک نئی خانہ جنگی برپا ہوگی۔
خدشات سوفیصد درست ثابت ہوئے۔ ہفتہ کو کابل کے سیدالشہداء سکول پر خودکش حملہ آنے والے دنوں کے منظرنامے کو سمجھانے کے لئے کافی ہے۔
کابل میں تجزیہ نگار فوری طور پر حتمی رائے تو نہیں دے رہے لیکن ان کی انگلیاں داعش اور طالبان کی طرف اٹھ رہی ہیں۔
یہ کارروائی جس گروہ کی بھی ہے بربریت سے عبارت ہے۔ امریکی حکام یا کابل حکومت دونوں بے بسی کا شکار دیکھائی دیتے ہیں۔ ترکی جو افغانستان میں امریکہ کی رضامندی سے ایک نیا کردار ادا کرنے کی تیاریوں میں ہے کیا وہ افغان حکومت سے عسکری گروہوں کے خلاف تعاون کرے گا؟
ہم اسے بدقسمتی ہی کہیں گے کہ امریکیوں نے طالبان سے قطر معاہدہ میں صرف اپنے مفادات کو پیش نظر رکھا، افغانستان کے اجتماعی مفادات کو نظرانداز کیا۔
امریکی وزیر خارجہ یہ کہہ چکے کہ
’’طالبان ہمارے مفادات کے خلاف کچھ نہ کریں‘‘
مطلب یہی ہواکہ جس کا جو دل چاہے کرے۔
بہرطور یہ امر طے ہے کہ افغانستان میں داعش کی کارروائیوں سے بہنے والا خون عالمی امن کے علمبردار امریکیوں کے منہ پر کالک مل رہا ہے۔
یہ فتنہ ان کا ہی بویا ہوا ہے۔ داعش خراسان اپنے تین مقامی اتحادیوں لشکر جھنگوی العالمی، جنداللہ اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے ساتھ مل کر جس بربریت کے مظاہروں میں مصروف ہے اس کا راستہ کون روکے گا؟
فوری طور پر تو کوئی ایسی قوت دیکھائی نہیں دیتی یہ بھی نہیں لگتا کہ ترکی سیاسی کردار سے آگے کا کوئی کردار اپنائے۔ ایسے میں افغان عوام کے بہی خوا صرف دعا ہی کرسکتے ہیں لیکن کیا دعاوں سے دہشت گردی کا توڑ ہوجائے گا؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر