دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خالی جگہیں||عامر حسینی

میں اپنے ریڈنگ روم میں بیٹھا خالی جگہوں کو آباد کررہا تھا تو چک 85/76 فارم والہ کی خالی جگہہ یوں پُر ہوئی کہ دھیان نہیں رہا

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج میں جانی پہچانی گلیوں اور بازاروں سے گزرتا جاتا اور وہاں جگہ جگہ مجھے ایسے لوگوں کے چہرے یاد آتے رہے جن کے ساتھ ہم روز صبح یا شام کو ملتے تھے اور ہمارے درمیان کبھی یہ بات نہیں ہوئی تھی کہ جب ہم سے کسی ایک کو ہم سب کے بغیر زندگی گزارنا پڑے گی اور جہاں ہم روز و شب میں ملا کرتے تھے تو وہاں سے تنہا گزرنا پڑے گا تو خالی جگہیں دیکھ کر اُس پہ کیا گزرے گی؟
میں کل ایک گلی سے گزرا تو وہاں کبھی ایک مکان کی بیٹھک میں میرا سواگت ایک ایسی ہستی کیا کرتی تھی جسے دوستی نبھانا آتی تھی، چارہ گری اور غمخواری آتی تھی، عمر میں مجھ سے وہ تین گنا بڑے تھے، پہلے ریلوے میں گارڈ تھے، پھر وکیل ہوگئے تھے……… میری نظر بیٹھک کے بند دروازوں پہ ٹھہری رہی اور رہ رہ کر اُن کی بہت سی باتیں یاد آتی رہیں……..
زرا عبدالغفار عرف غفی کے گپی چوک سے گزرا تو وہاں مجھے نہ تو اہتمام سے کرسیاں بچھی نظر آئیں، نہ اُن پہ سمٹے سمٹائے اکڑوں سے بیٹھے شیعب صاحب نظر آئے، نہ نستعلیق لب و لہجے میں چھریرے بدن والے شمس القمر خان دکھائی دے، نہ منحنی قد والے قدیر طاہر تھے نہ وہاں کبھی کبھی آکر بیٹھنے والے اور مٹھی بند کرکے بار بار سگریٹ کے زوردار کش لینے والے میرے عزیز چچا سیٹھ خلیل نظر آئے، ان کی باقیات میں سے اکرام القادری ہیں وہ اپنے مدرسے احسن العلوم میں اپنے آفس میں بیٹھتے ہیں جو میرے گھر سے بمشکل پانچ سو قدموں پہ ہے لیکن ایک دو بار گیا بھی تو احساس یہ ہوا کہ اُن کے سائے سے مل رہا ہوں…… میں ان سب صاحبان سے عمر میں چھوٹا تھا لیکن مجھے یہی لوگ اپنے احباب لگتے تھے…….. ہمارے شاہین واسطی باحیات ہیں لیکن وہ اب مسجد میں زیادہ پائے جاتے ہیں، کل پتا چلا کہ ماشاءاللہ محلے کی مسجد کے خزانچی بھی بنادیے گئے ہیں، یہ اطلاع مجھے میرے سُسر نے کل دی-
میں اور اعظم خان روز بیٹھتے ہیں اور پہلے پہل تو ہم دونوں کو سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ کہاں بیٹھیں…. میری مسیں بمشکل بھیگی ہوں گی جب ایک پرانی بیٹھک رانامحمد حسین کے زیر تعمیر بلڈنگ کے ڈھانچے میں ہوتی تھی، پھر چوک سنگلہ والہ میں چھانو کے چائے کا ہوٹل ہوا کرتا تھا یا باؤ محمد علی کا زمیندار ہوٹل، زرا فاصلے پہ رحمان سویٹس کے سامنے جمی محفل میں، میں شریک نہیں ہوتا تھا، پھر کچھ عرصہ بوٹا حلوائی کی دکان پہ بنے چائے کے اسٹال پہ اختر کی چائے پینے کی دھسک ہمیں وہاں لیجایا کرتی تھی، اختر ٹی اسٹال بہت عرصے تک چوک فاروق اعظم میں بیٹھنے کا ٹھکانہ رہا، اب بھی درجنوں ٹی اسٹال تو ہیں اور بظاہر بیٹھنے کی بہت ساری جگہیں بھی ہیں لیکن آج مجھے "خالی جگہوں” کو دیکھ کر بات سمجھ میں آئی کہ ٹھکانے آباد تو ہم جلیسوں کے ساتھ ہوا کرتے ہیں اور جب ہم جلیس ہی دکان اپنی بڑھا جائیں تو پھر ٹھکانے ٹھکانے نہیں رہتے…… چک 86/75 فارم والا ہمیں اُس وقت تک اپنا لگتا رہا جب تک کامریڈ لطیف زندہ رہے اور اُن کے مرنے کے بعد وہ چک ایک دم سے ہمارے لیے دوسرے اجنبی چکوک کی طرح ہوگیا-
ہمارے دوست سلیم سپرا (ان کی لمبی حیاتی کی دعا ہے) جب تک گلبرگ میں جاگزیں رہے ہم روز ہی وہاں سے دن یا رات کے کسی پہر گزرت اور اور اُن کے ٹھکانے پہ ٹھہرتے، وہ کیا گئے کہ دن روٹھ گئے بہار جیسی حالت ہوگئی…..
کچھ یار ہمارے ابھی اس شہر میں جیتے ہیں لیکن سچ پوچھو تو نہیں جیتے…… یا تو ہم اُن کے لیے مرگئے ہیں……. یا وہ…… (خاکم بدھن)
میں جب شہر بھر کا چکر لگاکر واپس گھر آیا تو میں نے سوچا کہ "خالی جگہوں” کا عذاب میرے لیے صرف اس شہر میں ہی نہیں اترا، وہ تو اُن شہروں میں بھی میرے اوپر اترا ہے جو کبھی میرے اپنے تھے اور اب وہاں جاؤں تو وہ چہرے غائب ہیں جو اُن شہروں میں قیام کے وقت ہمارے اردگرد ہوا کرتے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ چل دیے اور اب اُن کی باتوں اور یادوں کی گٹھڑی ہے جو اٹھائے میں پھرتا ہوں اور گاہے گاہے یہ گٹھڑی کھل جاتی ہے اور یادیں میرے سامنے ایسے زندہ ہوکر چلنے پھرنے لگتی ہیں جیسے سینما سکرین پہ تصویریں متحرک ہوجاتی ہیں………. مجھے گاہے بگاہے اپنے ہم جولیوں اور ساتھیوں سے اور اپنے مربیوں سے ملنے قبرستان بھی جانا پڑتا ہے تو وہاں اُن سے بات کرنے کے لیے بمشکل مراقبے میں جاپاتا ہوں اور اپنے اُن ساتھیوں کو بہت پرسکون پاتا ہوں……….. وہ کبھی جنت، دوزخ، حساب، کتاب، تعذیب و نعمت یہ باتیں نہیں ہوتیں، کامل سکون اور شانتی سے اُن کے بھرے چہرے دیکھ کر میں بھی شانت ہوجاتا ہوں کیونکہ اس دنیا میں تو وہ نظام کے ظلم پہ کڑھتے ہی پائے گئے تھے اور یہ سب کے سب وہ لوگ تھے جنھوں نے سماج میں پائے جانے والے جاتی واد، جاگیرداری واد، سرمایہ داری واد، نسل واد ، مذھب واد سے بنے گلے سڑے سماج کے ضابطوں کو مانا نہیں تھا یہ کہیں نہ کہیں منحرف ضرور ہوئے تھے اور یہ خود کو بمطابق زمانہ خود کو ڈھال نہ سکے اور سماج کے اَن داتاؤں نے ان کو سزا بھی خوب دی، آگہی ذات و سماج اُن کے لیے نا ختم ہونے والا کرب بن گئی تھی، جب سانس کی ڈوری ٹوٹی تو یہ اُس اذیت سے مکت ہوگئے –
کامریڈ لطیف کہا کرتے تھے کہ وہ درزی کا کام سیکھ کر خانیوال کے چک سے کراچی صدر پہنچے تو یہ انیس ہاشمی (وہ اُن کو بابا جی کہا کرتے تھے) سے جاٹکرائے اور انیس ہاشمی نے اُن کے اندر شعور کی وہ روشنی جلائی کہ وہ چک 86/75 فارم کے رہائشی ہوکر بھی اس طبقات، جات پات، نسل پرستی، مذھبی و نسلی منافرت و تعصبات پہ استوار سماج بارے سب سے بہتر جانکاری رکھنے والے ہوگئے اور ساری عمر وہ کسانوں، مزدوروں کو دیہہ خداؤں اور شہری خداؤں کے اصل چہرے دکھاتے رہ گئے، تین مرلے کے مکان میں رہنے والا لطیف کامریڈ کی بیٹھک میں کون سا انقلابی لیڈر تھا جس کا تذکرہ ہوتا نہیں تھا، وہ حبیب جالب کے ساتھ وقت گزارنے پہ اکثر فخر کیا کرتا تھا- مجھ سے اُس کی محبت کیا سبب تھا؟ یہی ناکہ میں اُس کے بابوں سے واقف تھا اور اُن کے راستے پہ چلنے کی باتیں کرتا تھا……. "ابے او حسینی! کیا تو اپنے آپ کو بڑا دانشور سمجھنے لگ گیا ہے جو تجھے ہماری یاد نہیں آتی؟ قریب قریب ہر ہفتے بعد ایسی بات مجھے فون کال پہ سُننے کو ملا کرتی تھی……. رکشے پہ بیٹھ کر وہ شہر آتے تو فون کرتے یا گھر آجاتے اور پہلی بات یہ کہتے” دیکھو حسینی میاں! (سامنا ہونے پہ وہ مجھے حسینی میاں! کہا کرتے تھے) میرے پاس 120 روپے ہیں بس ان سے ہی دوپہر کی روٹی بھی کھانی ہے، چائے بھی پینی ہے اور باقی کے 50 روپے میں نے واپس چک جانے کے لیے رکھے ہیں……. میں پہلے پہل کہا کرتا کہ جب میرے پاس آئے ہیں تو قیام و طعام میرے زمہ ہے….. لیکن وہ مان کر نہیں دیتے…… چک مجھے بلانا ہوتا تو میری گوشت خوری سے واقف تھے، مجھے کہتے بھئی بڑے کا گوشت یا چکن کا گوشت جو تم کہو کھانے کو ملے گا، چائے بھی ملے گی، بس چلے آؤ……. انھوں نے کبھی اپنا ذاتی کام نہیں بتایا…… انھیں بس چَس تھی وہ باتیں کہنے اور سُننے کی جو ان کے دماغ میں اُن کے بابوں نے ڈال دی تھیں……. سماج بدلنے کا سودا آخری سانسوں تک سر میں سمایا ہوا تھا، وہاں چک میں ایک اُن کا شاگرد خاص تھا مظہر جو اب بھی وہیں ہے اور ٹیلر ماسٹر ہے یہ کراچی بھی بابے لطیف کے ساتھ رہا اور سعید غنی کا پرانا یار بھی ہے (کہاں چک 86/75 فارم والہ، کہاں کراچی……. شعور کی آگ کیسے فاصلوں کو سمیٹ دیتی ہے) وہ مجھے کہنے لگا کہ بابے کی جب آخری سانسیں تھیں تو بابے نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، اُس حالت میں بھی مسکان ہونٹوں پہ تھی، آپ لوگوں کا زکر کعنے لگا اور کہنے لگا کہ ان لوگوں کا لڑ نہ چھوڑنا، ان سے کبھی نقصان نہیں ہوگا……. بابے کا ایک بکسہ تھا جس میں بابے نے اپنے بابوں کی یادوں کو سمویا ہوا تھا اور یہ بکسہ وہ جب بھی کھولا کرتے تو خوشبوؤں کا ایک چھٹا نتھنوں سے ٹکٹراتا تھا، اس میں انیس ہاشمی، حبیب جالب، جمال بخاری، کانتا بخاری اور کئی تصویریں رکھی ہوئی تھیں اور کئی رسالے تھے، انیس ہاشمی نے ان کو کئی کتابیں گفٹ کی تھیں وہ سنبھال کر رکھی ہوئی تھیں اور تو اور انیس ہاشمی کی سگریٹوں کا خالی پیکٹ تک سنبھالا ہوا تھا-
میں اپنے ریڈنگ روم میں بیٹھا خالی جگہوں کو آباد کررہا تھا تو چک 85/76 فارم والہ کی خالی جگہہ یوں پُر ہوئی کہ دھیان نہیں رہا

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author