اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہماری اور انکی عید ۔۔۔||گلزار احمد

دکاندار بتاتے نئے فیشن کے کپڑے آ رھے ہیں اس لیے تھوڑا نرخ زیادہ ہوگا۔اس دفعہ شعبان شروع ہوا تو گرمیوں کا بھی آغاز ھے ۔تو گرمیو ں کے لیے ہمیشہ نیے ڈیزائین کے عورتوں کے لون کے سوٹ مارکیٹ میں متعارف ہوتے ہیں۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عید کا تہوار تو اکثر قومیں اپنی روایات کے مطابق مناتی ہیں مگر یہودیوں اور عیسائیوں کی عید انکے عوام کے لیے ایک خوشخبری لے کر آتی ہے کیونکہ مارکیٹ میں اشیا کے ریٹ بہت کم کر دیے جاتے ہیں۔ ہمارے تو یہود و نصارا دشمن ہیں اس لیے ہم ان کی مخالفت میں عید پر ریٹ زیادہ کر کے عوام کو خوشحال رکھتے ہیں۔
میں جب چھوٹا تھا تو ہمارے ماں باپ پر ہر سال پانچ چھ مہینے بڑے مشکل گزارتے تھے۔شعبان کا مہینہ شروع ہوتا تو نیے کپڑوں کے نرخ بڑھنا شروع ہو جاتے۔
دکاندار بتاتے نئے فیشن کے کپڑے آ رھے ہیں اس لیے تھوڑا نرخ زیادہ ہوگا۔اس دفعہ شعبان شروع ہوا تو گرمیوں کا بھی آغاز ھے ۔تو گرمیو ں کے لیے ہمیشہ نیے ڈیزائین کے عورتوں کے لون کے سوٹ مارکیٹ میں متعارف ہوتے ہیں۔
ماڈل گرلز رنگے برنگے لون کے سوٹ پہن کر دکھاتی ہیں جس سے ہر عورت خواب میں اپنے آپکو اس ماڈل جیسا خوبصورت تصور کرتی ہے اور اس کے دل میں وہی نیا سوٹ خریدنے کی خواہش انگڑائی لینے لگتی ھے۔شعبان کے مہینے میں سلائی کے نرخ بھی بڑھنے شروع ہو جاتے ہیں۔سبزیوں۔فروٹ۔ وغیرہ کی ذخیرہ اندوزی ہونے لگتی ھے اس لیے آجکل مارکیٹ میں ان چیزوں کے ریٹ چڑھ جاتے ہیں۔
مقصد یہ ہوتا ھے کہ ماہ رمضان میں خوب منافع کمایا جاے۔ پرانے زمانے سے ہی ہمارے ملک میں ماہ رمضان کا مہینہ غریبوں سے ہمدردی اور محبت کا مہینہ تصور کیا جاتا ھے مگر ہوتا الٹ ھے۔ پھلوں کے ریٹ آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں ۔ برف کے نرخ بڑھ جاتے ہیں۔بیسن کا نرخ تو اس با برکت ماہ میں بہت اونچا رہے گا۔ہاں یوٹیلٹی سٹور پر کچھ سستا بیسن ملے گا مگر وہ سب سٹینڈرڈ ہو گا۔۔ بچوں کے ریڈی میڈ کپڑے ۔جوتے ۔فراک سب چیزیں بہت ہائی پرائیس پر پہنچا دی گئ ہیں ۔مصیبت یہ ھے کہ بچوں کو کپڑے اور جوتے خریدنے کے لیے ساتھ دکان پر لے جانا پڑتا ھے کیونکہ اس کے بغیر صحیح سائیز کے کپڑے جوتے خریدے نہیں جا سکتے۔
معصوم بچے کچھ کپڑوں یا جوتے کو پسند کر کے دکاندار کے سامنے خریدنے کی ضد کرنے لگتے ہیں اور دکاندار ماں باپ کی اس کمزوری سے خوب فاعدہ اٹھاتا ھے بالکل ریٹ کم کرنے پر راضی نہیں ہوتا اس طرح بہت سے غریب والدین بچوں کی ضد کے سامنے مجبور ہو کر ڈبل قیمت پر چیزیں خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔اب یہ کوئی عیسایوں یا یہودیوں کا ملک تو ھے نہیں جہاں کرسمس کے موقع پر ہر چیز کی قیمتیں آدھی تک کر دی جاتی ہیں تاکہ ہر غریب عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکے یہ تو ہمارا پیارا ملک ھے اور ہم آذاد ہیں شاید اس لیے کہ جتنا لوٹ سکتے ہیں لوٹیں۔۔
کچھ گورنمنٹ سرونٹس رشوت کے ریٹ بڑھا کر یا۔سڑکوں پر چالان کر کے عیدیاں وصول کرینگے آخر انکے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں تنخواہ پر گزارہ نہیں ہوتا ۔ہاں دھیاڑی دار مزدور مارا جائیگا کہ شاید دھیاڑی نہ لگے۔رمضان کے آخری دس دنوں میں دکاندار قیمتیں انتہائی اوپر کر دیتے ہیں۔مٹھائی ۔پھل۔عید سے ایک دن پہلے نیے نرخوں پر ملیں گے۔ غریب آدمی کی سارے سال کی جمع پونجی اس ایک مہینے خرچ ہو جاتی ھے اور اکثر غریب والدین خود نہ نیے کپڑے نہ جوتے خرید سکتے ہیں۔ ہمارے ماں باپ اکثر اس مجبوری کو چھپاتے ہوۓ ہمیں کہتے تھے۔۔
عید دا لحظہ ھے لنگھ ویسی گزارا کر لیں گے۔۔۔اسی مجبوریوں کے پیش نظر ہمارے ایک سراییکی شاعر نے ایک زبردست شعر کہا تھا؎ہک ڈینھ ھے آخر لنگھ ویسی ۔۔میکوں ویندا کر تو عید منا۔ترجمہ یہ ھے کہ عید کا ایک دن ھے آخر گزر ہی جاے گا تو مجھے بھول جا اور جا کر عید منا میں تو غربت کی مجبوریوں سے عید منانے سے قاصر ہوں۔۔۔عید کا دن بھی غریب پر پہاڑ کی طرح بھاری ہوتا ھے کہ اس کے ہاتھ میں اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ بچوں کو عیدی دے سکیں۔ گھر میں آلووں کے چپس بنا کر بچوں کو بہلایا جاتا ھے۔پرانے زمانے میں ہم سویاں پکا کر ایک دوسرے کے گھر تقسیم کرتے تھے اس سے غریبوں کا بھرم رہ جاتا کیونکہ پڑوسیوں سے رنگ برنگی سویاں بچوں کو دے کر وقت گزارتے آجکل یہ رسم فرسودہ ہو چکی ھے اور اب نفسو نفسی کا عالم ھے۔
شوال اور اگلے دو مہینے ہمارے ماں باپ ہمارے کپڑے اور جوتے سنبھال کے رکھتے تھے اور اکثر ہم بڑی عید پر وہی پہنتے آجکل ہمارے بچے ہر عید پر نیا سوٹ مانگتے ہیں۔شوال کے مہینے سے ہی گوشت کی قیمت چڑھے گی کیونکہ بڑی عید کے جانور بچا کر ڈبل قیمت وصول کی جاے گی۔ بڑی عید کا ہنگامہ ختم ہوگا تو محرم کے مہینے کی آمد آمد ہوگی۔
محرم میں موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پہلے پابندی لگے گی پھر مکمل بند ھونگے موبائیل سروس بھی بند کی جاے گی۔اکثر غریب لوگ اس مہینے سال کی گندم اکٹھی خرید لیتے ہیں اور وہ بھی ایک بڑا بھاری خرچہ سر پر منڈلا رہا ھے۔IMF سے مذاکرات اور نیا بجٹ بھی تیار ہو رہا ہے اور وہ بھی کسی بلا سے کم نہیں ہو گا۔IMF کا پیٹ جہنم کی طرح ٹیکسوں کی آگ سے پلتا ہے۔۔ویسے نیا بجٹ تو ہر ماہ تیل گیس بجلی کے نرخ بڑھا کر جاری ساری رہے گا۔ تو میرے پیارے دوستو اگلے چار پانچ ماہ میں گرچ چمک کے ساتھ مہنگائی کے برسنے کا امکان ھے جس کی تیاری کر لیں۔ ایک اسلامی ویلفیر سٹیٹ کا خواب ابھی کوسوں دور ھے۔

%d bloggers like this: