حسنین جمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرندے درختوں کی چھاؤں سے نکلتے ہوئے کترا رہے ہیں، جی ٹی روڈ پہ سڑک کی جگہ پگھلی ہوئی تارکول بچھی ہے، پرآسائش گاڑیوں اور بسوں میں لوگوں نے اے سی فل سپیڈ پہ چلایا ہوا ہے، عید آنے والی ہے۔
کوئی اپنے باپ کے ساتھ عید نماز پڑھنے کا پروگرام بنا رہا ہے، کسی نے ماں کے پیر چومنے ہیں، کوئی بیوی بچوں کے ساتھ عید منانے کی فکر میں ہے، خود میں اسی سڑک پہ ہوں اور دماغ میں بہت سی چیزوں کے ساتھ گاڑی بس میرے ہاتھوں میں آٹو میٹک چل رہی ہے۔
ایک ٹرک کو اوورٹیک کرتے ہی میرے سامنے قیدیوں کی گاڑی آ گئی ہے۔ نیلے رنگ کی بڑی سی بکتر بند قسم کی گاڑی۔ جہاں قیدی ہیں اس پورے حصے میں کوئی کھڑکی نہیں ہے۔ چھ یا سات انچ لمبا اور پوری گاڑی کے اطراف میں پھیلا ایک روشندان ہے۔ بلکہ وہ بھی کیا، بس ایک پٹی سی ہے جو کھڑکی یا روشندان کے طور پہ کھلی چھوڑی گئی ہے اور اس میں بھی ہر ایک ڈیڑھ انچ کے بعد سلاخیں لگی ہیں۔ ان سلاخوں کو اندر موجود قیدیوں کے ہاتھوں نے تھاما ہوا ہے۔
پرزنرز وین، پولیس۔ اندر کتنے لوگ ہیں، وہ کنٹینر نما حصہ کتنا شدید گرم ہے، کون بوڑھا ہے، کون جوان ہے، کتنے قصوروار ہیں اور کتنے بے قصور ہیں، جو قصوروار ہیں کیا وہ مجرم بھی ہیں؟ جو مجرم ہیں کیا انہوں نے جان بوجھ کے وہ سب کیا، اگر کیا تو پیچھے ان کے حالات کیا تھے۔ میں یہ سب نہیں جانتا۔ آپ بھی نہیں جانتے۔
میری سوچ ان کے ساتھ قید ہے لیکن مجھے باقاعدہ جھرجھری آ جاتی ہے۔ ابھی لکھتے ہوئے بھی آئی۔ بے بسی کا عالم، اس پرزنر وین کے اندر کیا ہو گا، کوئی سوچ بھی سکتا ہے؟
ایک دوسرے کے جسموں سے اٹھتا پسینہ سونگھتے، صاف کپڑوں کو ترستے، کھلی ہوا میں سانس لینے کے لیے بے قرار، ہاتھوں سے اس جالی کو تھامے وہ جو بھی لوگ ہوں گے، وہ کس قدر برے حالوں میں ہیں؟ یہ دیکھیں، ہاتھوں کا ایک جوڑا تھوڑا سانولا ہے، ایک عمر رسیدہ سا کھچی ہوئی رگوں والا ہے، دو ہاتھ بالکل تازے ہیں، گرم خون کی مہک لیے، پھر دو ہاتھ، پھر دو، پھر دو۔ یہ کتنے لوگ ہیں، کب سے اس پوزیشن میں کھڑے ہیں، کہاں اتریں گے، کھایا کیا ہے اور آخری بار پیٹ بھر کے ٹھنڈا پانی کب پیا تھا، میں نہیں جانتا۔
میں پہلی گاڑی کو اوور ٹیک کرتا ہوں۔ اب دوسری پرزنر وین میرے سامنے ہے۔ باہر جہاں پہرہ دینے کو سپاہی بیٹھا ہے، وہ جگہ مکمل ہوادار ہے۔ باقاعدہ سیٹ ہے بیٹھنے کے لیے، اس پوری گیلری نما جگہ میں کریم کلر کا پینٹ کیا ہوا ہے۔ ایک انسان مکمل عزت نفس اور کسی بے سکونی والے احساس کے بغیر وہاں بیٹھ سکتا ہے۔ لیکن اندر؟
اندر والوں کو میں صرف انہی ہاتھوں کے جوڑوں سے دیکھ رہا ہوں، یہ دو ہاتھ جنہوں نے مضبوطی سے جالی کو تھاما ہوا ہے، یہ والے دو جو تھوڑے کھچے ہوئے ہیں، وہ قیدی چھوٹا ہو گا قد میں، وہ دو ہاتھ ضعیف سے، شاید ان ہاتھوں کے مالک نے پسینے میں گیلا ہوا سفید اور سرخ چیک والا رومال بھی لو سے بچنے کو سر پہ رکھا ہوا ہو گا۔ وہ سب اندر سے پتہ ہے کیا دیکھ رہے ہوں گے؟ آسمان، تیزی سے گزرتی ہوئی بجلی کی تاریں، درختوں کی اونچی شاخیں یا کوئی پرندہ جو پانی کی تلاش میں اڑ رہا ہو گا۔
جیسے ہی گاڑی رکتی ہو گی ان میں سے ہر بندہ جلدی چلنے کی دعا مانگتا ہو گا، ان سب کی مشترکہ دعا قبولے جانے کا انحصار اگلی سب گاڑیوں پہ ہوتا ہو گا جو ٹریفک میں پھنسی ہوں گی، یا پھر خدا کوئی سپاہی بھیج دیتا ہو گا جو رش کلیئر کرائے اور اس ڈربے میں بند بے بس قیدیوں کو پھر سے تازہ ہوا میں سانس لینے جوگی ہوا مل سکے؟
میری گاڑی کا ریڈی ایٹر پائپ پشاور جاتے ہوئے پھٹ گیا تھا۔ دوسرا لگوا لیا مگر اے سی اب میں کم چلا رہا ہوں۔ خدا جانے پائپ جینوئن ہے یا نہیں، گرم ہو تو پھر سے پھٹ جائے۔ حالانکہ فل کھلے شیشوں سے ہوا آ رہی ہے لیکن ہر آدھے گھنٹے بعد پندرہ بیس منٹ اے سی کی عیاشی مسلسل کرتا ہوا آ رہا ہوں۔ وہ ہاتھوں کے بہت سارے جوڑے دیکھنے کے بعد مجھے اپنی گرمی کچھ بھی نہیں محسوس ہو رہی۔ وہ کس درجے کے عذاب میں ہیں، یہ بس وہی جانتے ہیں۔
کتنے سارے ہاتھ ہیں۔ کوئی بشیر احمد ہو گا، کوئی سالار خان، کوئی شاہد جٹ، کوئی اللہ رکھا لیکن میرے لیے وہ بس دو، دو ہاتھوں کے بے نام جوڑے ہیں۔ رکیں۔
دو منٹ کے لیے سوچیں۔ ابھی آپ کی گاڑی کہیں لگ جائے، کوئی بندہ نیچے آ جائے، آپ غصے میں کہیں جھگڑا کر بیٹھیں، جائیداد کا پھڈا ہو جائے کوئی، دو تین بندے مارے جائیں، شناختی کارڈ غلط استعمال ہو جائے، کسی قریبی عزیز کا جھگڑا ہو اور آپ مفت میں پھنس جائیں۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آزادی اتنی نازک چیز ہے کہ بولنے پہ بھی اس کے سامنے سلاخیں آ سکتی ہیں۔ بولو تاکہ تم پہچانے جاؤ اور اس کے بعد یہ علم ہی نہ ہو کہ گئے کہاں۔ کبھی بھی قسمت کا ایک بدنصیب لمحہ آپ کو کہاں سے کہاں پہنچا دے، آپ نہیں سوچ سکتے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ یہ سوچ بھی پائیں کہ ان دو، دو ہاتھوں کے بے شمار، بے نام و نشان جوڑوں میں کب دو ہاتھ آپ کے بھی شامل ہو جائیں۔
اس عید پر شاپنگ نسبتاً کم ہوئی ہو گی، آنا جانا بھی زیادہ ممکن ہے، افطاریاں بھی کرونا کے چکر میں تھوڑی ہوئیں۔ یہ سب ویسے بھی ہم جیسے آزاد بھرے پیٹ والے کبھی بھی کر سکتے ہیں۔ چار پیسے جیب میں ہیں تو جائیں قریبی جیل اور قیدیوں کے لیے کچھ لے جائیں۔ کوئی جوڑا، کوئی کھانے کی چیز، کوئی رومال۔ کچھ بھی یار۔ انہیں تو ایک سگریٹ بھی سو روپے کا پڑتا ہو گا۔
کون تھانے جائے؟ چھوڑ دیں۔ دعا کر لیں، بہت سی تنظیمیں قیدیوں کی رہائی کے لیے کام کرتی ہیں، نیٹ پہ ڈھونڈ کر انہیں پیسے بھجوا دیں۔ کوئی جاننے والا کسی کیس میں پھنسا ہوا ہے تو اس کی مدد کر دیں۔ مجرم سے نفرت مت کریں سائیں جرم کو برا سمجھیں۔ جس سے ہو گیا اس کی تو حیاتی رل گئی، سارا ٹبر زندہ درگور ہو گیا، اسے اور کیا سزا ملے؟
پھر پاکستانی جیلیں؟ اگر آپ کے پاس سفارش نہیں ہے تو دعا کیجیے پولیس والے نیک ٹکر جائیں۔ خدا بچائے۔ خدا کسی انہونی سے آپ سب کو بچائے۔ بچے رہیں تو ان بے بس ہاتھوں کو مت بھولیں جن کے چہرے نہ میں نے دیکھے نہ آپ کو دکھا پایا۔ جو سب ایک جیسے ہوں گے۔ ڈھلتی امید اور نامرادی کی گہری لکیریں لیے پریشان چہرے۔
پرندے درختوں کی چھاؤں سے نکلتے ہوئے کترا رہے ہیں، جی ٹی روڈ پہ سڑک کی جگہ پگھلی ہوئی تارکول بچھی ہے، پرآسائش گاڑیوں اور بسوں میں لوگوں نے اے سی فل سپیڈ پہ چلایا ہوا ہے، عید آنے والی ہے اور اس تپتے بڑے تابوت میں وہ بہت سے ہاتھ ایک قید خانے سے شاید دوسرے قید خانے جا رہے ہیں، انہیں مت بھولیں!
یہ مضمون سب سے پہلے انڈی پینڈنٹ اردو پر شائع ہوا تھا۔
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر