مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

برطانوی محاصرہء ملتان   (ایک ڈرامائی بیانیہ۔پہلادرشن)||امجد نذیر

یہاں کی گرم مرطوب اور قدرے غیر دوستانہ اور غیر مہمان نوازانہ آب و ہوا کے بارے میں بہت کُچھ لکھا اور کہا جاتا رہا ھے ۔ اور یہ تک بھی کہا جاتا رہا ھے کہ یہاں کی گرمی جہنم کی گرمی سے کم نہیں ھوگی

امجد نذیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یکم اپریل 1848 تا ٢٦جنوری 1849

مآخذات: (جاہن جونز کولے، مرزا ابن حنیف، پروفیسرعزیزالدین احمد، احمد رضوان اور دوسرے ذرائع)     

تعارف : تعارف : ریاست ملتان کی قدامت، دریائے سندھ اور چناب کی عطا کردہ خوشحالی اور اہم ترین محلِ وقُوع کیوجہ سے ریاست ملتان کے ایک نہیں کئی محاصرے ھوئے اور ھوئے ھونگے، کُچھ معلوم اور کچھ نا معلوم ۔ مثلا 325 قبل مسیح میں سکندر مقدونی (جِسے ایران میں سکندر ملعون کے نام سے جانا جاتا ہے) کا محاصرہ، 1296 میں علاوٗالدین خِلجی کا محاصرہ، 1810  سے  1818 تک نجیت سنگھ کی پئے در پئے یلغاریں اور قبضہ وغیرہ مگر تاریخ میں جسقدر جُزیاتی تفصیل برطانوی محا صرے اور ملتانی مزاحمت کی موجود ھے شاید کِسی اور کی موجود نہیں ۔               

 کسی بھی ڈرامائی بیانیے میں واقعات، کردار، تنازعات اور انجام ڈرامائی ایکشن کی جان ھوتے ھیں، اور 1848 میں کئیے گئے برطانوی محاصرے میں یہ تمام خصوصیات برجہء اُتم موجود ہیں، اِسی لئے برطانوی محاصرہ شاید واحد محاصرہ ھے جسے اپنے ڈرامائی خوبیوں سمیت دوبارہ بیان کیا جا سکتا ھے ۔ زیر نظر تحریر اسی نوعیت کی ایک کوشش ہے ـ آخر میں یہ عرض کرنا بھی ضروی ہے کہ راقم الحروف نے جاہن جوہنز کولے کے ‘پروٹاگونسٹ’ اور ‘اینٹاگونسٹ’ کو اَدل بَدل کرڈالا ہے اور مزید حالات و واقعات کی منظر کشی کے لئے درج بالا مصنفین سے استفادہ کیا ہے تاکہ ملتان دھرتی کا دفاع کرنے والوں کو تاریخ میں اُن کا درُست مقام دلوایا جا سکے ـ                                       

 اور یہ عرض کر نا بھی ضروری ہے کہ رنجیت سنگھ کی جارحیت کے پس منظر میں پنجابی (سِکھ) حُکمران ہونے کے ناطے مُولراج کی سیاسی حیثیت بھی سرائیکی اور ملتانی مورخین و مبصرین کے نزدیک زیادہ پسندیدہ نہیں رہی ـ راقم الحروف نے زیر نظر تحریر، جو تحقیق، ترجمہ اور تخلیق کا مرکب ہے، عروُس البلاد ملتان کی محبت اور اہمیت کے پیش نظر لِکھی ہے تاکہ برطانوی عسکری یلغار کیساتھ ساتھ تقریبا” پونے دو سو سال پہلے کے ملتان اوراسکے گردو نواح کا معاشرہ اور انگریزوں کے ساتھ مختلف معرکوں کا منظر اپنی جُزیات سمیت دِکھایا جا سکے ـ اِس پورے منظر میں مُولراج اور دوسرے سکھ ، مسلمان اور ہندو مزاحمت کاروں، سپاہیوں اور مُجاہدوں کی جو بھی سیاسی اور تاریخی حیثیت بنتی ہے، اُسکا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا گیا ہے ـ                                     

 

پہلا درشن

قلعہ کہنہ کی طرز تعمیر، اندرون ملتان اور گردو نواح کا ماحول

(مارچ : 1849)

دریائے چناب سے تقریبآؔ چار میل مشرق میں دُنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک شہر ملتان آباد ھے ۔  (تاریخ میں یہ پُر اسرار شہر کئی ناموں سے یاد کیا جاتا رہا ہے مثلا” کشپ پورہ، پرھلاد پور، ملوہہ، مولستھان، اور ملتان وغیرہ) ـ در اِیں اثناء لاھور کے بعد پنجاب کا یہ دُوسرا بڑا اور معروف شہر ہے جسکی شہر پناہیں مضبوط ، مرکزیت مُسلمہ ، راستے چہار گُونہ، پیداوار وافر اور تجارت مُنافع بخش رہی ھے ۔ ایک اندازے کیمطابق فصیل کے اندر باریک اینٹوں سے اُستوار کئے گئے لگ بھگ دس ھزار مکانات موجود ہیں ـ ہر چند کہ گلیاں تنگ مگرکَمرے کُشادہ، روشن اور ھوا دار ھیں ۔ زیر زمین پانی قریب اور میٹھا ہے اور تقریبا” ہر گھر میں اور دالانوں میں تنگ منہ والا کنواں موجود ہے جو کہ پینے کی اور دوسری ضروریا ت پوری کرتا ہے ۔ ذیادہ تر مکانات دو منزلہ ہیں جن کے دروازے کندہ کاری سے مزین اور بعض مکانوں کی بیرونی دیوار پر نیلگوں اور دوسرے رنگوں کی پچی کاری کی گئی ہے اورخوبصورت چوبی بالکنیاں یا بالائی منزلوں کے چھجے باہر کو نکلے ھوئے ہیں ـ جاہن جونز کولے کے مُطابق ایسے مکانات میں برطانوی شہری بھی ہنسی خوشی آباد ھو سکتے ہیں ۔ تاھم برصغیر کے دوسرے بہت سے شہروں کیطرح یہاں بھی بہت سے محلے اور گھر ایسے بھی ہیں جہاں مُفلس اور کمزور لوگ آباد ہیں ۔ ایسے بھی بہت سے گھر ہیں جِن میں کھڑکیاں اور روشندان ضرورت سے کم اور روشنی کا گُزر مُشکل ہے ۔ زیادہ تر گلیاں آڑی ترچھی، ٹیڑھی میڑھی اور کچی پکی ہیں ۔ کچھ گلیوں میں پکی اینٹوں کا اچھا فرش بھی چُنا ھوا ھے مگر سطح نا اونچی نیچی ہے ۔ ھندُو، مسلمان اور سِکھ، سب کو مِلا جُلا کر اندرون شہر کی مجموعی آبادی کوئی پچاس ھزار کے لگ بھگ ھو گی ۔                                                                                         

شہر میں خرید و فروخت، لین دین، کاروبار اور تجارتی سرگرمیاں عروج پر ھیں ۔ گلیوں اور بازاروں میں صبح سے شام تک لوگوں کا آنا جانا، میل جول اور کاروباری معاملات رواں دواں رہتے ہیں ۔ مُلتان کے رنگساز، ظروف ساز، کاشیگر، درکھان، لوہار، سِکلیگر، تعمیرات کے ماھر ، پچی کار، جولاھے اور قالین باف ھندوستان کے مختلف شہروں کے علاوہ ھمسایہ مُلکوں کیساتھ بھی لین دین اور کاروبار کرتے ہیں ۔ بعض صورتوں میں اپنا ہُنر اور لکڑی، مِٹی، تانبے اورچمڑے کی مصنوعات، برتن اور اونی کپڑوں کے ملبوسات ایران، افغانستان، تاجکستان، ترکمانستان اور وسط ایشیاء کے دوسرے شہروں تک ارسال کرتے ہیں ـ سندھ ، دلی، کشمیر، اجمیر، لکھنوء، ممبئ اور کلکتہ تک ملتان کی بنی ہوئی نوع بنوع اشیاء فروخت ہوتی ہیں اور دور دراز کے دوسرے شہروں اور مُلکوں کی مصنوعات  ملتان شہر میں لائی اور خریدی جاتی ہیں ـ                                                     

ملتان شہر تین اطراف سے پکی اینٹوں سے بنی ھوئی چوڑی، اُونچی اور دیوہیکل فصیلوں سے محفوظ کر دیا گیا ھے ۔ جِسکے اُوپر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر نیم دائروی بڑے بڑے چبوترے ایستادہ ھیں تاکہ دُشمن پر نظر رکھی جا سکے اور خطرے کی صورت میں گولہ بارُود یا بندوقوں سے حملہ بھی کیا جا سکے ۔ قلعے کے شمال مغربی جانب تنومند د پُشتے باندھے گئے ہیں اور اِسی اطرف میں کچھ مٹی کے ٹُوٹے پُھوٹے ٹیلے بھی ھیں جو درمیان والی ڈھلوان سے کوئی 100 گز تک ایک طرف سے دوسری طرف کو چلے جاتے ہیں مگر اِسی پہلُو ہی سے  قلعے کی دیوار کو دوبارہ تعمیرو مُرمت کیا گیا ھے، ایسی مہارت سے کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں دنگ رہ جائیں اورھم بعد میں یہ بھی دیکھیں گے کہ کِسطرح یہ حصہ برطانوی بمباری کو تحمل اور بُردباری سے برداشت کرتا ھے ۔                 

مجموعی طور پر قَلعے کے پانچ دروازے ھیں (جو آجکل گیٹ کہلاتے ہیں): دولت دروازہ اور دلی دروازہ شمال اور شمال مغرب کی جانب، پاک اور حرم دروازہ کم و بیش جنوبی سمت اور عظیم الشان بوھڑ دروازہ مشرقی رُخ ایسے ٹھہرا ہوا ہے جیسے دو محافظ آمنے سَامنے اپنا دایاں اور بایاں بازو تھام کر ایک محراب سی بنائے ھوئے کھڑے ہوں، اور ایک کے دائیں اور دوسرے کے بائیں بازوں میں تیز دھار اَنی والے طویل جُسہ آہنی نیزے زمین پر ٹِکے ھوئے ھوں ۔                                

سائیز کے لحاظ سے ہندوستان کے نسبتا” چھوٹے قلعوں میں ملتان کا قلعہ شاید سب سے زیادہ ٹھوس، مستقم اور مَضبوط قلعہ ھے ۔ دیواریں مِٹی کے ایک بہت بڑے ٹیلے پر چاروں اور ایک دوسرے کے اوپر اور اندر باھر کھڑی کی گئی ہیں ۔ فصیلوں سے باھر مِٹی کی ڈھلوانیں کافی دُور تک چلی جاتی ہیں ۔ ارد گرد کی گہری زمین سے ڈھلوان تک کا فاصلہ بھی تیس فُٹ سے کم نہیں ھوگا ۔ قلعہ کی ڈھلانی دیواروں کو چونا، مُنجی، کسی چِپچِپی مادے اور گارے کے مِکس میٹیرئیل سے تیار کرکے انتہائی گُھٹا ھوا اور طاقتور کر دیا گیا ھے ۔ تاھم قلعے کی دیواریں انتہائی مہارت، تجربے اور جانکاری سے پَکی اینٹوں کیساتھ چُن کر بھاری بھرکم، جسیم اور کافی چوڑی بنا دی گئی ھیں ۔ اور تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر باہر کو نکلے ھوئے بڑے بڑے چبوترے ھیں جن پر توپیں نسب کرنے کے لئیے تین یا تین سے ذیادہ بُرجیاں بنا دی گئی ھیں  ۔ البتہ قلعے کے پشتوں سے ڈھلوانی زمین کی گہرائی تک حفاظتی منڈیروں کے بغیر نسبتا” کمزور تین پُلیں ھیں، جن کو جنگ کے دوران آسانی سے حدف بنایا جا سکتا ھے ۔ یہاں یہ ذکر کرنا بے جا نہ ھوگا کہ محاصرے کے دوران (شاید اِنکی کمزوری کے مدِ نظر ) دو پُلوں سے طلب اور رسد تقریبا” بند کردی گئی ۔ اور غالبا” متبادل راستہ اختیار کیا گیا ـ

قلعے کی دیو ہیکل بُرجیوں کی دیواریں، جِن کے اندر پرانی طرز کی توپیں نصب ھیں، نسبتا” چھوٹی ھیں – اِسقدر کہ یہاں پر جَڑی گئ توپیں زمین سے صاف دکھائی دیتی ہیں ۔  قلعے کا تیسرا اور آخری پُشتہ جہاں پر قلعہ ختم ھوتا ھے کم و بیش غیر اھم نظر آتا ھے جو کہ قلعے کی پائیداری میں شاید ھی کوئی اضافہ کرتا ھو – مگر اِسی بیرونی دیوار میں کُچھ کُچھ فاصلوں کے بعد گنبد نما بڑی بڑی عِمارتوں کی ایک ترتیب  سی ھے جن کے اندر قلعے کی محافظ افواج قیام کرتی تھیں اور کر رھی ھیں – ویسے تو یہ عمارتیں کُشادہ اور فوجی رہائش کے لئے انتہائی مناسب ھیں لیکن اتنی غیر محفوظ اور آگے کو اِسطرح نِکلی ھوئی کہ بڑی آسانی سے توپ کے گولوں اور فائرنگ کی زد میں آسکتی ہیں ۔ اِسی لئے محاصرے کے دوران وھاں پر موجود سپاہیوں نے بہت جلد اُنکو تَرک کر دیا۔         

قلعہ کے اندر وسیع و عریض میدان کم و بیش خالی پڑا ہوا ھے ۔ تاھم تقریبا” وسط میں ملتان کے مہاراجہ مُولراج کا گھر اور با غیچہ ھے ۔ اسلحہ خانے، بارود گھراورکُچھ چھوٹی چھوٹی عمارتیں اِدھر اُدھر بِکھری ھوئی ہیں ۔ چاردیواری کے اندر شمالا” جنوبا” ایک بڑی سی خُوبصورت مسجد بھی ھے جسکا آسمان کو چُومتا ہوا گنبد دور سے نہائت عالیشان نظر آتا ھے ۔  ساتھ ھی ساتھ قَلعے کے اَندر کئی چھوٹے بڑے ریت مٹی کے ٹیلے اور کُچھ چوٹی بڑی بُرجیاں ھیں جن کے اوپر پرانے ڈیزائن کی سینکڑوں گز تک نشانہ باندھنے والی بندوقیں اور توپیں جما دی گئی ھیں ۔ یہ توپیں پرانی ہونے کے با وجود بِلا شُبہ کافی فاصلوں تک دشمن کو حدف بنانے کی صلاحیت رکھتی ھیں اور یہ بڑی حد تک قلعہء ملتان اور اُسکی نواحی آبادیوں کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی ھیں ۔                       

حقیقت یہ ھے کہ محاصرے کے دوران یہ توپیں اور بُرجیوں پر ایستادہ دور مارک کرنے والی بندوقوں کو اگر چہ مکمل طور پر خاموش تو نہیں کیا جا سکا تھا مگر کئی بار قلعے کے موٰثر دفاع کے اِنکو اپنی سمت اور حدف تبدیل کرنا پڑے ۔ اور بد قسمتی سے وہ حملہ آور  اورقبضہ گیر انگریز استعار کی فوج کو ایک خاص حد سے زیادہ نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ھوئی تھیں ۔                           

مرکز میں موجود پُر شکوہ مسجد سے جنوب کی جانب ملتان شہر کا سادہ مگر صاف ستھرا اور دیدہ زیب منظر دیکھا جا سکتا ھے ۔ یہاں سے مُلتان کے رگ و پئے میں ہزار ہا برس سے آباد حیات بخش، سُرخی مائل دھیرے دھیرے بِہنے والا دریائے چناب واضح دِکھائی دیتا ھے ۔ حتٰی کہ چناب اور ہندوستانی ثقافت کے امین عظیم دریائے سندھ سے دُور مغرب کی جانب پُراسرار دیوی دیوتاوں کے مَسکن کوہ سلیمان (موجودہ بلوچستان) کا سلسلہ بھی دُھندلا دُھندلا سا دیکھا جا سکتا ھے ۔            

مُلتان شہر کے گِردا گِرد ایک گھنا جنگل آباد ھے، جس میں شیشم، پیپل، نیم، کیکر اور برگد کے نہایت سرسبز اور دائیں بائیں پھیلتے پھولتے ھوئے صَد شاخہ درخت لہلہاتے رہتے ھیں ۔ مالٹا، آم، شہتوت، لیموں اور کھجوروں کے باغات ھیں جو موسم مطابق ھرے بھرے اور پھلوں سے لدے پھندے رہتے ہیں ۔ اِن کے عِلاوہ اور بھی کئی طرح کی جھاڑیاں، خُود رو پھول پودے، چھوٹے موٹے درخت، بیلیں اور اَنجانے پھل پھول عام ہیں اور یہ سب مل کر مُلتان کے گردونواح کا منظر اِنتہائی دلکش اور پُر کشش بنا دیتے ہیں ـ                                                                                                

اس کے علاوہ پورے شہر میں مسلمانوں کی محراب دار مساجد، ہندووں کے تکونی مندر اور دو نوں دھرموں سے متعلق بہت سے اور معبد، دربار اور دوسرے مقدس مقامات اِدھر اُدھر استوار و خوش باش نظر آتے ھیں ۔ دُور سے یہ ساری عِمارتیں موزَیک کی طرح انتہائی دلرُباء، رنگا رنگ اور مُتنوع منظر پیش کرتی ہیں ۔ اور مقامی لوگوں کے نزدیک اپنے اپنے عقیدے کے مطابق سب کی سب انتہائی محترم اور معتبر حیثیت رکھتی ھیں ۔                                                                            

پیرانِ پیر شاہ شمس تبریز اور دیوان سانول مَل دونوں کے مقبرے قابل ذکراور نمایاں ہیں ۔ اولذکر کو انگریزوں نے اپنی توپوں کے گولے داغ داغ کر  بڑی حد تک تباہ کر ڈالا جبکہ ثانی الذکر کے درودیوار تو بڑی حد تک محفوظ ھیں مگر اس پر تزئین و آرائش کے لئے کیا گیا کاشی کاری اور کندہ کاری کے کام کو انگریزی آتش و بارود کے پئے در پئے حملوں نے بہت ذیادہ نقصان پہنچایا ۔                      

اِسی پس منظر میں عید گاہ ملتان بھی خصوصی اھمیت کی حامل ھے کیونکہ یہی وہ جگہ ھے جہاں پر دو صاحبِ امتیاز (انگریزوں کی رائے میں) مگر جاسوس صفت اور کمپنی بہادر کے آلہٗ کار، جو اپنے تئیں قلعہء مُلتان کو اپنی تحویل میں لینے کیلئے آئے تھے، ملتان کے والیوں اور محافظوں نے ٹھکانے لگا دیّے، (اس واقعہ کے اَسباب وعواقب اور پیش منطر آگے بیان کئے جائیں گے) ۔          

عید گاہ قلعہ کُہنہ کے شمال میں واقع ھے اور حفاظت کے پیش نظر قلعہ کی توپوں کے حدف کے دائرہ کار میں شامل ھے ۔ یہ مسجد مُغل بادشاہ محمد شاہ کے دور میں ملتان کے گورنر نواب عبد الصمد خان تورانی (1726 تا 1738) نے 1735 میں تعمیر کروائی تھی ۔  اِسکے سامنے ایک سڑک دربار شاہ شمس اور دولت دروازے کیطرف آتی ھے ۔ مسجد کا دالان 250 فُٹ لمبا اور 50 فٹ چوڑا ھے ۔ اِسکے دونوں اطراف میں منفرد نوعیت کے تین تین اور چھوٹے چھوٹے گُنبد ھیں جوکہ مسجد کے دالان سے ذیادہ واضح نظر آتے ھیں ۔ مَسجد کے اِحاطے کا فرش اپنی لمبائی چوڑائی میں دالان سے بڑا ھے ۔ دالان سے عید گاہ کے جنوب مشرق میں ایک تاریخی مزھبی شخصیت  کا مزار ھے جس کا نیلا گنبد ماہرانہ طرز تعمیر کی علامت اور مغل أرکیٹیکٹ کا بہترین اظہار ھے ۔ مسجد میں داخل ھونے کے پانچ دروازے ھیں ۔ مگر افسوس کہ یہ عدم توجہ اور متقاضی مُرمتوں سے محرومی کیوجہ سے شکست و ریخت کا شکار ھیں ۔ مسجد کے داخلی دروازے پر کوئی تحریر کندہ نہیں ہے البتہ گُنبد کے اُوپر ‘اللہ الصمد’ لکھا ھوا ھے ۔  عین ممکن تھا کہ متداولِ زمانہ سے یہ عبادت گاہ اپنی اہمیت کھو دیتی مگر انگریز وں کی توسیع پسندانہ جارحیت کی مزاحمت کرتے ھوئے یہیں پر انگریز سرکار کے گماشتوں یعنی ‘پیٹرک وانز اگینو’ اور ‘ولئیم اینڈرسن’ کو ہلاک کرنے کیوجہ سے یہ مسجد ایک بار پھر ھندوستانی عوام کی نظروں میں تاریخی اہمیت اختیار کر گئی ۔                                        

 اندرون ملتان سے باھر بہت سے باغات ھیں جہاں اِکا دُکا انگریز آباد ھونا شروع ھو گئے ہیں اور یہاں سِوّل اتھاریٹیز کے دفاتر بننا بھی شروع ھو گئے ھیں ۔ اَلنگ سے باہر اور شہر کے گردو نواح میں سینکڑوں کچے پکے، زیادہ تر کچے، مکانات ہیں اور ان میں سے کئی ایک کی حالت نا گُفتہ بہ ھے ۔ اِن بستیوں میں سے گزرنا یا گھومنا پھرنا انگریز فوج کے لئے بالخصوص جنگ کشی کے دوران کوئی آسان بات نہ تھی ۔ قلعہ ملتان کے شمال مشرق میں تَرک کردہ اینٹوں کے بھٹوں کے تین بڑے بڑے ٹیلے ہیں جن کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ اِس جگہ پر بھی انگریزوں کے خلاف پہلی اور دوسری لشکر کشی کے دوران پاسدارانِ ملتان نے سخت مزاحمت کی تھی ۔ آبادی سے باھر کے میدان اور کھیت کھلیان کم وبیش ھموار اور نہایت زرخیز ہیں جنکی آبیاری ایک طرح کے منصوبہ بند اور موثر نہری نظام اور کنووں سے ھوتی ھے ۔  یہاں پر اعلی کوالٹی کا مقامی چنا، جو، گندم ، باجرہ اور دالیں کاشت کی جا تی ھیں ۔ بہت سی کپاس اور کچھ تمباکو بھی لگایا جاتا ھے اور تھوڑی سی افیون بھی (مگر اِسکی کوالٹی ناقص ھے) ۔ ساگ، شلجم، سُہانجنا، بینگن، آلو، دھنیا ، پیاز، لہسن، گوبھی اور ریوند چینی اور بہت سی دوسری خوشبودار سبزیاں اور رس بھرے پھل نہایت وافر مقدار میں ھوتے ھیں ۔ اَن گنت گائیں، بھینسیں اور بھیڑ بکریاں جنگل میں چہار جانب آزاد گھومتی پھرتی اور قدرتی چراگاہوں سے سیر ھوتی ہوئی ملتی ہیں ۔ تا ھم مجموعی طور پر ملتان کی آبادی انتہائی کم ھے، اِسی طرح زمین کے بڑے بڑے زرخیز خطے عدم توجہ اور اور انتظام کاری سے عاری ھونے کی وجہ سے انتہائی کم پیداوار دے رھے ہیں جو کہ تھوڑی سی محنت، توجہ اور منصوبہ سازی سے سالانہ علاقائی پیداوار میں دس گناء اضافہ کر سکتے ہیں ۔ (ملتان کی وافر زرعی پیداوار بھی دشمنوں کی چشمِ ہوس کو للچاتی رہی ہے)                                                                               

یہاں کی گرم مرطوب اور قدرے غیر دوستانہ اور غیر مہمان نوازانہ آب و ہوا کے بارے میں بہت کُچھ لکھا اور کہا جاتا رہا ھے ۔ اور یہ تک بھی کہا جاتا رہا ھے کہ یہاں کی گرمی جہنم کی گرمی سے کم نہیں ھوگی ۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ملتان کے چھ مہینے کم و بیش شدید تپش اور حبس میں بسر ہوتے ہیں اور ھندوستان کےچند ہی اور مسکن اِسقدر گرم ہونگے جسقدر ملتان ہے ـ لیکن ساتھ ہی ساتھ ملتان کی خوبی یہ بھی رہی ھے کہ یہاں پر مُسلسل ھوا چلتی رہتی ھے اور شام کو فضاء اسقدر مُعتدل و مناسب ھوجاتی ھے کہ نو وَارد انگریز اور یورپیئن بھی چین کی نیند سو سکتے تھے ۔ راتیں، ھوا میں نمی کا تناسب کم ھونے کے باوجود خوبصورت، نسبتاْ ٹھنڈی میٹھی اور آرام دہ  ھوجاتی ھیں ۔ جہاں تک آب و ھوا کا تعلق ھے ہندوستان کے وسیع و عریض خطے میں کم ہی علاقے اِتنے فرحت افزا ہیں جہاں پر یورپئین اور انگریز افواج بھی تسلی بخش طریقے سے ٹھکانہ کر سکیں، بشرطیکہ اُن کے لئے بڑے بڑے،  اونچی چھتوں والے، ھوادار اور قابل رہائش کوارٹرز کی مسلسل اور مخصوص تعمیر کی جائے جو گرمیوں اورسردیوں دونوں کے لٖئے موافقِ حال ہو ۔ اسی طرح بیرکوں کی تعمیر کے لئیے اونچی جگہوں کی تلاش بھی ضروری ھے، یہ ذہن میں رکھتے ھوئے کہ کم بارشی علاقہ ھونے کے باوجود ایسا ھرگز نہیں کہ یہاں پر بارش ھو تی ھی نہیں ھے ۔ جب بارش ھوتی ھے تو پھوڑے پُھنسیاں، بخار اور پیچش کی وباء عام پھیل جاتی ھے جو کہ عدم مطابقت اور قوت مدافت نہ ہونے کے باعث یورپئن افراد اور افواج کے لئیے ناقابل برداشت بلکہ نہایت خطرناک تھی ۔ مگر اُن کے لئے خوش آئیند بات یہ تھی کہ ملتان میں بارش ھوتی ہی نہایت کم ھے ۔ مقامی لوگوں سے بات چیت کرکے معلوم ھوا کہ گزشتہ 7 سالوں میں بارش تقریبا” نہ ھونے کے برابر ھوئی تھی جبکہ چودہ سالوں میں نہایت قلیل ۔ آب و ھوا کے نا مہرباں مِزاج کے با وجود ، جاہن جونز کولے کے نزدیک ، ملتان،  برطانوی آباد کاروں کے لئیے بہت سے اور افادوں اور وسائل کی دستبُرد کے لئے ایک بہتر ین مقام ثابت ھو سکتا تھا اور سب سے بڑھ کر دریائے چناب کی ھمسائیگی کے سبب، جو نقل و حرکت کے لئے معتعاون ثابت ہو سکتا تھا ۔ دریائے چناب ایک بڑے پاٹ والا گہرا اور سُرعت سے بہنے والا دریا ھے اور ملتان کی زرعی پیداوار اور مال مویشی کی بڑھوتری میں اِسکا کردار نہایت فیاضانہ رہا ھے اور یہ بار برداری کے لئے بھی استعمال ھو سکتا ھے ۔                                               

***

اے وی پڑھو:

تریجھا (سرائیکی افسانہ)۔۔۔امجد نذیر

چِتکَبرا ( نَنڈھی کتھا )۔۔۔امجد نذیر

گاندھی جی اتیں ٹیگور دا فکری موازنہ ۔۔۔امجد نذیر

گامݨ ماشکی (لُنڈی کتھا) ۔۔۔امجد نذیر

سرائیکی وسیع تر ایکے اتیں ڈائنامکس دی اڄوکی بحث ۔۔۔امجد نذیر

امجد نذیر کی دیگر تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: