حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلدیپ سنگھ ہمارے دوست ہیں اپنے مطالعے اور مشاہدے میں دوستوں کو شریک کرتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان کے چھوٹے بھائی کو جو معروف صحافی تھا، سفاکانہ انداز میں قتل کردیا گیا۔ بڑے صبروتحمل سے کلدیپ اور ان کے خاندان نے وہ صدمہ جھیلا۔
آج کلدیپ نے لکھا ہے
’’ترقی یافتہ قوموں کی ترقی تک پہنچنے کے لئے ہمیں سیڑھی بھی ان سے ہی لینی ہوگی، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ نفرت، جلادو مٹادو، مرو یا ماردو کے بیچ انہوں نے زندگی کوکیسے ڈھونڈا،
کالک ملے گرد سے اٹے زرد چہروں میں انہوں نے انسان کیسے ڈھونڈ لیا۔
تقدیر کی گنجلک کتھا میں تدبیر کی راہ کیسے تلاش کی۔
ہم نے اس ترقی کو کسی اور کی نظر سے دیکھا اور سب سے پہلے ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔ ہم کیا چاہتے ہیں یہ سوال ہمیں خود سے بار بار کرنا چاہیے۔
ہمارے اردگرد بکھرے نعروں کا بغور جائزہ لینا اور سب سے پہلے اپنا مواخذہ کرنا ہوگا۔ پنکھ پھیلائے کھڑی موت کا سامنا کرنے سے گھبرائے ہوئے بزرگ کی طرح ماضی کے قصوں میں زندگی تلاش کرنے کی بجائے ہمیں اپنی نئی نسل کو مستقبل کا سامناکرنا کے لئے تیار کرنا ہوگا۔ یہ سب تبھی ممکن ہے کہ ہم ترقی یافتہ قوموں کے ماضی کو پڑھیں۔ کیسے وہ تلخ ماضی کو دفن کرکے زندگی میں لوٹ آئے۔
اس کا تجزیہ بھی کرنا چاہیے۔ تقریروں سے قومیں سدھرتی ہیں نہ آگے بڑھتی ہیں۔ ناکام تجربوں کے بوجھ پر رونے کی بجائے میدان عمل میں اترنا چاہیے۔ ہمارے سماج کو علم و تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ نئے سرے سے سائنسی بنیادوں سماج تشکیل دے سکیں۔
ہمیں اردگرد کے کرداروں کا بغور جائزہ لینا ہوگا۔ نفسیاتی الجھنوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انتقام، نفرت، تشدد، احساسِ کمتری اور احساس برتری جیسی بیماریوں سے آئندہ نسلوں کو بچانا ہوگا۔
اس فکر کے پھیلائو کے راستے میں رکاوٹیں آئیں گی مگر ہمیں ہمت ہارنے کی بجائے نہ صرف اپنے حصے کی مزاحمت کرنا ہوگی بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی عصری شعور کے ساتھ زندہ رہنے کا ہنر سکھانا ہوگا‘‘۔
کلدیپ نے آخر میں کمال کی بات لکھی وہ یہ کہ ’’یاد رکھئے ہمارے اردگرد جو ہورہا ہے یہ زندگی کا بڑھاپا ہے اور بڑھاپے کا مستقبل موت‘‘۔
کلدیپ سنگھ کی مختصر تحریر آپ پڑھ چکے ہر وہ شخص جو علم و تحقیق اور مکالمے پر یقین رکھتا وہ یہی کہے گا کہ بندگانِ خدا، کتابوں میں دفن شاندار ماضی سے بہلنے کی بجائے اس بات پر غور کیجئے کہ مسلط عذابوں سے کیسے نجات حاصل ہوگی۔ ظاہر ہے نجات تعویزدھاگوں یا وظیفوں سے نہیں عملی جدوجہد سے ممکن ہے۔
مدفون ماضی پر اترانے کی بجائے ترقی یافتہ اقوام کی تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے کہ آخر انہوں نے کیسے اس سیاہ جہالت بھرے دور سے نجات حاصل کرکے عملیت پسندی کو زندگی کا حقیقی حسن قرار دیا۔
ہمیں واقعتاً سوچنا چاہیے کہ کیا ہم اپنی اگلی نسلوں کو نفرت۔ علم دشمنی۔ ملا پرستی اور سستے جذبات سے عبارت نعرے ورثے میں دے کر ان کے درمیان سے اٹھ کر چل دیں گے کہ یا ہمارا فرض یہ ہے کہ اگلی نسلوں کو محفوظ مستقبل دے کر جائیں۔
یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جہل اور نفرت من بھاتا کھابہ بن جائے تو منزل نہیں تاریخ کا کوڑے دان مقدر بنتا ہے۔
ہمارے پُرکھے کیا تھا۔ ہمیں اس سے کیا لینادینا، ہمارے سامنے یہ ہے کہ ہم کیا ہیں۔
کیا ہماری اگلی نسلیں ہماری زندگیوں کے کسی ایک پہلو پر فخر کرسکیں گی؟
حق بندگی کی ادائیگی سے بھاگتی مخلوق کی عصر کیااور مستقبل کیسا۔
ہمیں تاریخ میں زندہ رہنا ہے تو پھر ازسرنو سارے معاملات کا جائزہ لینا ہوگا۔
قوموں پر کڑے دن آتے ہیں اور وہ جدوجہد سے ان دنوں کو بدل بھی لیتی ہیں۔ یہاں ہم ہیں کہ خبط عظمت کے ستو پی کر جینے پر بضد ہیں۔
ہمارے چار اور ہو کیا رہا ہے اورہم کیا کررہے ہیں یہ سوال اہم ہیں۔ ہم دوسروں کے گریبانوں سے الجھنے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانک لینے کا حوصلہ کیوں نہیں کرتے؟
آخر کیوں ہم نے نفرت کے بیوپاریوں کو سروں پر بیٹھایا ہوا ہے۔
اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے قاتل پالنے کے شوق سے نجات کیوں نہیں حاصل کرتے ہم۔
زندگی وہ نہیں جودوسرے ہمیں دیکھارہے ہیں زندگی کا سچ وہ ہے جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ ہم زیرغور لائے جانے کے قابل ہی نہیں۔کھوکھلے دعووں اور تاریخ پر جھومنے کی بجائے ہم خود اپنی تاریخ کیوں نہیں لکھتے۔
زندگی کا اصل یہ ہے کہ ہمارے چار اور کے لوگوں کو ہم فالتو چیز نہ لگیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عمل کی دنیا میں قدم رنجہ فرمائیں۔ جاگتی آنکھ کے سپنوں سے نجات ضروری ہے۔
یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ ہم ہیں تو ہم ہیں ورنہ کچھ بھی نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ اپنے ہونے کا ثبوت دنیا کے سامنے رکھیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر