نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خرم زکی : کچھ یادیں ، کچھ باتیں ||عامر حسینی

‘مهجے سیکولر لبرل اقدار ، جدید انسانی حقوق کے تصورات اور اسلامی خیالات کے درمیان کوئی جوہری تضاد نظر نہیں آتا اور اسی لیے میں ان اقدار کے لیے سماجی ورک کو خلاف مذہب یا خلاف اسلام نہیں سمجهتا ‘

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے اجڑن دا توں حال نہ پـچھ متاں اپنا حال ونجا باھویں
مینڈی رملہ عمراں تھوڑی ہئے پر اجڑی ویکھ زیادی ہاں
خرم زکی کے آخری کے دو سال انتہائی مصروفیت کے تهے اور مجهے نہیں معلوم کہ وہ کیسے ان آخری دوسالوں میں پڑهنے کے لیے وقت نکال پاتا تها مگر ان دو سالوں سے پہلے وہ بہت زیادہ پڑها کرتا تها اور اس کی دلچسپی کا میدان ایک طرف تو تاریخ اسلامی تهی تو دوسری طرف وہ مسلم تهیالوجی کا طالب علم تها اور اس نے اپنی تمام تر توانائی مسلم تهیالوجی کے سینکڑوں ماہرین اور مختلف مکاتب فکر کے افکار سے آشنائی میں صرف کرڈالے تهے
میری جب اس سے شناسائی ہوئی تو یہ اس کے ایکٹوازم کا بهرپور زمانہ تها اور مجهے اس کی علمی و فکری گہرائیوں کا ذرا اندازہ نہ تها لیکن جب اس سے ملاقات ہوئی تو اس پہلی ملاقات میں ہی اس کے ذاتی کتب خانے کو دیکھ کر اور اس سے بات چیت کرکے مجهے اندازہ ہوا کہ اس کا اصل میدان تو علم و فکر کا تها اور اگر اسے سکون میسر آتا اور کہیں ٹک کر بیٹهنے کا موقعہ ملتا تو وہ کئی شاندار کتابوں کا مصنف ہوتا اور تاریخ اسے عالم بے بدل کے طور پہ یاد رکهتی
مری اس سے گزشتہ سال جب ملاقات ہوئی تو اس نے مجهے سید اطہر عباس رضوی کی کتاب
Shah Abd Al-Aziz: Puritanism-Sectarian polemics and Jihad
یہ کہ کر مرے حوالے کردی
‘ روزانہ کی بنیاد پہ سماجی سرگرمیوں نے مجهے اس قدر مصروف کرڈالا ہے کہ اس کتاب سے میں جو چیزیں لوگوں کے سامنے لانا چاہتا تها وہ لا نہیں پارہا اور میں اس کتاب کو پورا پڑھ بهی نہیں سکا ، آپ اسے پڑهیں اور اس کے مندرجات کو بنیاد بناکر کچھ آرٹیکل لکهیے گا ‘
خرم مجهے اسی مصنف کی شاہ ولی اللہ پہ لکهی کتاب بهی دینا چاہتے تهے تو میں نے ان کو بتایا کہ وہ میرے پاس پہلے سے ہی موجود ہے
خرم یہ سن کر خوش ہوئے اور کہنے لگے
یار ! زرا فرصت ملتی ہے تو تمہارے زاتی کتب خانے کا بهی چکر لگاتا ہوں
دیکهوں تو سہی کونسے سے خزانے داب کر بیٹهے ہو
خرم اس ملاقات کے دوران زیادہ تر مجھ سے مسلم متکلمین اور ان کے درمیان زیر بحث مباحث بارے ہی بات کرتا رہا اور اس دوران ایسے لگتا تها کہ میں ایک کمپیوٹر سائنس کے ماہر سے نہیں بلکہ منجهے ہوئے ‘ تهیالوجسٹ ‘ یا ‘متکلم ‘ سے بات کررہا ہوں
خرم سے میں نے پوچها تها کہ تهیالوجی کے طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مذہبی اعتبار سے ایک راسخ العقیدہ جعفری شیعہ بهی ہے تو کیسے وہ اس تنگ نظری سے بچ گیا جو عمومی طور پہ اس راستے پہ چلنے والے لوگوں میں پیدا ہوجاتی ہے اور ان کی سوچ تکفیری ہوجاتی ہے ؟ جبکہ اس کا سارا ایکٹوازم ہی ‘تکفیریت ‘ کے خلاف ہے اور اس کی ساری کوشش ایک تکثیریت پسند بیانیے کی تشکیل اور انسان دوستی کے گرد گهومتی ہے تو خرم زکی نے کہا
‘مسلم تاریخ میں خوارج کو چهوڑ کر تشیع و تسنن کے اکثر تهیالوجسٹ اپنے عقیدے اور نظریات پہ سختی سے جمے رہنے اور اس کی تائید میں کتب تحریر کرنے کے باوجود سماجی زندگی میں ‘بقائے باہمی ‘ اور مختلف الخیال و مختلف عقائد کے حامل لوگوں کے دوست رہے اور باہمی پیار و محبت ان کے درمیان موجود تها جبکہ قرون وسطی میں مکہ ، مدینہ ، کوفہ ، بصرہ کی جو جامع مساجد تهیں ان کے اندر ہی ایک صحن میں مسلم تهیالوجسٹ کے حلقے تهے ، جیسے فکر اعتزال کے بانی عطا بن واصل پہلے حسن بصری کے حلقے میں تهے جب تعریف ‘ایمان ‘ میں اختلاف ہوا تو اسی مسجد میں الگ حلقہ درس بنالیا ، اسی طرح کوفہ کی جامع مسجد میں ایک طرف امام ابوحنیفہ کا تو دوسری طرف ان کے معاصر دیگر کوفی فقہا مجتہدین کے حلقے تهے ، مدینہ میں امام زین العابدین کا حلقہ درس تها تو وہاں اور اصحآب ، تابعین ، تبع تابعین کے حلقے بهی تهے تو یہ بقائے باہمی میرے اندر بهی پیدا ہوئی اور میں اس پہ عمل پیرا ہوگیا ‘
خرم نے مجھ سے کہا کہ
‘مهجے سیکولر لبرل اقدار ، جدید انسانی حقوق کے تصورات اور اسلامی خیالات کے درمیان کوئی جوہری تضاد نظر نہیں آتا اور اسی لیے میں ان اقدار کے لیے سماجی ورک کو خلاف مذہب یا خلاف اسلام نہیں سمجهتا ‘
مجهے یہ بتانے میں کوئی عار یا شرم نہیں ہے کہ خرم زکی اور میں بالکل ہی مختلف فکری پس منظر سے تعلق رکهتے تهے ، خرم زکی کے ہاں مساوات ، برابری کے اشتراکی مفاہیم نہیں تهے اور نہ ہی وہ مارکسسٹ طبقاتی مفاہیم سے مکمل اتفاق کرتا تها اگرچہ کہیں کہیں وہ طبقاتی تضاد کی سنگینی پہ ضرور بات کرلیتا تها لیکن وہ اس معاملے میں اہل تشیع کے اسلامی سوشلسٹ مفکرین سے بهی متفق نہیں تها، وہ ڈاکٹر علی شریعتی سے کہیں زیادہ شہید مرتضی مطہری سے متاثر تها ، اسی طرح عراق کے باقر الصدر کے وہ قریب تها ، اگر میں یہ کہوں کہ وہ سرمایہ داری کو چند پابندیوں اور تحدیدات کے ساته ٹهیک خیال کرتا تها تو کچه غلط نہیں ہوگا اور شاید یہی وجہ تهی کہ وہ ‘لبرل نکتہ نظر ‘ کے زیادہ قریب تها بنسبت ‘ سماج واد انقلابیت ‘ کے
خرم زکی قومی سوال پہ کیا رائے رکهتا تها مجهے ٹهیک سے اندازہ نہیں ہے لیکن خرم کی دو سال کی پوسٹوں کو اگر میں اٹهاؤں تو کہا جاسکتا ہے کہ خرم زکی اگرچہ نسلی و مذهبی اقلیتوں کے حقوق کی آواز بلند کرتا تها لیکن مجهے کہیں بهی پاکستان میں بسنے والی اقوام کے حق خودارادیت یا ان کی علیحدگی کی تحریک کی حمائت کرتا نظر نہیں آیا، اس کو میں نے کبهی فوج کو بطور ادارہ تنقید کا نشانہ بناتے نہیں دیکها اگرچہ اس نے سابق آرمی چیف جنرل کیانی کی ملک اسحق ، طاہر اشرفی اور محمد احمد لدهیانوی سے ملاقاتوں پہ تنقید ضرور کی ، اس کے ساته حالیہ دنوں میں وہ ڈی جی رینجرز پر اس وقت تنقید کررہا تها جب اس نے ایک ایسے مدرسے میں جاکر تقریر کی جس کی قیادت کے تکفیریوں سے تعلقات پہ وہ سخت تنقید کرتا رہا تها لیکن وہ ضرب عضب کی حمائت کرتا رہا ، ملک میں انٹیلی جنس بنیادوں پہ آپریشن کی بات کرتا رہا تو میں کہہ سکتا ہوں کہ اس حوالے سے خرم زکی سنٹر رائٹ خیالات کے حامل تهے
خرم زکی لبرل انٹیلی جینٹیسیا کی طرح
Strategic depth policy
Jihadi Proxy militancy
کے خلاف تهے لیکن وہ اس کا زمہ دار صرف ملٹری اسٹبلشمنٹ کو ہی خیال نہیں کرتے تهے بلکہ وہ اس میں سیاسی اشرافیہ ، سویلین بابو شاہی ، صحافتی ، عدالتی اور مذهبی اشرافیہ کو بهی شامل کرتے تهے اور وہ اسٹبلشمنٹ کو ان سب کی نمائندہ طاقت قرار دیتے تهے ،ان کا اختلاف یہیں پہ آکر لبرل دانشوروں ، تجزیہ کاروں کے ایک سیکشن سے ہوتا تها جوکہ ساری برائی اور خرابی کی جڑ ملٹری اسٹبلشمنٹ کو قرار دیتے جبکہ وہ سیاسی اشرافیہ کو کلین چٹ دیتے تهے اور پهر ان کا ان لبرلز سے بهی سخت اختلاف تها جو میاں نواز شریف کو اینٹی اسٹبلشمنٹ جمہوری لبرل ترقی پسند لیڈر کے طور پہ پیش کرنے میں لگے ہوئے تهے اور اس کی سعودی نواز پالیسی سے صرف نظر کرتے تهے اور وہ یہ بهی نظر انداز کردیتے تهے کہ نواز شریف اینڈ کمپنی کا پاکستان کے اندر شیعہ نسل کشی اور دیگر اقلیتوں پہ حملوں کے زمہ دار تکفیری دہشت گردوں اور نفرت انگیز تقاریر کرنے والی ملائیت سے کیا رشتہ و ناطہ ہے
لبرل انٹیلی جینٹسیا کا یہ سیکشن سید خرم زکی کے قتل کا کهرا جی ایچ کیو ، آبپارہ میں سرخ عمارت یا کراچی رینجر ہیڈکوارٹر تک لیجانے کی پوری کوشش کررہا ہے اور اس کے لیے اس کے پاس سب سے بڑی دلیل سید خرم زکی کا اپنی فیس بک وال پہ آخری سٹیٹس ہے جس میں انهوں نے ڈی جی رینجرز کے ایک مدرسے کے سالانہ جلسے میں شرکت پہ تنقید کی اور ساته ساته انہوں نے اس سے پہلے ایم کیو ایم کے فاروق ستارکے سابق کوآرڈینیٹر آفتاب احمد کے رینجر حراست میں مارے جانے پہ تنقید کی تهی لیکن وہ خرم زکی کی ہزاروں پوسٹوں اور ایل یو بی پی بلاگ کے لیے لکهے گئے درجنوں ادارتی نوٹس کو کهوہ کهاتے ڈال رہا ہے …… یہ روش حب علی والی تو ہے نہیں بلکہ معاملہ اس کے الٹ ہے …… خرم زکی کو ہم کسی طرح سے بهی نجم سیٹهی ، بینا سرور ، رضا رومی ، سید محمد تقی ، اعجاز حیدر اور اس طرح کے اور بہت سے لبرل کی صف کا آدمی قرار نہیں دے سکتے کیونکہ ان کے ہاں شیعہ ٹارگٹ کلنگ اور شیعہ نسل کشی پہ جو سعودی -ایران بائنری ہے خرم زکی اس کا حامی نہیں تها بلکہ اس کا شدید ناقد تها
سید خرم زکی پاکستان میں سیکولر ڈیموکریسی کا حامی تها وہ یہاں پہ کسی قسم کی تهیوکریسی کا نفاز نہیں چاہتا تها اور وہ ریاست کو یہ حق دینے کو تیار نہیں تها کہ وہ کسی کے ایمان و کفر کے فیصلے کرتی پهرے یہ نکتہ اسے پاکستان کے لبرل ، لیفٹ کیمپ کے قریب کرتا تها لیکن وہ ان ملحد لبرلیان کے خلاف تها جو اسلامو فوب تهے یا مذهب فوب تهے
میں خرم زکی سے مل کر اور اس کی تحریروں سے یہی کچھ اخذ کرسکا ہوں یقینی بات اس کی زندگی کی اور کئی جهلکیاں ہوں گی جو ابهی نظر سے اوجهل ہیں
May be an image of 2 people and beard

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author