رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم عمران خان نے فارن آفس کے افسران سے خطاب میں جو باتیں کیں‘ وہ شاید کسی وزیر اعظم نے پہلی دفعہ کی ہوں گی۔ ماضی میں اس طرح کی کانفرنسیں ہوتی رہتی تھیں جن میں کروڑوں روپے خرچ کرکے سفارت کاروں کو دنیا بھر سے اسلام آباد بلایا جاتا اور کئی دنوں تک سیمینار ہوتے۔ ان مسائل پر بات ہوتی جو زیادہ تر ڈپلومیٹس کے اپنے ہوتے اور وہ ہنسی خوشی لوٹ جاتے۔ کئی دفعہ ملک کے وزیر اعظم باہر گئے لیکن انہیں یہ سفیر کبھی اوورسیز پاکستانیوں کے قریب نہیں آنے دیتے کہ کہیں وہ ان کی شکایت نہ لگا دیں؛ تاہم جو بااثر پاکستانی ہوتے ہیں انہیں سفارت خانہ ویسے ہی زیادہ لفٹ کراتا ہے اور ان کے کام نہیں رکتے‘ لہٰذا ان سب کے مسائل وہ ہوتے ہی نہیں جو عام اوورسیز پاکستانیوں کے ہوتے ہیں‘ جنہیں پہلے تو سفارتخانے کے اندر داخلے کی سہولت میسر نہیں ہوتی‘ اور وہ اکثر سفارت خانوں کے باہر موجود ٹائوٹ اور ایجنٹ مافیا کے ہاتھ لگ جاتے ہیں جو ان سے معقول پیسے لے کر ان کے کام کراتے ہیں۔ چند سال قبل مجھے امریکہ سے ایک دو لوگوں نے کہا کہ ان کی پاسپورٹ کی تجدید میں مدد کر دیں تو حیرانی ہوئی کہ ان پاکستانیوں کو اب امریکہ سے پاکستان سفارش کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں کسی ملک میں گیا ہوں اور وہاں بے چارے اوورسیز پاکستانیوں نے اپنے دکھوں کی کہانی نہ سنائی ہو۔ یہ تمام اوورسیز خصوصاً مڈل ایسٹ میں جو مزدوری کیلئے جاتے ہیں وہ سوشل ویلفیئر کے نام پر اچھی خاصی رقم ادا کرتے ہیں جو ان کی فلاح پر کبھی خرچ نہیں ہوتی۔ اکثر دیکھا گیا کہ اگر کوئی اوورسیز پاکستانی باہر کے ملک میں فوت ہو جائے تو سفارت خانے کے پاس پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اس کی میت کو واپس بھجوا سکے۔ وہیں کے لوکل پاکستانی چندہ کر کے ٹکٹ اور دیگر اخراجات پورے کرتے ہیں۔ میری یادداشت سے کولمبیا یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹرز کرنے والی پاکستانی جرنلسٹ لڑکی Nushmiya Sukhera کا انویسٹی گیشن سے بھرپور آرٹیکل نہیں جاتا‘ جو امریکی میگزین ”دی ڈپلومیٹ‘‘ میں چھپا تھا۔ اس کا عنوان تھا: Life in New York’s Little Pakistan۔ نشمیا نے کئی دن اس جگہ گزار کر وہ آرٹیکل لکھا تھا کہ وہ پاکستانی جو نئی دنیا کی تلاش میں جاتے ہیں انہیں کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کے ذہنوں پر کیا خوف ہوتا ہے اور وہ کیسے زندگی گزارتے ہیں۔ پاکستان میں ان کے خاندان اس اذیت کو کبھی نہیں سمجھ سکتے کہ وہ بے چارے اپنے پیاروں کیلئے پیسے کمانے کی خاطر کن کن خطرات کا سامنا کرتے ہیں۔ شکر ہے وہ آرٹیکل انگریزی میں تھا اور پاکستانی میں زیادہ نہیں پڑھا گیا ہو گا۔ دل چاہتا ہے دو ہزار اٹھارہ کا وہ خوبصورت لیکن دکھوں سے بھرا مضمون یہیں اردو میں ترجمہ کروں تاکہ ان دکھوں کا اندازہ ہو جن کا ہمارے پاکستانی باہر سامنا کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو کہیں سے کوئی سپورٹ نہیں ملتی خصوصاً اگر آپ غیرقانونی تارکین وطن ہیں‘ پھر آپ کا نہ کوئی وطن ہے نہ آپ کو کوئی جانتا ہے۔ اگر آپ پکڑے گئے ہیں اور جیل میں ہیں تو پھر بھی آپ کو آپ کے ملک کے سفارت خانے سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔ آپ کی قسمت اچھی ہوئی تو آپ کو کوئی این جی او یا مقامی پاکستانی چندہ اکٹھا کر کے نکلوا لیں گے۔ مجھے یاد ہے دو سال قبل میں عمان گیا تھا تو وہاں بھی پاکستانی یہی رونا رو رہے تھے کہ کتنی بڑی تعداد میں پاکستانی جیلوں میں ہیں۔ وہاں کے مقامی پاکستانیوں کا کہنا تھا کہ وہاں کے سفارت خانے کے افسران کا رویہ دل شکن ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ بھارتی سفارت کاروں کی مثال دیتے جن کی وہاں بات سنی جاتی تھی۔ جو حالات وہاں پاکستانیوں کے جیلوں میں سنے ان سے دل دکھا لیکن کچھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ کچھ پاکستانی ورکرز اپنے ساتھ ڈرگز لاتے تھے اور غلط سرگرمیوں میں ملوث تھے‘ جس کی وجہ سے پاکستانیوں پر سختیاں زیادہ تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستانی ایئرپورٹس پر چند سو روپے دے کر آپ جو چاہیں ساتھ لے جائیں۔ چند معصوم لوگ کیرئیر کے طور پر استعمال ہوتے ہیں جو پکڑے جانے پر جیلوں میں گل سڑ جاتے ہیں اور ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اگر سفارتکاروں سے بات ہو تو وہ یہی رونا روتے ہیں کہ ہم کیا کریں اگر کسی کی جیب یا سامان سے ڈرگز برآمد ہو جائیں یا کچھ پاکستانی یہاں سنگین وارداتوں میں پکڑے جائیں؛ تاہم اکثر دیکھا گیا ہے کہ سفارت خانوں میں بھی وہی دفتری کلچر ہے جو پاکستان میں ہے۔ وہاں بھی نہ آپ کو عزت ملے گی نہ آپ کا کام ہوگا۔ پاکستان سے زیادہ تر پوسٹنگز سفارش پر ہوتی ہیں۔ جن افسران نے حکام بالا کے ساتھ کام کیا ہوتا ہے یا کسی وزیر اعظم یا صدر یا وزیر کے سٹاف میں کام کیا ہو‘ انہیں اکثر اچھے ملکوں کی پوسٹنگ ملتی ہے اور ان کے خیال میں یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ خود ان ملکوں میں سیٹل ہوں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی کرائیں۔ اپنے بچوں کے کیرئیر بنانا ان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ آپ کو بہت کم ایسے فارن آفس کے لوگ ملیں گے جو ریٹائرمنٹ پر پاکستان واپس آئے ہوں۔ اگرچہ چند بڑے نام فارن آفس کے ضرور ہیں جو پاکستان لوٹے لیکن ان کے بچے باہر ہی سیٹل ہوگئے۔ وہ سب گئے تو پاکستان اور پاکستانیوں کی خدمت کرنے تھے لیکن پھر اپنے مفادات کی ایسے اسیر ہوئے کہ آج ان کے خلاف وزیراعظم کی شکایتوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا میں کسی ملک گیا ہوں اور وہاں کسی پاکستانی کو مقامی پاکستانی ایمبیسی کے سٹاف سے خوش پایا ہو۔ ہاں 2014ء میں نیویارک میں تھا تو وہاں میاں مشتاق احمد جاوید اور دیگر سے ایک قونصلر کی بہت تعریف سنی کہ دن رات وہ پاکستانیوں کی خدمت پر تیار تھا۔ مجھے دکھ ہورہا ہے کہ مجھے ان کا نام یاد نہیں رہا۔ یہ بھی ہماری عادت ہے کہ اچھے کام کرنے والوں کے نام ہمیں یاد نہیں رہتے جبکہ غلط کاموں والوں کے نام برسوں نہیں بھولتے۔
پاکستانی فارن آفس کے لوگوں کو رویہ بدلنا چاہئے۔ یہ لوگ جتنی مشکلات سے دوسروں ملکوں میں زندہ رہ کر پاکستان میں اپنے خاندانوں کیلئے کمانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اس کے بعد ان کے ساتھ ایسا سلوک ہرگز مناسب نہیں۔ دوسری طرف داد دیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو جن کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ میں دو تین سال پہلے شاہ محمود قریشی کے سالانہ گوشوارے دیکھ کر حیران ہوا تھا۔ اثاثے کروڑوں روپے کے تھے لیکن موصوف نے اس سال ٹیکس صرف آٹھ لاکھ روپے دیا تھا۔ اندازہ کریں جس کے اکاؤنٹس میں بیس پچیس کروڑ روپے ہوں اور وہ سال میں صرف آٹھ لاکھ روپے ٹیکس دے اور اس ملک کی خارجہ پالیسی کے علاوہ پیری مریدی بھی چلاتا ہو۔ شاہ محمود قریشی کو وزارت خارجہ چلانے میں اس لیے دلچسپی نہیں کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے امیدوار تھے اور آج بھی ہیں۔ وہ وزارت خارجہ کو وقتی نوکری سمجھتے ہیں جس پر زیادہ توجہ یا اہمیت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں یاد آیا جب وہ پی پی دور میں وزیر خارجہ بنے تھے تو اپنے ایک یار بیلی ناصر صاحب جن کی عینکوں کی دکان تھی کو گشتی سفیر لگایا جنہوں نے ڈیڑھ دو کروڑ روپے ٹی اے ڈی لیا‘ پچاس ملکوں کا ہمارے خرچے پر دورہ کیا اور ڈیڑھ سو دن انہوں نے امریکہ‘ برطانیہ اور یورپ میں گزارے۔ ایک عینکیں بیچنے والے کے گشتی سفیر لگنے کی ایک ہی اہلیت تھی کہ وہ وزیرخارجہ کا روم میٹ اور دوست تھا۔ اب جس کے اکاؤنٹ میں بیس پچیس کروڑ نقد پڑے ہوں‘ پورچ میں چار لگژری گاڑیاں پارک ہوں‘ اسے بیرون ملک پاکستانیوں سے کتنی ہمدردی ہو سکتی ہے اور وہ ان کے وہ دکھ اور درد دور کرنے کی کتنی کوشش کر سکتا ہے‘ جن کا رونا وزیر اعظم رو رہے تھے؟
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ