حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ ہم مطالعے اور مکالمے کی دنیا سے دور اس بند گلی میں بستے ہیں جس کے باسیوں کے "علمِ کُل” کا منبع وہ مسیتڑ ملا ہے جو زندگی کے آٹھ دس سال دنیا سے کٹ کر ایسے ماحول میں بسر کر کے آیا جہاں علم اچھوت اور تکفیر رزق ہے۔
کتاب بینی زیادہ ہمیں شوشا عزیز ہے مکالمے سے جگتیں۔ کچھ معلوم کر لینے کی جستجو پالنے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ ماں باپ اور گلی کے ملا کے عقیدے کے سوا سب باطل ہے کی سوچ ہمارا کُل اثاثہ ہے۔
چار اور دیکھ بھال لیجے عبادات شکرانے کی بجائے سودے بازی ہیں، اس سے سوا کیا ہے کچھ نہیں۔ ایسے میں بچے کچھے انسانی سماج سے کوئی دانا رخصت ہو جاتا ہے تو علم و مکالمے کو روشنی سمجھنے والے سوگوار ہو جاتے ہیں۔
سوگواریت کی وجہ مسلم سماج کا بنجر پن اور عقل و دلیل کو جوتے مارنے والی مخلوق کی بہتات ہے۔ ممتاز سکالر جناب وحید الدن خان کا سفر حیات تمام ہوا مسلم یا آسمانی مذاہب کی متھ کے مطابق اب ان کا معاملہ اپنے خالق سے ہے۔
طالبعلموں کا دکھ اولاً یہ ہے کہ روایتی ملایت و تکفیر انسانی کا ناقد رخصت ہوا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عبادتوں کو ایک پلڑے میں رکھ کر دوسرے میں حور و غلمان تولنے کو زندگی سمجھنے والے بند دماغ تمسخر بھرے انداز میں پوچھتے ہیں مولوی مرا ہے یہ لبرل کیوں پریشان اور دکھی ہیں۔
عزیزو! مولوی نہیں حقیقی معنوں میں علم و مکالمے پہ یقین رکھنے تحقیق و جستجو کو زندگی کا مقصد سمجھنے والا صاحب علم رخصت ہوا۔ تہی دامنی اور بڑھ گئی ہے۔
کاش آپ سمجھ سکتے کہ جناب وحید الدین خان کے سفر حیات کے اختتام پر سوگوار ہونے والوں میں مختلف الخیال مسلم مکاتب فکر کے علاہ آزادانہ رائے کا اظہار کرنے والے بھی کیوں شامل ہیں۔
آخر کوئی تو وجہ ہو گی اس دکھ کو محسوس کرنے کی۔ جس دن آپ یہ وجہ جان پائیں گے سمجھ لیجے گا بند گلی سے باہر نکل آئے ہیں، تازہ ہواؤں اور مطالعہ کے لیے۔
آپ سب کی صحت و سلامتی کے لیے دعا گو
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر