حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہٹ دھرم لبرل اور شدت پسند رجعت پسند دونوں کی اصل ایک ہے۔ وہ یہ کہ جو معلوم ہے سب یہی ہے اور ہمارے سوا سب جاہل مطلق ہیں۔ مشرک اور کافر، کل علم ماں باپ کا عقیدہ اور گلی کی مسجد کے مولوی صاحب کا منبع علم ہے۔
کتاب ہم پڑھتے نہیں اور اگر خدانخواستہ پڑھنی پڑ جائے تو اپنی پسند کے کردار یا ضرورت کے ایک دو صفحات تک محدود رہتے ہیں۔
ہم وقت نکال کر کبھی نہیں سوچ پائے کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ زمین پر یا دلدل میں؟
ہم میں سے اکثر کو دو باتیں بری لگتی ہیں، اولاً آزاد خیالی کیونکہ یہ سوچنے پرکھنے اور عصری شعور کو غلاف میں ڈھانپ کر رکھنے کے خلاف ہے۔ ثانیاً یہ کہ دنیا اس بند گلی کے باہر بھی ہے بلکہ وسیع تر ہے جس میں ہم نسل در نسل رہ رہے ہیں۔
لکیر کے فقیر فقط ہم نہیں بلکہ یہ کئی پشتوں کے اثاثوں کا بوجھ ہے۔ ہم یہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ تحقیق و جستجو سے پیدا ہو ا اختلاف مکالمے سے دور ہوتا ہے اور سوچ کے نئے در وا ہوتے ہیں۔
چند ضعیف روایات پر اترانا اور انہیں حرفِ آخر سمجھ کر گلے کا ہار بنائے رکھنا بذات خود جہالت ہے۔ علم یہ ہے کہ ہم معلوم کریں کہ ہمارے سوا لوگ کیا سوچتے ہیں اور کیوں سوچتے ہیں اس کا ماخذ کیا ہے۔
ارے بھائی زندہ انسان سوال اٹھاتے ہیں خاموشی قبرستانوں میں اچھی لگتی ہے۔ مذہبی پاپائیت بھی ایک کاروبار ہے جیسے فاسٹ فوڈ یا قدیم روایتی ذائقوں کے کھانوں کا کاروبار۔
فرقہ پرستی بھی ایک طرح سے لذت دہن ہی ہے۔ فرد کا عقیدہ رکھنا بری بات نہیں ہوتی، برائی یہ ہے کہ اپنے عقیدے کو حرفِ آخر قرار دے کر دماغ کی کھڑکیاں بند کرلی جائیں۔
روایتی تعلیم کی تحصیل کے بعد امور زندگی جانوروں کی طرح نبھانے اور روایتی تعلیم کی تحصیل کے بعد حصول علم کی جستجو دونوں میں فرق ہے۔ کسی دن ٹھنڈے دل سے یہ ضرور سوچنے کی زحمت کیجئے کہ جانوروں اور دولے شاہ کے چوہوں میں فرق کیا ہے۔
پھر ان کے مقابل خود کو بطور انسان رکھیئے فقط تقابل کے لئے نہیں بلکہ غوروفکر کے لئے کہ کیا انسانی اوصاف ہم میں ہیں یا محض دعوے ہیں۔
پڑھنے لکھنے اور سوچنے سے عقیدے بھرشٹ نہیں ہوتے ہاں البتہ اگر آپ صرف اپنے عقیدے کی کتب کو حرف آخر جانتے ہیں تو انسانی سماج کو آپ سے اتنا فائدہ بھی نہیں پہنچ رہا جو ایک درخت دے سکتا ہے پھل بھلے نہ دے سایہ تو دیتا ہے تپتی دھوپ میں۔
اس طویل تہمید کی وجہ میرے ایک عزیز (حد ادب کی وجہ سے ان کا نام نہیں لکھ رہا) کا وہ سوال ہے جو گزشتہ شب انہوں نے مجھ سے دریافت کیا۔ ان کا سوال تھا، آپ تو شیعہ ہیں پھر بھارتی عالم دین مولانا وحید الدین خان کی وفات پر سوگوار کیوں ہیں؟
اس سوال پر میرا دل چاہا کہ زمین پھٹ جائے اور اس میں دھنس جائوں یہ اس سے بہتر ہوگا کہ جہل پھانکتے سماج میں مزید قیام کیا جائے۔اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ ہم مرنے والوں کا عقیدہ دیکھتے ہیں اور اپنے عقیدے کے روایتی عقائد کو انسانیت کے لئے حرفِ آخر۔
یہ انسانیت بھی تکلفاً لکھ دیا ہے ورنہ یہاں ساری انسانیت، ہونا اور نجات سبھی کے معاملے میں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کا ترکہ ہیں۔ آخر کیوں ہم بند دماغ بوزنوں کی طرح جینے پر بضد ہیں۔
اس عزیز سے عرض کیا مجھے ہر وہ شخص اچھا لگتا ہے جو علم و تحقیق پر یقین رکھتا ہو، مطالعہ اور مکالمہ اس کی غذا ہوں، انسانوں کی ذات پات، دھرم عقیدہ پر تکفیر کو شرف انسانی سے متصادم سمجھے۔
ایسے اجلے اور روشن دماغ شخص کے لئے پسندیدگی میں میرا عقیدہ کبھی رکاوٹ نہیں بنا۔ ویسے بھی میں دھرم اور عقیدے کو فرد کا نجی معاملہ سمجھتا ہوں۔ تکفیر کا حق فرد کو حاصل ہے نہ ریاست کو، ریاست کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی جغرافیائی اور انتظامی حدود میں آباد لوگوں کے حقوق کا بلاامتیاز تحفظ کرے۔
کیونکہ اگر ریاست کسی دھرم یا عقیدے کو اپنا چہرہ بنالیتی ہے تو وہ دیگر لوگوں کے ساتھ مساویانہ معاملہ ہرگز نہیں کرپاتی، دعوے بھلے لاکھ کرے۔
جناب وحید الدین خان مرحوم روایتی مسلم عقائد کی بنی متھوں کو توڑنے والوں میں سے تھے اسی لئے ان کے لئے پسندیدگی کے جذبات تھے اور سفر حیات تمام ہونے پر سوگواریت بھی ہے
علم اور تحقیق کا مطالعہ سوچ کے نئے در وا کرتا ہے۔ آپ کے چار اور ہو کیا رہا ہے لوگ سوچ کیا رہے ہیں، کن نکات پر بحثیں اٹھائی جارہی ہیں یہ اہم ہے اس کے مقابلے میں کہ آپ کیا سوچتے ہیں، سوچتے بھی ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ جو میرے باپ دادا تھے بس میں و ہی ہوں یہی درست ہے۔
انسان سوچتے ہیں علوم حاصل کرنے کے لئے ہوتے ہیں ان کی ضرورت نہ ہوتی تو انسان کیا ہوتا محض جنگلی بوٹی کے جس کی کڑواہٹ جانوروں کو بھی اس سے دور رکھتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ہم صاحبان علم کا تمسخر اڑاتے علم کو وقت کا ضیاع اور عقیدے کو حتمی سمجھتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ جس ہادی اکبرؐ کی ہم امت ہیں آپ کا ارشاد ہے کہ
’’علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘
انسانی زندگی میں علم کی اہمیت نہ ہوتی تو اس ارشاد مبارک کی ضرورت کیا تھی؟ آیئے بند دماغوں کی کھڑکیاں کھول کر صرف اس سوال پر غور کرتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر