مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا
دل ہی تو ہے، نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
ہوا یہ کہ ایک نوجوان کو یونین اسٹیشن لے جارہا تھا۔
یونین اسٹیشن دوسرے شہروں کو جانے والی ٹرینوں کا جنکشن ہے۔
نوجوان کے پاس کئی بیگ تھے۔
میں نے تبصرہ کیا، سفر کے لیے اتنے بیگ؟ میں تو فقط ایک چھوٹا سا ٹریول بیگ لے لیتا ہوں۔
نوجوان نے اپنی دکھ بھری کہانی سنائی۔
کہنے لگا، میرا تعلق ویسٹ ورجینیا کے ایک غریب قصبے سے ہے۔
وہاں نوکریاں نہیں ہیں۔ میں روزگار کی تلاش میں واشنگٹن آگیا۔
یہاں جس دفتر میں ملازمت ملی، اس کی باس عورت ہے۔
اس نے مجھے جنسی ہراساں کرنا شروع کردیا۔
کبھی عشقیہ نظم سناتی، کبھی مخرب اخلاق لطیفے۔
کئی بار کمرے میں بلاکر زبردستی پیار کیا۔
اپنے ساتھ چلنے کو بھی کہا۔
مجھے معلوم ہوا کہ وہ ہر نئے ورکر کے ساتھ ایسا ہی کرتی ہے۔
میں نے کئی بار منع کیا۔
وہ باز نہیں آئی تو استعفا دیے بغیر گھر جارہا ہوں۔
میں نے پوچھا، بڑی عمر کی ہے؟
نہیں۔ چوبیس پچیس سال کی ہوگی۔
بدصورت ہے؟
نہیں۔ بلونڈ ہے۔ سفید فام، بھورے بال۔
جسم بدہئیت ہے؟
نہیں۔ ورزشی جسم ہے۔ جیسا اسکارلیٹ جوہانسن کا ہے۔
تم مسلم ہو؟ گے ہو؟ چے ہو؟
نہ مسلم ہوں، نہ گے۔ چے کیا ہوتا ہے؟ چے گویرا؟
میں نے گاڑی روک دی اور پھوٹ پھوٹ کے رو پڑا۔
نوجوان نے گھبرا کے کہا، کیا ہوا؟
میں نے آنسو پونچھتے ہوئے بتایا، میں پہلے بہت اچھی ملازمت کرتا تھا۔ اچھے پیسے ملتے تھے۔ پھر نوکری چھوٹ گئی۔ اب اوبر چلاتا ہوں۔ گزارہ نہیں ہوتا۔
نوجوان نے ہمدردی سے کہا، کیا میں آپ کے لیے کچھ کرسکتا ہوں؟
میں نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا، جانے سے پہلے مجھے اپنی جگہ اس دفتر میں ملازم رکھوا دو۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر