آسیہ انصر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’میں جب الٹرا ساؤنڈ کرواتی ہوں تو ڈاکٹر کے چہرے کی جانب دیکھتی ہوں اور اس کی آنکھوں کی جنبش سے سمجھ جاتی ہوں کہ اس بار بھی صورتحال مختلف نہیں، پھر میں اپنی آنکھیں بند کر کے چپ چاپ آنسو بہا لیتی ہوں۔‘
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے علاقے سوات کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’کوکارئی‘ کی رہائشی عالیہ سعید جس وقت اپنے ساتویں حمل کے ضائع ہونے کا دُکھ ہمیں بتا رہی تھیں تو اُس وقت بھی اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور لرزتی آواز میں گہرا کرب نمایاں تھا۔
’آس پاس لوگوں کا کہنا تھا کہ چھ بار حمل ضائع ہونے پر ڈی این سی (جراحی طریقہ) سے صفائی کرانے کی وجہ سے میری صحت خراب ہو رہی ہے۔ ساتویں بار جب حمل ضائع ہوا تو میں نے ڈی این سی کے بجائے ایک دوا کھائی لیکن اس سے صبح دس بجے شروع ہونے والی مسلسل بلیڈنگ رات گئے تک نہ رُکی اور مجھ پر غشی کے دورے پڑنے لگے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’گھر والے مجھے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو انھوں نے فوراً مجھے ایمرجنسی بھیجا۔ میری بہن نے بعد میں کہا کہ عالیہ آئندہ کبھی بچہ پیدا کرنے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ اس خواہش میں تم خود مرتے مرتے بچی ہو۔‘
42 برس کی عالیہ سعید ہماری درخواست پر اپنی ماں بننے کی دلی خواہش اور سات سال کے دوران سات بار حمل ضائع ہونے جیسے حساس مسئلے پر ہم سے اپنے شوہر کی موجودگی میں بات کر رہی تھیں۔
یہ بھی پڑھیے
روایتی گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے انھوں نے کیمرے کے سامنے آنے سے معذرت کی تاہم عالیہ کے لہجے کی افسردگی اور اپنی کہانی سُناتے ہوئے ان کی آواز کا بار بار بھر آنا، ان کے الفاظ سے زیادہ نمایاں تھا جس کے اظہار کے لیے شاید کسی کیمرے کی ضرورت نہیں۔
اُن کی کہانی اُن ہی کی زبانی سنیے۔
شادی کے چار ماہ بعد میں پہلی بار حاملہ ہوئی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ پھردو ماہ بعد الٹرا ساونڈ کروانے گئی تو ڈاکٹر نے بتایا کہ بچے کے دل کی دھڑکن ابھی تک نہیں بن پائی اور پھر حمل کے چار ماہ تک بچے کے دل کی دھڑکن نہ ہونے کے باعث ڈاکٹر کو میری ڈی این سی کرنی پڑی۔
پہلا حمل ضائع ہونے کے آٹھ ماہ بعد میں دوبارہ حاملہ ہوئی تاہم اس بار بھی یہی مسئلہ رہا۔ پھر تیسرے، چوتھے اور یہاں تک کہ ساتویں حمل میں بھی صورتحال یہی رہی۔
مختلف ڈاکٹرز نے مختلف ٹیسٹ تجویز کیے۔ سارے ٹیسٹ کروانے کے بعد ڈاکٹرز کہتے کہ بظاہر سب ٹھیک ہے۔ ناصرف میرے بلکہ میرے شوہر کے بھی تمام ٹیسٹ درست آتے ہیں، پھر بھی کوئی ڈاکٹر اب تک ہمارے مسئلے کو سمجھ نہیں سکا۔
وقت کے ساتھ ساتھ میری صحت اب پہلے جیسی نہیں رہی۔ کمر اور ایک ٹانگ میں ہر وقت شدید درد رہتا ہے اور اس کی وجہ سے میں زیادہ دیرکھڑی نہیں رہ سکتی۔
میرے شوہر میری دلجوئی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے تاہم میری اب بھی خواہش ہے کہ میرے آنگن میں ہمارے بچے کھیلیں کودیں۔ اپنے دل کو سنبھالنے کے لیے میں دعا بھی مانگتی ہوں۔ قرآن میں جب یہ پڑھتی ہوں کہ ’تمھاری اولاد تمھارے لیے آزمائش ہے‘ تو پھر خود کو تسلی دیتی ہوں۔
ماں کی کوکھ میں بڑھنے والے بچے کا ضائع ہو جانا کسی بھی شادی شدہ جوڑے کے لیے بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔
اس مسئلے سے دوچار خواتین کا اس حساس موضوع پر بولنا آسان نہیں۔ اس لیے اپنے اس دکھ کو ہم سے بیان کرتے ہوئے جہاں عالیہ بے اختیار رو پڑتی تھیں، وہیں کراچی کی رہائشی ارم عمر نے بہت ہمت اور حوصلے سے اپنی کہانی ہم سے شیئر کی۔
اس پر گفتگو آگے چل کر مگر پہلے یہ جانتے ہیں کہ حمل ضائع ہونے کی عام اور بنیادی وجوہات کیا ہیں۔
مس کیریج یا حمل ضائع ہونے کی پانچ بڑی وجوہات کیا ہیں؟
شفا انٹرنیشنل ہسپتال کی ماہر امراض نسواں پروفیسر نابیہ طارق کے مطابق پانچ بڑی وجوہات کچھ یوں ہیں:
- ماں بننے کی خواہشمند خاتون کی جتنی زیادہ عمر بڑھتی جائے گی، اس کے ایگز (بیضہ) پرانے اور کمزور ہوتے جائیں گے اور بیضے میں اس کمزوری اور کمی کے باعث بچہ ضائع ہونے کا امکان بڑھتا جائے گا۔
- کیفین اور الکوحل کا استعمال، سگریٹ نوشی اور ڈرگز کا استعمال بھی حمل کے ضائع ہونے کے خطرات کو بڑھا دیتا ہے۔
- اگر کسی خاتون کی پہلے سے حمل ضائع ہونے کی ہسٹری ہے تو اگلی بار اس کا حمل ضائع ہونے کا امکان پہلی مرتبہ سے بھی زیادہ ہو گا۔
- ماں بننے والی خاتون کا طرزِ زندگی، موٹاپا یا وزن کا بڑھ جانا بھی حمل کے ضائع ہونے کے خطرے کو بڑھا دیتا ہے۔
- ماں بننے والی خاتون کی صحت کے اپنے مسائل مثلاً تھائی رائیڈ، ذیابیطس، ہارمونل ڈس آرڈر یا پولیسسٹک اوورین سینڈروم جیسے مسائل کا موجود ہونا بھی بچہ ضائع ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر نابیہ طارق کہتی ہیں کہ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کئی بار حمل ضائع ہونے کی وجوہات وہ نہیں ہوتیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں کیونکہ بعض اوقات اُن میں سے کوئی وجہ بھی موجود نہیں ہوتی مگر عورت کا حمل بغیر کسی معلوم وجہ کے بھی ضائع ہو سکتا ہے۔
عالیہ سعید کی طرح کراچی کی اِرم عمر بھی حمل ضائع ہونے جیسے دکھ کا سامنا کر رہی ہیں۔
فرق یہ ہے کہ ارم عمر نے شادی کے ابتدائی برسوں میں حمل ضائع ہو جانے کے بعد 13 سال بعد ٹیسٹ ٹیوب بے بی یعنی آئی وی ایف کا سہارا لیا لیکن اس بار حمل کے چوتھے ماہ ان کے جڑواں بچے ضائع ہو گئے۔
’میں اور میرے شوہر ایک دوسرے کو دیکھ کر بس رو پڑتے تھے‘
ارم عمر نے اپنی زندگی کے ان کٹھن لمحات کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ 13 سال بعد اولاد کی خوشی کے ملتے ملتے رہ جانے کا صدمہ اُن کے لیے کسی بڑے سانحے سے کم نہیں تھا۔
’مجھے آخری وقت تک اُمید تھی کہ میرے جڑواں بچوں میں سے ایک بچ جائے گا کیونکہ وہ بالکل صحت مند تھا مگر ایسا نہ ہوا اور پھر میری پریگنینسی ختم ہو گئی۔‘
’میں روتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میری اور میرے شوہر کی آنکھیں ملتی تھیں تو ایک دوسرے کو دیکھتے اور ہمیں رونا آ جاتا تھا۔‘
ارم نے اپنے ماضی سے چند مزید یادیں ہم سے شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’شادی ہوتے ہی سب خاندان والوں نے خوشخبری کے بارے میں سوالات کرنا شروع کر دیے۔ ڈاکٹرز کے مطابق سب کچھ ٹھیک تھا اور پھر شادی کے تین سال بعد وہ پہلی مرتبہ حاملہ ہوئیں۔‘
’میرا حمل بغیر کسی علاج کے قدرتی طور پر ٹھہرا تھا۔ جب میری پریگنینسی رپورٹ مثبت آئی تو ہم سب بہت خوش تھے مگر ان دنوں میری والدہ بہت بیمار ہونے کے باعث آئی سی یو میں تھیں تو ہسپتال میں مصروفیت کے باعث شاید ہم اس طرح خیال نہ کر سکے اور حمل ضائع ہو گیا۔‘
’یہ میرے لیے کافی صدمے کی بات تھی کہ حمل بھی ختم ہو گیا اور امی کا بھی انتقال ہو گیا۔‘
کچھ عرصے بعد ارم نے دوبارہ ہسپتالوں کے چکر لگانا شروع کیے اور اولاد کے حصول کے لیے روحانی اور طبی ہر طریقہ آزمایا۔ پھر ڈاکٹر کے مشورے سے انھوں نے ٹیسٹ ٹیوب بے بی یعنی آئی وی ایف کا سہارا لیا اور ڈاکٹر نے ان کو جڑواں بچوں کی نوید سنائی۔
ارم بتاتی ہیں کہ اس کے بعد انھوں نے ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق پورے تین ماہ مکمل احتیاط سے گزارے، بظاہر مشکل وقت گزر گیا تھا تاہم چوتھے ماہ ایک دن اچانک ان کی طبیعت بگڑ گئی۔
’چوتھے مہینے میں ایک دن میرا کافی زیادہ خون بہنا شروع ہو گیا جس پر ڈاکٹر نے ایک انجیکشن دیتے ہوئے مکمل آرام کی تاکید کی۔ اگلے دن الٹرا ساونڈ میں دونوں بچے ٹھیک دکھائی دیے تاہم مجھے مکمل بیڈ ریسٹ کا کہا گیا اور مزید احتیاطیں بتائی گئیں۔‘
ارم بتاتی ہیں کہ تمام احتیاط کے ساتھ دو ہفتے آرام سے گزر گئے تاہم ایک روز واش روم سے آنے کے بعد ان کا واٹر بیگ (وہ پانی جس میں بچہ ماں کے پیٹ میں پرورش پاتا ہے) لیک ہو گیا۔
’مجھے بہت زیادہ پانی نکلتا ہوا محسوس تو میرے شوہر نے کہا کہ شاید یورین (پیشاب) پاس ہوا ہے تاہم مجھے اس وقت سمجھ نہیں آئی کہ میرا واٹر بیگ لیک ہو گیا تھا۔‘
’میں واش روم دوبارہ گئی۔ پھر شدید بلیڈنگ شروع ہو گئی۔ ڈاکٹر نے الٹرا ساونڈ کر کے بتایا کہ ایک بے بی کا واٹر بیگ لیک ہو گیا ہے۔ شاید ایک بے بی کو وہ نہ بچا سکیں تاہم دوسرے کے لیے وہ پوری کوشش کریں گے۔‘
’مجھے انفیکشن بھی شروع ہو گیا تھا۔ چار روز کی کوشش کے بعد انھوں نے بتایا کہ اب دوسرا بھی کسی بھی وقت ڈلیور کرنا پڑے گا تو اس وقت مجھے بہت افسوس ہوا۔‘
’واٹر بیگ‘ کا لیک ہونا کیا ہوتا ہے؟
بچہ ماں کے پیٹ میں بچہ دانی کے اندر پانی کی ایک تھیلی میں محفوظ ہوتا ہے جسے واٹر بیگ کہتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر نابیہ طارق کا کہنا ہے کہ حمل کے چھ ماہ میں واٹر بیگ لیک ہونے میں عورت کو مس کیریج کے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر نابیہ کے مطابق ’واٹر بیگ اگر حمل کے 24 ہفتے سے پہلے لیک کر جائے تو اس کو بچے کی زندگی کے لیے اچھا نہیں سمجھا جاتا اور حمل کے ضائع ہونے کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ ساتویں ماہ یا اس کے بعد واٹر بیگ اگر معمولی لیک ہو تو دوا اور علاج کے ساتھ ٹھیک ہو سکتا ہے تاہم اگر پورا پانی لیک کر جائے تو بھی فوری ڈلیوری نہیں ہوتی۔‘
’اس لیے ضروری ہے کہ حاملہ عورت کو ایک ایسے اچھے ہسپتال لے جایا جائے جہاں قبل از وقت پیدائش والے بچوں کی کیئر کے لیے آکسیجن اور وینٹیلیٹر کی سہولیات والی نرسری موجود ہو تاکہ بچے کی جان بچائی جا سکے۔‘
حمل ضائع ہونے سے عورت کی تولیدی اور ذہنی صحت کیسے متاثر ہو سکتی ہے؟
ارم عمرکا کہنا ہے کہ 14 سال بعد خوشی کے ملتے ملتے رہ جانے کے صدمے نے ان کو جذباتی طور پر بھی بہت متاثر کیا۔
’حالیہ پریگنینسی میں میرا بہت سا خون ضائع ہونے کے باعث میں جسمانی طور پر کافی کمزور ہو گئی ہوں لیکن جسمانی سے زیادہ میں ذہنی دباؤ کا شکار ہوئی ہوں۔ حمل کے دوران تین ماہ گزرنے کے بعد مجھے لگتا تھا کہ میری پریگنینسی اب محفوظ ہے لیکن اب مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میرے ساتھ کیا ہو گیا تاہم ان لمحات میں میرے شوہر نے مجھے بہت سمجھایا اور میرا ساتھ دیا۔‘
ارم کا کہنا ہے کہ ہارمونز ڈسٹرب ہونے سے عورت کی صحت بہت متاثر ہو جاتی ہے۔
’ایک جانب بہت زیادہ خون کا ضیاع اور ساتھ ہی ماہواری کا نظام بھی متاثر ہو جاتا ہے۔ دماغی سٹریس ہو جاتا ہے۔ دوائیوں کے سائیڈ ایفیکٹ ہو جاتے ہیں، جلد پر دانے اور دوسرے مسائل ہو جاتے ہیں۔‘
دوسری جانب اپنے ساتویں حمل میں بہت زیادہ خون بہہ جانے سے عالیہ کو بھی خون کی کمی، کمر میں مستقل درد اور عمومی کمزوری کا سامنا رہا ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر نابیہ طارق نے بتایا کہ پاکستان میں ماں بننے والی خواتین کی اموات کی ایک بڑی وجہ مس کیریج بھی ہے، بچہ ضائع ہو جاتا ہے، بلیڈنگ کے ساتھ انفیکشنز ہو جاتے ہیں اور یہ اس انتہا تک جا سکتا ہے کہ ماں اپنی جان سے چلی جائے۔
’اگر اس کے بعد عورت کی صحت کی درست طریقے سے دیکھ بھال نہ کی جائے تو اس کو بار بار انفیکشنز کے شکار ہونے کا خطرہ اور خون کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔ ڈپریشن، مایوسی، دوبارہ بچہ ضائع ہونے کا خوف ان کی ذہنی صحت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کو بعض اوقات اس سے سنبھلنے کے لیے کاؤنسلنگ اور علاج کی ضرورت درپیش ہو جاتی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ جب خواتین کے بچے ضائع ہوتے ہیں تو انھیں اپنے عزیزوں کی جانب سے یہ بھی سُننے کو ملتا ہے کہ ’اس میں (خاتون) ہی کوئی خرابی یا نقص ہے جب ہی بچہ ضائع ہوا‘ تو ہمیں اس رویے کو بدلنے کی شدید ضرورت ہے۔ اگر فیملی اور گھر والے تعاون کریں اور رویہ مثبت رکھیں تو عورت جلد ریکور ہونے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔‘
ڈاکٹر نابیہ کے مطابق ایک حمل ضائع ہونے کے بعد اگلا حمل ٹھہرنے کے درمیان اوسطً چھ ماہ کا وقفہ ہونا چاہیے تاکہ اس دوران ماں کی جسمانی اور ذہنی صحت ٹھیک ہونے میں مدد ملے اور وہ دوبارہ صحت مند ہو سکے۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی