مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شادی کو سال ہو گیا، ابھی تک بچہ کیوں نہیں پیدا ہوا؟||سمیرا راجپوت

کیا دنیا میں اس سے زیادہ ذاتی معاملہ کوئی ہو سکتا ہے؟ لیکن اس کے باوجود لوگ شادی شدہ جوڑے کی زندگیوں میں ٹانگ اڑانے سے باز نہیں آتے۔

سمیرا راجپوت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کی آبادی پچھلی تین دہائیوں میں دگنی ہو کر 22 کروڑ کے قریب پہنچ گئی ہے، جس کے بعد پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے۔

پاکستان میں 4.45 فیصد لوگ بیروزگار ہیں اور ملک میں افراط زر پونے 11 فیصد ہے، جو آئے روز بڑھ رہی ہے۔ اس کی یقینیاً اور وجوہات بھی ہیں لیکن ایک بڑی وجہ آبادی کا بےہنگم طریقے سے بڑھنا ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر حالیہ مردم شماری کے بعد بجائے اس پر بات ہوتی کہ آبادی کا یہ عفریت ملک کی وسائل کو کس طرح ہڑپ کر رہا ہے، اور اس پر قابو پانے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جاتے، الٹا تمام تر بحث کا محور یہ ہے کہ فلاں شہر اور فلاں صوبے کی آبادی کم کیوں ہے، اور فلاں کی زیادہ کیوں ہے۔

اس ساری صورت حال میں ’بچے دو ہی اچھے‘ کا فارمولا بھی کچھ لوگوں کے لیے کارآمد دکھائی نہیں دیتا لیکن پھر بھی جہاں دیکھو وہاں ایک ہی چیز کا رونا ہے کہ ’بچہ کیوں نہیں پیدا کر رہے؟‘

غم کا موقع ہو یا خوشی کا کسی کے سامنے میت پڑی ہو یا شہنائیاں بج رہی ہوں، کچھ مرد و خواتین ایسے ہوتے ہیں جن کو کو اس ماحول سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ان کی زندگی کا واحد مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ اس بات کی ٹوہ لگائیں کہ جس کی نئی نئی شادی ہوئی ہے اس نے اب تک بچہ کیوں نہیں پیدا کیا۔

اگر شادی کو سال دو سال ہو گئے تو سمجھ لیجیے کہ لوگوں کے نزدیک پانی سے گزر چکا ہے۔ ان کے سوال کرنے کا طریقہ اور مشورہ دینے کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ اگر یہ شادی شدہ جوڑا اور انتظار کرے گا تو شاید اسے کبھی بچے کی صورت دیکھنا نصیب نہیں ہو گی۔

خاوند کو تو شاید کم ہی کوئی کچھ کہتا ہو گا، مشوروں اور نصیحتوں کا بیشتر وقت نشانہ بیوی ہی بنتی ہے: ’دیکھو ایسا کرو اپنے ٹیسٹ کروا لو، کہیں تمہیں کوئی مسئلہ تو نہیں۔ اگر کوئی مسئلہ ہے تو بروقت علاج کروا لو، عمر گزر گئی تو بیٹھی رہ جاؤ گی۔‘

پھر وہ ہمدردی سے کہتے ہیں: ’ساری دنیا بچے پیدا کرتی ہے، تم فضول میں لیٹ کر رہی ہو، بچے نہیں ہوں گے تو کل کو پھر دنیا باتیں کرے گی ۔ ایک کر لو تاکہ لوگوں کے منہ بند ہو جائیں۔‘

اور جب ایک بچہ پیدا ہو جاتا ہے تب بھی یہ مشورے بند نہیں ہوتے: ’ایسا کرو جوڑی ملا لو، بھائی بھائی کا بازو ہوتا ہے۔‘

اور اگر جوڑی بھی ملا لی جائے تو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ ’ایک بچہ اور کر کے بس ختم کر دو اور سکون سے اپنی زندگی انجوائے کرو۔‘

یہ سوال صرف آپ کی ذات تک نہیں رکتے، آپ کے گھر والوں کو بھی انہی سوالات کے ذریعے ٹارچر کیا جاتا ہے۔ ’ہماری بیٹی کا تو جاتے ہی بچہ ہو گیا، آپ کی کا کیوں نہیں ہو رہا؟ ایسا کریں اسے ہماری والی ڈاکٹر کو دکھا دیں۔ میں تو اس سے آپ کی بیٹی کا کیس بھی ڈسکس کر آئی ہوں۔‘ اور کیس کی ڈیٹیلز کیا ہیں کہ شادی کو دس ماہ گزر گئے ہیں اور بچہ نہیں ہو رہا۔

کیا دنیا میں اس سے زیادہ ذاتی معاملہ کوئی ہو سکتا ہے؟ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ جوڑا غریب کوشش کررہا ہو لیکن بچہ ہو نہ رہا ہو؟ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ زندگی گزارنے کے بارے میں اس کے کچھ اور مقاصد ہوں؟ کیا یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ ایک اور جان دنیا میں لانے سے پہلے اس کی بہتر زندگی کا انتظام کر رہا ہو؟

آمنہ احسن جو ہاؤس وائف ہونے کے ساتھ ادیبہ بھی ہیں، کہتی ہیں کہ ’میری شادی کو نو برس ہونے والے ہیں اس تمام عرصے میں جب بچے کے بارے میں مجھ سے بار بار سوال کیا گیا تو میرے لیے یہ سوال بہت پریشان کن تھا۔ اب جب کافی وقت گزر گیا ہے تو لوگ اس طرح بات کرتے ہیں جیسے وہ مجھ پر ترس کھا رہے ہوں کہ کوئی بات نہیں ہو جائے گا یہ ہمارے بچے بھی تمہارے ہی ہیں جو میری پریشانی میں مزید اضافے کا باعث بنتا ہے۔‘

آمنہ مزید  کہتی ہیں، ’لوگ مجھے پوچھتے ہیں کہ بچے ہو نہیں رہے یا تم خود نہیں پیدا کر رہیں؟‘ میں سمجھتی ہوں یہ میری مرضی ہے، یہ سوال ہونا ہی نہیں چاہیے۔ کسی بھی شخص کا ہمارے اس ذاتی معاملے میں کوئی عمل دخل نہیں ہے اور لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے۔‘

 ڈاکٹر سدرہ اختر جو کلینکل سائیکالوجسٹ ہیں، اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ہمارے ہاں تو شادی ہوتے ہی جوڑوں پر سوشل پریشر شروع ہو جاتا ہے۔ جن شادی شدہ جوڑوں کی میں کاؤنسلنگ کر رہی ہوں ان میں ایک بات مشترک ہے کہ شادی شدہ جوڑا خود بچہ پیدا نہیں کرنا چاہ رہا ہوتا، لیکن معاشرے اور خاندان کا دباؤ ان پر اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ اس بارے میں سوچنے لگتے ہیں تب تک معاشرہ انہیں اتنا پریشرائز کر چکا ہوتا ہے کہ وہ ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں جس کے باعث وہ کوشش بھی کرتے ہیں تو حمل ٹھہرنا مشکل ہوجاتا ہے۔‘

معاشرتی رویے کے بارے میں بات کرتے ہوئے سدرہ کہتی ہیں کہ وہ خود بھی تین برس سے شادی شدہ ہیں اور بچہ نہ ہونے کی اس پریشانی سے گزر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ہاں عمومی تاثر ہی یہی ہے کہ شادی ہو، بچے ہوں، ان کی شادی ہو، پھر ان کے بچے ہوں، یہی زندگی ہے اور جس کی ایسی زندگی نہیں ہے اس پر دنیا تنگ کر دی جاتی ہے اور اب تو خواتین ہی نہیں مرد بھی اس دوڑ میں پیش پیش ہیں۔‘

ایک اہم نکتے کی بھی سدرہ نے نشاندہی کی کہ اگر مرد حضرات پر بچہ پیدا کرنے کا پریشر ہو تو وہ مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کے باعث بچہ پیدا ہونے میں مزید تاخیر ہو جاتی ہے۔ بطور سائیکالوجسٹ ایسے حضرات کے لیے وہ یہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک قدرتی عمل ہے جس میں جلد بازی اور ضرورت سے زیادہ نفسیاتی دباؤ حالات بگاڑ سکتا ہے، لہٰذا لوگ جو بھی کہہ رہے ہیں انہیں کہنے دیں، اپنی زندگی کا یہ پہلو ذاتی مشاورت سے طے کریں اور معاشرتی دباؤ سے جتنا ہو سکے دور رہیں۔‘

یہ بھی پڑھیں

حیات بلوچ کی ماں کے بے بس آنسو ۔۔۔سمیرا راجپوت

پاکستان میں میریٹل ریپ سے متعلق قانون ۔۔۔سمیرا راجپوت

وزیرستان کی خاتون چھاتی کے کینسر سے جنگ جیت گئی ۔۔۔سمیرا راجپوت

سمیرا راجپوت کی دیگر تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: