دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مردوں کے لیے بھی سوچیے!|| شمائلہ حسین

شدت پسندی ہر نظریے ہر خیال اور معاملے کو الجھا دیتی ہے۔ پھر چاہے وہ مذہب ہو یا جدید معاشروں کے نظریے جو اپنے کٹر پن کی وجہ سے خود ان کے ماننے والوں کو بھی کئی بار انگشت بدنداں چھوڑ جاتے ہیں۔

شمائلہ حسین 

شدت پسندی ہر نظریے ہر خیال اور معاملے کو الجھا دیتی ہے۔ پھر چاہے وہ مذہب ہو یا جدید معاشروں کے نظریے جو اپنے کٹر پن کی وجہ سے خود ان کے ماننے والوں کو بھی کئی بار انگشت بدنداں چھوڑ جاتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ ہماری فیمنزم کے ساتھ ہورہا ہے۔
بات شروع ہوئی تھی تعلیمی، سماجی ، معاشی اور سیاسی مساوات کی لیکن اب اس کا رخ عجیب شدت پسند خواہشات کی طرف موڑا جانے لگا ہے ۔
کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ میری ہم آواز بہنیں اب اپنا ایک الگ جزیرہ بنا کر ہی دم لیں گی جو ان کے دماغ کے کراچی میں کہیں اونگھ رہا ہے، اور اس میں یہ ساری دنیا کے مرد لے جا کر چھوڑ دیں گی یا پھر خود جا بسیں گی۔
مرد مخالف بیانات کی جو لہر پچھلے ایک دو برس میں چلی ہے اسے دیکھتے ہوئے بہت گریس مارکس دینے کے باوجود بھی سب کچھ سمجھ سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔
ان باتوں کی وجہ سے عام طور پر جو منشور سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے۔
آج کی عورت کیا چاہتی ہے؟
بالکل وہی جو مرد کرتے ہیں۔ یعنی گالم گلوچ، بدتمیزی ، سگریٹ نوشی، راتوں میں دیر تک بلا وجہ گھر سے باہر پھرنے کی آزادی۔
مغرب میں تو یہ باتیں اور بھی شدت اختیار کر گئی ہیں۔ نو برا موومنٹ(زیر جامے نہ پہننے کی تحریک)، دیواروں پر خون (ماہواری) سے بھرے پیڈ چپکانے کی تحریک اور اسی سے ملتی جلتی دیگر باتیں۔
اس کے برعکس ہم خود مردوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تمیز دار ہوں۔ وہ گالی نہ دیں، مار کٹائی نہ کریں، سگریٹ نہ پئیں اور شراب کو تو چھوئیں بھی نہ۔ وہ اتنے شریف النفس ہوجائیں کہ اپنی پتلون میں انڈرویئر پہنے بغیر باہر نکلنے کی سوچیں تو شرم سے لال ہوجائیں۔
شاید ہم چاہتے ہیں کہ جنسی آزادی بھی اب ساری کی ساری عورتوں کو ہی ملے اور مرد ایسی ہر خواہش اور آزادی کو تج دے کیونکہ بہرحال عورت کے ’نومطالباتی اختیارات‘ کا تقاضا یہی ہے کہ مرد مکمل طور پر انہی جیسی ایک عورت ہوجائے، یعنی وہ عورت جو مرد معاشرے کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے نکلی ہے، چاہے بعد میں پھر یہ مرد کسی مادرسری سماج میں اپنے حقوق کی جنگ لڑتا ہوا دکھائی دے۔
یہ سب مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ آپ انڈین، پاکستانی اور دیگر سوشل میڈیا فورمز پر موجود فیمنزم کے جھنڈے تلے بنی شارٹ اور لانگ موویز کو ہی دیکھ لیں، سوائے ایک دو کے باقی سب کے اندر لڑکیوں کو ایسے ہی خواب بنتے دکھایا جاتا ہے کہ جن میں وہ سڑک پر چلتے لڑکوں کو چھیڑیں، سیٹیاں بجائیں ، گھور سکیں اور انہیں بھی ایسا ہی غیر محفوظ محسوس کروا سکیں جیسا وہ خود کرتی ہیں۔
آپ کہیں گے یہ تو دیکھنے والوں کو احساس دلانے کے لیے بنائی جاتی ہیں کہ عورتوں کو کیسا محسوس ہوتا ہے۔
لیکن احساس دلانے اور انتقامی جذبے کا اظہار کرنے میں پھر کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ کہا جا سکتا ہے کہ چند ایک موویز یا ڈراموں کو بنیاد بنا کر بات نہیں کی جا سکتی۔
لیکن وہی بات، یہاں بھی اصل زندگی کے مشاہدات کام آتے ہیں کہ نئی نئی جوان ہوتی نسل میں یہ جذبہ آزاد ہونے سے زیادہ انتقامی بنتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ کیا یہ واقعی عورت کے لیے کسی محفوظ معاشرے کا ماڈل ہے؟
یعنی ایسا معاشرہ جس میں عورت اپنی کٹھ پتلی جیسی حیثیت سے چھٹکارا پائے تو مرد کو اس منصب پر دھکیل دے؟ توازن تو دونوں صورتوں میں نہیں بن پایا۔
عورت کی خودمختاری کے معاملات کے ساتھ بھی عجیب طرفہ تماشا ہوا کہ فیمنزم ، عورتوں کے حقوق اور سب برابر برابر کے چکر میں بھی ہم عورتیں ہی زیادہ دھنستی جا رہی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں مردوں کے ذمے گھر سے باہر والے جو کام پڑتے ہیں انہیں بھی اکثر اوقات وہ طوہاً کرہاً ہی کرتے ہیں۔ اب عورتوں کو اختیار دینے کے دکھاوے میں ورکنگ وومین کےسر پر گھر سے باہر کے کام بھی لاد دیے گیے اور گھر کے اندر کے کام بھی کسی طرح کم ہونے میں نہیں آتے۔
یوں دوہری بلکہ تہری ذمہ داری کے ساتھ دن رات کام کرتی عورتوں نے اپنے گھر کے مردوں کو مزید آرام طلب بنا دیا۔
بتائیں کیا ایسا نہیں ہے؟
جتنے مرضی سروے دیکھ لیں، پاکستانی گھروں میں موجود بیٹیاں زیادہ اچھی پوزیشنز لاتی ہیں، اچھی جابز، گھر داری اور باہر داری سب میں طاق ہوتی جاتی ہیں لیکن لڑکے سو میں سے دو تین فی صد ہی کسی اچھے معاشی اور سماجی مقام تک پہنچ پاتے ہیں۔
بیٹیوں کی معاشی اور سماجی خودمختاری ہمارے فیمنزم کا اصل مقصد ہونا چاہیے لیکن ایسا کرتے کرتے اگر ہم اپنے گھر کے مردوں کو اس قدر آرام پسند بناتےجائیں گے تو یہ بھی ہمارے ساتھ ہی ظلم ہے۔
اس ’مردانہ وار جدوجہد‘ کا انجام یہی دکھائی دیتا ہے کہ نصف صدی بعد یہی مرد آج کی عورت کی طرح آزادی مارچ کرتے اور عورت کے مظالم سے نجات کا مطالبہ کرتے دکھائی دیں گے۔
گرم خون کو ہر نعرہ بہت دلفریب لگتا ہے، یہ والا تو ہے بھی، لیکن سوچیے کہ آپ اسے کس حد تک نبھانا افورڈ کر سکتے ہیں؟ اپنے لیے تو ہر کوئی سوچتا ہے، آنے والے مردوں کے لیے بھی سوچیے!

About The Author