سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیراعظم عمران خان کاکہنا ہے کہ کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کے لئے فوج کو مدد کے لئے کہا ہے۔ انہوں نے کہا پولیس و رینجرز کے علاوہ فوج سڑکوں پر آئے اور عوام کو ایس او پیز پر عمل کروائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اب کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کے لئے سختی کرے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر عوام نے احتیاط نہ کی تو چند دنوں میں پاکستان میں بھی وہی حالات ہوسکتے ہیں جو اس وقت بھارت میں ہیں۔ وطن عزیز میں کورونا وبا کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافے کے ٓذمہ دار عوام خود ہی ہیں جو کورونا کی مہلک وبا کو سنجیدگی سے لینے کو ہی تیار نہیں اور آج جب کورونا کی تیسری لہر کا قہر جاری ہے اور اب یہ رپورٹس بھی سامنے آرہی ہیں کہ وطن عزیز بالخصوص پنجاب میں 5میں سے ہر ایک شخص کورونا میں مبتلا ہونے کی ہولناک خبریں تواتر کے ساتھ سننے کو مل رہی ہیں مگر مجال ہے کہ ہماری عوام ذرا برابر بھی کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ عوام کی لاپروائی، غیر ذمہ داری اور وطن عزیز کو ایک ناقابل تلافی نقصان کی طرف تیزی سے دھکیل رہی ہے لیکن افسوس کہ ہم ایک جاہل، غیرذمہ دار قوم کی طرح کورونا کو آج بھی مذاق اس حقیقت کے باوجود سمجھ رہے کہ پچھلے 10دنوں میں مسلسل 100سے زائد لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھورہے ہیں جبکہ مثبت کیسز کی شرح میں بھی ہولناک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ بہاولپور 38فیصد مثبت کورونا کیسز کی شرح کے ساتھ پہلے نمبر ہے جبکہ مردان، راولپنڈی، لاہور، فیصل آباد، پشاور، ملتان اور کراچی بھی کچھ خاص پیچھے نہیں ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب کورونا کی تیسری لہر کی تباہ کاریاں تیزی کے ساتھ بڑھتی جارہی ہیں ایسے میں وزیراعظم کی قوم سے اپیل کہ احتیاط ہی کافی نہیں کیونکہ عوام کا غیرذمہ دارانہ کردار پاکستان کو تیزی سے خودکشی کی جانب دھکیل رہا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں کورونا کی تباہ کاریاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ ایک دن میں سوا 3لاکھ نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ انڈیا میں مسلمانوں کی بستی میں بھارتی پولیس مسلمانوں سے درخواست کررہی ہے کہ وہ اپنے اللہ سے دعا مانگیں کہ کورونا وبا جلد ختم ہوجائے اور ساتھ ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں یقین ہے کہ آپ کا اللہ بہت جلد سنتا ہے۔ اور ایک ہم پاکستانی ہیں جو وبا سے نمٹنے کے لئے کسی قسم کے اقدامات کو خاطر میں ہی نہیں لارہے۔ پاکستان کی بڑی تعداد میں عوام آج بھی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ کورونا یہودوہنود کی سازش ہے۔ 21ویں صدی میں اگر لوگ ایسا سوچتے ہیں تو ان کی سوچ پراب 3حرف بھیجنا ہی کافی نہیں کیونکہ ان کی لاپروائی کا خمیازہ دوسروں کو کسی صورت بھگتنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ آج بھارت کی صورتحال ایسی ہے کہ قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں میں کوویڈ سے مرنے والوں کی آخری رسومات کے لئے سٹیچر، ہسپتالوں کے باہر مرنے والوں کے غمزدہ لواحقین سانس لینے کے لئے بے چین مریضوں کو لے جانے والی ایمبولینسوں کی لمبی قطاروں اور لاشوں سے بھرے مردہ خانے نظر آتے ہیں یہی نہیں بلکہ ہسپتالوں اور ان کی راہداریوں میں مریضوں کا جمِ غفیر ہسپتالوں میں بیڈز، ادویات، آکسیجن اور ضروری سامان تک کم پڑتا جارہا ہے۔ خدانخواستہ پاکستان میں بھی ایسی صورتحال جنم لے، عوام کو ہوش کے ناخن لینا چاہئیں کیونکہ پاکستان کا لاغر صحت کا نظام کسی طور بھی ایمرجنسی یا مزید دبائو کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لئے عوام کو یہ سمجھناچاہیے کہ کورونا کی تیسری لہر پہلی دو کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے۔حکومت چیخ چیخ کر بتارہی ہے کہ ہسپتالوں کے 90فیصد آکسیجن کے سلنڈرز استعمال میں ہیں۔ ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز اور آکسیجن کے آلات کم سے کم ہورہے ہیں، اموات کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ ہورہاہے۔
یوں تو کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے لیکن کورونا کی تیسری لہر نے دنیا کے ساتھ ہمارے خطے کے ممالک اور ان کی حکومتوں کو بھی ہلاکر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا حکومت سے یہ سوال کہ دنیا میں کورونا وبا کنٹرول ہورہی ہے جبکہ پاکستان میں اس میں تشویشناک حد تک اضافہ کیونکر ہورہا ہے تو یہی کہیں گے کہ خدارا یہ وقت سیاست برائے سیاست یا تنقید برائے تنقید کا نہیں بلکہ مل جل کر اس مشکل سے نکلنے کا ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ حکومت کی طرف سے کورونا سے نمٹنے کے لئے عوام کو احتیاط کی بار بار تنبیہہ کی گئی ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ حکومت کی طرف سے کورونا کنٹرول کے اقدامات تاحال زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر عوام کی جانب سے غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا جارہاہے تو حکومت پر لازم ہے کہ وہ قانون کو حرکت میں لائے۔خاص طور پر اس وقت جب ماہرین صحت کی جانب سے پہلے ہی یہ کہا جاچکا ہے کہ وائرس آسانی سے اور جلدی جان نہیں چھوڑے گا تو ایسے میں حکومت پر لازم تھا کہ وہ ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے کوئی قانون سازی کی ضرورت کو محسوس کرتی مگر افسوس کہ اجلاس در اجلاس کے علاوہ کسی بھی سٹیک ہولڈر نے اس وبا کو سنجیدگی سے اس حقیقت کے باوجود تاحال نہیں لیا ہے کہ اب ہر 10گھروں میں سے ایک نہ ایک شخص اس وبا کا شکار ہے۔ موت کو اتنا قریب سے دیکھنے کے باوجود بھی عوام کی عدم سنجیدگی اور لاپروائی پر تف ہی کہا جاسکتا ہے۔ کورونا وبا کی شرح میں ہولناک اضافے نے ملکی معیشت کو مزید تباہ حالی کے قریب پہنچادیا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہم ایک خودغرض قوم ہیں بلکہ ہمیں قوم کہنا ہی غلط ہے اسی لئے تو آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کورونا کی شرح میں ہولناک تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ ایک طرف ہمارا غریب دوست وزیراعظم ہے جو بار بارنچلے طبقے کی بات کرتا ہے اور لاک ڈائون کو غریب کا قتل سمجھتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔
اگر وطن عزیز میں کورونا کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے تو حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانے کی بجائے پہلے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اب جبکہ وزیراعظم نے کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کے لئے فوج کو سڑکوں پر طلب کرلیا ہے تو ضروری ہے کہ دیگر سول ادارے بھی حرکت میں آئیں کیونکہ بھارت میں کورونا کے دلخراش واقعات دیکھ کر روح کانپ اٹھتی ہے اس لئے ہمیں اپنے لئے اپنے پیاروں کی حفاظت کے لئے کورونا ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد نہ صرف خود بلکہ دوسروں سے بھی کروانا ہوگا کیونکہ یہ ہمارے پیاروں کی زندگی کا سوال ہے۔ یہاں میڈیا، سیاسی جماعتوں کوبھی اپنی اس قومی ذمہ داری کو سمجھنا چاہیے۔ ہم ان سطور کے ذریعے حکومت سے پہلے بھی اپیل کرچکے ہیں کہ وہ کورونا ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کروانے کے لئے پولیس، رینجرز، فوج کے علاوہ عوامی نمائندے چاہے وہ ایم پی ایز ہوں، ایم این ایز یا بلدیاتی نمائندے سب کے ذمہ کام لگائے اور ان سے اپنے اپنے علاقوں میں عوام سے کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کے لئے مدد طلب کرے کیونکہ اگر کورونا کو شکست دینی ہے تو سب کواپنے اپنے حصے کی شمع جلانا ہوگی اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو بھی کورونا ایس او پیز کی دھجیاں اڑانے والوں کے خلاف سختی سے پیش آنا ہوگاتاکہ دوسرے اس سے عبرت پکڑلیں کیونکہ اگر اب بھی نرمی برتی گئی تو خدانخواستہ بڑا سانحہ جنم لے سکتا ہے اس سے پہلے کہ معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچیں اور ہمارے پاس سوائے پچھتاوے کے کوئی دوسرا راستہ نہ بچے، ملک کے 22کروڑ عوام کو اپنے والدین، بچوں، بہن بھائیوں کی صحت کے بارے میں سوچنا چاہیے کیونکہ اسی انفرادی فعل کی آج ان کے پیارے وطن کو ضرورت ہے۔ احتیاط کیجئے، ماسک پہنیے، سماجی فاصلہ رکھیں اور غیرضروری تقاریب اور سفر سے اجتناب کیجئے اسی میں آپ کی صحت اور بقا ہے اور ملکی ترقی کا راز پنہاں ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر