حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بطور سماج ہم جہاں کھڑے ہیں یہ کوئی قابل فخر مقام ہرگز نہیں۔ ہمارے دعوے بہت ہیں، مثلاً سچا مسلمان ہونے کادعویٰ، اپنے اپنے عقیدے سے مخلص ہونے، قومی شناخت کو حرفِ آخر سمجھنے کا دعویٰ۔
بجا یہ سارے دعوے درست ہوں گے لیکن کسی دن چند ساعتیں نکال کر ٹھنڈے دل سے غور کیجئے کہ جو کچھ ہمارے چار اور ہورہاہے کیا اس کی تعلیم اسلام سمیت دیگر ادیان نے دی۔
کیا جو عقیدہ ہم رکھتے ہیں وہ ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے یا پھر ہماری قومی شناخت یہی کہتی ہے کہ چونکہ دو روپے کی چیز پانچ روپے میں فروخت کرنے والا میری قوم سے تعلق رکھتا ہے اس لئے خاموشی قومی مفاد میں ہے۔
ملاوٹ کرکے معاشرے میں زہر پھیلانے والے کا تعلق ہمارے عقیدے سے ہے اس لئے آواز اٹھانے کا مطلب اپنے ہم عقیدہ کو نقصان پہنچانا ہوگا۔
ذخیرہ اندوز اور ریاکار کا تعلق چونکہ میرے مذہب سے ہے اس لئے میں خاموش رہوں؟
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جس دن ہم اس سوال پر غور کرنے کی جرات حاصل کرلیں گے ہم ایک ایسے سماج کی تشکیل کی طرف پہلا قدم اٹھاپائیں گے جو سماج کہلانے کا حقدار ہو اسے دیکھ کر کوئی یہ نہ کہے کہ یہ تو آدمیوں کا جنگل ہے۔
کبھی غور کیجئے کہ جن اقوام مغرب کا نام سنتے ہی ہماری تیوریاں چڑھ جاتی ہیں اور ہم ان کے معمولات زندگی کے حوالے سے سے ایسے دعوے کرتے ہیں جو آنکھ دیکھے سے عبارت ہوں حالانکہ ان کے نام اور تصاویر ہم نے ذرائع ابلاغ سے جانے تھے۔
ان اقوام کے ہاں اپنے مذہبی اور ثقافتی ایام میں روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں کم کردی جاتی ہیں تاکہ معاشرے کے نچلے طبقات کے لوگ بھی خریداری کرسکیں۔ 35سے 50فیصد کم نرخ تو عام بات ہے۔ کہیں کہیں 60فیصد رعایت پر اشیاء بھی فروخت ہوتی ہیں۔
ہمارے ہاں کبھی لوٹ سیل لگے تو تجربہ کرکے دیکھ لیجئے وہ ’’لوٹ سیل‘‘ ہی ہوتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ پسندیدہ امت کہلانے کے شوق بلکہ جنون کا شکار امت کے پاس وقت ہو تو دو لمحہ گریبان میں جھانکر کر بتایئے کہ صرف اشیائے خورونوش کی یکم رمضان سے قبل یہی قیمت تھی جو یکم رمضان کے بعد ہے؟
معاف کیجئے گا سوال کڑوا ہے۔ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر خود فریبی کا شکار ہیں۔
’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘۔ ذرا گھر کا دروازہ کھول کر گلی میں جھانک کر دیکھیں۔ دکان اور دفتر سے باہر نکل کر راستوں کی حالت دیکھ لیجئے ہر طرف کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ہیں۔
پچاس فیصد ایمان کی تو ہم نے یہ حالت بنادی باقی کا حال بھی درون سینہ راز نہیں۔
سرف سے بنا دودھ، برادہ ملی مرچیں، چنوں کے چھلکے سے بنی پتی، دودھ میں پانی کی ملاوٹ، پانی مارکہ گوشت، کم تولنا، جھوٹ بولنا، بات بات پر قسم کھانا، کیا یہ سب ہمارے چار اور معمول کی بات نہیں؟
غور کرنے کے معاملات بہت ہیں۔ سال میں تین بار منافع خوری کا سیلاب آتا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ پھر عیدالفطر پر اور تیسری بار عید قرباں پر۔ باقی ماندہ عرصہ میں بھی چھوٹے موٹے سیلاب آتے رہتے ہیں۔
اب بتائیں کہ دعویٰ ٔ عاشقی اور زعم پسندیدہ امت دونوں کا کیا کرنا ہے؟
پچھلے سال پاکستان بھر کے ساتھ دنیا بھر میں بدترین کورونا کی دو لہروں نے معمولات زندگی درہم برہم کرکے رکھ دیئے ایسے میں ان معاشروں میں جنہیں ہم کفرو بے راہ روی کا شکار قرار دیتے ہیں، عام دکان سے لے کر بڑے سٹورز تک مجال ہے کسی نے ذخیرہ اندوزی یا منافع خوری کی ہو
ہاں الحمدللہ ہم نے ٹماٹر چار سو روپے کلو فروخت کئے۔
یہ صرف ایک مثال ہے۔ مارچ 2020ء سے دسمبر تک قیمتوں میں 120فیصد مجموعی طور پر اضافہ ہوا۔ مہربانوں نے سبز دھنیا تک تو تین سو روپے کلو فروخت کیا۔ ادرک چھ سو روپے تک فروخت ہوئی۔ دعویٰ اللہ معاف کرے ان میں ہم اتنے خودکفیل اور بڑبولے یں کہ ایسا تاثر دیتے ہیں کہ ہم نہ ہوتے تو نظامِ کائنات ہی نہ چل پاتا۔ یہ ہماری وجہ سے ہی چل رہا ہے۔
خدا کے بندو تمہاری وجہ سے نظام نہیں چل رہا بلکہ ہم اپنے اعمالوں اور کرتوتوں کی وجہ سے زمین پر بوجھ ہیں۔
گزشتہ روز ہمارے مفتیان دن مبین اور علماء نے ملک میں شٹرڈاون ہڑتال کی اپیل کی۔ ملک بھر میں جزوی طور پر شٹرڈائون رہا۔
آئیں ان مفتیان دین مبین و علماء سے ہاتھ باندھ کر درخواست کریں، قبلہ ایک دن مہنگائی، ملاوٹ، چور بازاری، منافع خوری، سود فروشی، بھائیوں کا گوشت کھانے سے اجتناب کی ہڑتال تو کرواکر دیکھائیں۔
اپیل کیجئے کہ صرف ایک دن ملاوٹ نہ کریں۔ پورا تولیں، زائد منافع نہ لیں، رشوت نہ کھائیں۔ یہ کام ایک دن ہی ہوجائے تو سمجھ لیجئے گا کہ آپ کی زبان و بیان میں تاثیر ہے۔ نہ ہوپائے تو حضور آپ بھی کوئی اور کاروبار تلاش کیجئے۔
معاف کیجئے گا اس تلخ نوائی پر مجھ سے ڈھکوسلے بازی نہیں ہوتی۔ ہمارا اصل مسئلہ یہی ہے کہ طمع کے گھاٹ پر سیراب ہوتے ہیں دعویٰ کرتے ہیں کہ آبِ زم زم پی رہے ہیں۔
بھائی کا گوشت رغبت سے کھاتے ہیں اور دعویٰ؟ چلیں چھوڑیں لوگ ناراض ہوجائیں گے، خوش رہیں آپ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر