دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لبیک احتجاج: عوام کسی غلط فہمی میں نہ رہیں||شرافت رانا

نبی ﷺ کی میراث علم ہے۔ علم حاصل کریں۔ بچوں میں علم اور شعور پیدا کریں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جنس یا کموڈٹی ایسی چیز جسے دوسرا خرچ کر لے۔ نہ بنیں اور نہ اپنے بچوں کو بننے دیں۔

کسی غلط فہمی میں نہ رہیں۔ آپ کے بچے اگر آج ریاست کے سامنے کھڑے ہیں اور تشدد کا سامنا کر رہے ہیں تو یہ اسی قسم کے غازی یا شہید ہیں جس طرح کے افغان جہاد کے شہدا تھے یعنی کسی بڑے عالم دین کا بیٹا یا کسی جنرل کا بیٹا شہدا میں شامل نہیں تھا۔ اگر آپ راج نیتی اور سیاست کے تنازعہ کو اپنی عینک سے دیکھ کر اس میں خرچ ہو رہے ہیں تو یہ آپ کی اپنی چوائس ہے۔

راج نیتی۔ حکمرانی۔ سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کے کھیل میں خرچ ہو جانا بے وقوفی اور حماقت کی انتہا ہے۔ نہ یہ شہادت ہے۔ نہ کامیابی اور نہ رسول مقبول ﷺ کو اس قربانی کی ضرورت ہے۔

دوسری طرف ہر حال میں حکومت یا اختیارات پر قابض لوگ اگر اپنے شہریوں کا قتل عام کرتے ہیں تو یہ محض اور محض نالائقی۔ حرام خوری اور کٹھور رویہ ہے۔ بلا شبہ احتجاج شائستہ اور معقول ہونا چاہیے۔ نعرے ایسے ہونا چاہئیں جن پر عمل کرنا مخالف۔ مخاطب یا صاحب اختیار کے ہاتھ میں ہو۔

علمائے کرام جدید علم سیاسیات اور ممالک کے مابین تعلقات کو بالکل نہیں جانتے۔ اور ان کی جہالت کے ایکسپوز ہونے کا یہ پہلا موقعہ نہیں ہے۔

شیخ الحدیث۔ شیخ الاسلام اور عثمانی خلافت کے مذہبی راہنما نے قرآن کی طباعت کو حرام قرار دیا تھا۔
پورے عالم اسلام میں کسی ایک جید عالم نے اس سے اختلاف نہیں کیا۔

کاغذی نوٹ پر پورے اسلام کے کبار کی رائے اس کے متصادم تھی۔ مگر سب غلط ثابت ہوئے۔ لاؤڈ سپیکر اور ٹیلی ویژن تو ابھی آپ کی آنکھوں کے سامنے کے تماشے ہیں۔

عالم وہ ہر گز نہیں ہے جس نے سولہویں صدی کا ایک مخصوص نصاب حفظ کر لیا ہو۔ علم کی نسبت عبادات سے نہیں دنیا اور دنیاوی افعال سے ہے۔ دنیا کے نظام کو سمجھنا علم ہے اور عالم وہی ہے جو اس وقت کے نظام کو مکمل طور پر سمجھتا ہو۔

نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کسی بھی مسلمان کو قبول نہیں۔ مگر دنیا میں 52 اسلامی ممالک میں سے ایک بھی آپ کی پوزیشن کو نہ قبول کر رہا ہے اور نہ حمایت کر رہا ہے۔ فرقہ ورانہ تعصب اور عقائد کو تسلیم کرنا، ریاست کے شہریوں کے مابین عقائد کی بنیاد پر تفریق، زمانہ حال کے چلن کے مطابق ناجائز اور ظلم ہے۔

ہمیں اپنے علمائے کرام کے رائے کو جدید دنیا کے علم کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھنا ہو گا۔
کہیں نہ کہیں بلکہ ہر جگہ۔ ہر مقام پر ہمارے دینی قائدین بالآخر غلط اور ناکام ہی کیوں قرار پاتے ہیں۔

نبی ﷺ کی میراث علم ہے۔ علم حاصل کریں۔ بچوں میں علم اور شعور پیدا کریں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جنس یا کموڈٹی ایسی چیز جسے دوسرا خرچ کر لے۔ نہ بنیں اور نہ اپنے بچوں کو بننے دیں۔
اسلام یا اسلامی طرز حکومت علما کی حکومت یا ان کے تصورات کے مطابق حکومت نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیے:

مقبول بیانیہ یا بنائی گئی پرسیپشن۔۔۔قانون فہم

قومی اردو میڈیا اور احساس محرومی۔۔۔قانون فہم

تاریخ بدل دینے والے سوشل سائنٹسٹ کے جنم دن پر۔۔۔ قانون فہم

سرے محل بینظیر کا تھا۔ آپ کو ننانوے فیصد یقین کیوں ہے؟۔۔۔قانون فہم

شرافت رانا کی مزید تحریریں پڑھیں

 

About The Author