شمائلہ حسین
اگر آپ کو کوئی اپنا آئیڈیل بنائے اور آپ کے نقش قدم پر چلنے کو کامیاب زندگی کی ضمانت سمجھے تو سونے پر سہاگہ ہو جائے۔ لیکن ہمارے نزدیک وہ زندگی، جسے کامیاب سمجھا جائے اس کا معیار کیا ہے؟ آپ کتابیں اٹھا کر دیکھیں، سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ویڈیو کلپس دیکھ لیں، جو جتنا امیر ہو گا اتنا ہی، اسے اتنا کامیاب سمجھا جائے گا۔ یعنی پیسہ، پیسہ اور صرف پیسہ۔ اس کے بعد اگر کوئی خوبی شامل کر لی جائے تو وہ پیسے کے ساتھ ساتھ ملنے والی شہرت ہے، چاہے وہ دراصل بدنامی ہی کیوں نا ہو۔
بل گیٹس، مارک زکر برگ، ٹیسلا گاڑیاں بنانے والے ایلن مسک، امیر ترین ایکٹرز اور اس سے ملتی جلتی بہت سی مثالیں ہیں۔ اپنے ملک میں آجائیں تو کامیاب اسٹوری کے طور پر ملک ریاض کا نام لیا جاتا ہے، جی جی یہ اپنے بحریہ ٹاؤن والے ملک صاحب!
اس کے مقابلے میں انسانیت کی خدمت کرنے والوں کا نام عظیم شخصیات کے طور پر تو پیش کیا جاتا ہے لیکن انہیں کامیاب شخصیات نہیں کہا جاتا۔ مرحوم عبدالستار ایدھی کو ہی لے لیجیے، انہیں عظیم شخص تو پکارا جاتا ہے لیکن کامیاب شخص ملک ریاض صاحب کو ہی کہا جاتا ہے۔ کسی قلم کار، کسی پرائیویٹ یا سرکاری ادارے کے ملازم کو تو اس فہرست میں شامل کرنا شاید ہی کبھی ممکن ہوا ہو۔
بات ہی کچھ ایسی ہے کہ تنخواہ دار آدمی چاہے ماہانہ دس لاکھ روپے ہی کیوں نہ لیتا ہو۔ مہینے کی پندرہ تاریخ کو اس کا اکاؤنٹ خالی ہو جاتا ہے۔ یہ میری بدگمانی کہہ لیجیے یا خوش گمانی کہ میرے نزدیک مہینے کی پانچ تاریخ کو اکاؤنٹ خالی ہو جانا فرض عین ہے۔ سرکاری نوکری کی آخری عیاشی اور فائدہ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی پنشن ہے۔ پھر سرکاری ملازمین میں بھی استادوں کا حال سب سے زیادہ قابل غور ہے۔ ان کا احترام پچھلی صدی کے اواخر تک تو کچھ نا کچھ بچ بچا گیا تھا، اب وہ بھی تو نہیں رہا۔
وہ کسی فیس بک صارف کا اسٹیٹس تھا کہ ’’پیار نہ پیسے، اللہ جی ایسے کیسے؟‘‘ تو بس استادوں کے ساتھ بھی یہ معاملہ ہے کہ ”اختیار نہ پیسے، اللہ جی ایسے کیسے؟‘‘
پھر اساتذہ کے ساتھ یہ استادی ہوئی کہ محدود مراعات اور تنخواہوں کے ساتھ زندگیاں گزار دینے والے اساتذہ شہرت پا بھی لیں تو ایک اچھے استاد اور کنگ میکر کے طور پر تو یاد کیے جا سکتے ہیں لیکن ان کی زندگیوں پر کامیاب انسان ہونے کا گمان بھی بہت کم کم کیا جاتا ہے۔
ساری عمر ذاتی گھر اور چھوٹی گاڑی کی جدوجہد میں گزار دینے والے سرکاری ملازمین کو کیسے کوئی آئیڈیل سمجھے اور ان کی زندگیوں کو کامیاب کہانی مان لے؟
یہ اور بات کہ لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس میں سرکاری ملازمت کو ہی انسان کی معراج تصور کر لیا جاتا ہے۔ یقیناً وہ بہت سے کم تعلیم یافتہ اور مشکل سے زندگی گزارتے لوگوں میں سے محنت کر کے سرکار کا ملازم ہونے کے درجے کو پہنچتا ہے۔ تو ان میں تو وہ ہیرو ہی ہوا لیکن پھر بھی دنیا کے معیارات کے حساب سے کامیاب اسٹوری نہیں بن سکتا۔
اپنے دوست احباب میں بھی دیکھ لیجیے! جس کے کار پورچ میں چار پانچ گاڑیاں ہوں، کسی اچھی سوسائٹی میں بڑا سا گھر ہو۔ بہترین کاروبار ہو تو بھائی صاحب کا ٹشن ہی کچھ اور ہو گا۔
اس کے مقابلے میں آپ کے پاس ایک بائیک ہو یا مہران گاڑی، کسی گزارے لائق ہاؤسنگ سوسائٹی میں کرایے کا مکان ہو، آپ بہت محنتی ہوں اور اپنا کام دل لگا کر کرتے ہوں، آپ کے احباب آپ کا احترام کرتے ہوں لیکن آپ کا وہ ٹشن پھر بھی نہیں ہو گا۔ کیوں کہ آپ کے پاس بوریاں بھر کر رکھنے کو پیسہ نہیں، آپ امیر ترین ایکٹر نہیں۔
نہایت معذرت کے ساتھ میں اپنے اور آپ کے متعلق عرض کرنا چاہوں گی، آج کی یہ حقیقت بیان کرنا چاہوں گی کہ ہم پاکستان میں کسی کا آئیڈیل نہیں ہو سکتے کیونکہ ہماری زندگی کامیاب اسٹوری کے طور پر پیش نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان میں زیادہ تر افراد اب صرف دولت کو ہی کامیابی کا معیار سمجھتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر