نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تحریک لبیک پہ پابندی سے کیا ہوگا؟||عامر حسینی

پاکستان بطور ریاست فرقہ پرستوں، جہادیوں، مذھبی جنونیوں ، مذھبی بنیاد پرستوں بارے یکساں پالیسی بنانے اور اس پہ مکمل عمل درآمد کے معاملے میں ہمیشہ بین بین رہا ہے-

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں مذھبی انتہاپسند اور عسکریت پسند تنظیموں پہ پابندی کا اقدام اکثر و بیشتر مذاق بنا رہا ہے اور کالعدم فرقہ پرست تنظیمیں اُسی نام سے یا نام بَدل کر کام کرتی رہی ہیں –
جنرل مشرف نے اپنے دور میں سپاہ صحابہ پاکستان اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پہ پابندی لگائی، دونوں تنظیمیں پابندی کے فوری بعد نئے نام سے سامنے آئیں اور 2002ء میں سپاہ صحابہ جماعت ملت اسلامیہ اور دوسری تحریک اسلامی کے نام سے الیکشن لڑنے میدان میں اتر گئیں، سپاہ صحابہ نے ایم این اے کی ایک اور پنجاب اسمبلی کی دو، کے پی کے کی ایک نشست پہ کامیابی حاصل کرلی اور مشرف سپاہ صحابہ کے ایم این اعظم طارق کا ووٹ لیکر جمالی کو وزیراعظم بنوانے میں کامیاب ہوئے – جبکہ کالعدم ٹی این جے متحدہ مجلس عمل کا حصہ بنی اور کے پی کے حکومت کا حصہ بنی –
سپاہ صحابہ سے ملت اسلامیہ اس سے اہلسنت والجماعت اور پھر راہ حق پارٹی، جمعیت اہلسنت والجماعت، سُنی رابطہ کمیٹی یہ سارے نام ایک ہی کالعدم جماعت کے ہیں جس کے سرپرست اعلی مولوی محمد احمد لدھیانوی، سربراہ اورنگ زیب فاروقی ہیں اور ان کا ایک رکن جھنگ سے ممبر پنجاب اسمبلی اور پی ٹی آئی کا اتحادی ہے _
کالعدم تنظیموں کے درجنوں لوگ فورتھ اشیڈول میں شامل ہیں بشمول اُن کی قیادت کے لیکن یہ سب کے سب نہ صرف فرقہ پرست سرگرمیوں فعال ہیں بلکہ آزادانہ کام کرتے ہیں –
لشکر طیبہ، حرکت الانصار/جیش محمد سمیت درجنوں نام نہاد جہادی تنظیموں کے لوگ کمیوفلاج ہوکر اب بھی سرگرم ہیں –
نیکٹا کے پاس اور وفاقی وزرات داخلہ کے پاس ایسے تمام مدارس کی تفصیل موجود ہے جو جہادی و فرقہ پرست سرگرمیوں میں ملوث ہیں لیکن ان کو سرکاری تحویل میں نہیں لیا گیا- فارن فنڈڈ مدرسے بند نہیں ہوئے –
"اچھے طالبان” آج بھی موجود ہیں اور اُن کو "سرپرستی” حاصل ہے –
ایسے میں تحریک لبیک پہ پابندی لگادینے سے کیا مُلک میں مذھبی انتہا پسندی کا خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی؟
ایک طرف کالعدم کالعدم ہوکر بھی کالعدم نہیں ہے اور دوسری طرف اعلانیہ ایسی شخصیات موجود ہیں جن کے پاس مذھبی جتھے ہیں اور وہ کم سن، نا بالغ، نوجوان ہندؤ اور مسیحی لڑکیوں کو اغوا کرکے اُن کو جبری تبدیلی مذھب پہ مجبور کرتے اور پھر کسی اپنے چیلے سے بیاہ دیتے ہیں – سندھ میں میاں مٹھو اور پیر سرجان ہندی ایسے ہی جتھوں کا پالن ہار ہیں – کے پی کے میں سابق آئی ایس آئی کا میجر عامر کے بنائے پنج شیری مدرسے ایسا ہی نیٹ ورک ہیں – کرم ضلع(سابق ایجنسی)، کوہاٹ، ہنگو، ہزارہ ڈویژن، بلوچستان میں رمضان مینگل جیسے لوگ یہ اب کے سب اس ملک میں مذھبی شدت پسندی کی آگ بھڑکانے والے کیوں روکے نہیں جاسکتے؟ ان کے پیچھے سرپرست کون ہیں؟ کیا یہ سوال لا ینحل ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں اللہ اکبر پارٹی، تحریک لبیک، راہ حق پارٹی کس قوت نے بنائی تھیں اور کن کے اشارے پہ یہ کھڑی تھیں؟
پاکستان بطور ریاست فرقہ پرستوں، جہادیوں، مذھبی جنونیوں ، مذھبی بنیاد پرستوں بارے یکساں پالیسی بنانے اور اس پہ مکمل عمل درآمد کے معاملے میں ہمیشہ بین بین رہا ہے-
ریاست نے توھین مذھب کے نام پہ قانون ہاتھ میں لینے والے ہجومی و بلوائی تشدد پسند گروہوں اور اُن کے لیڈروں کو قانونی راستےسے کیفردار تک نہیں پہنچایا بلکہ اُن کو یا تو متحارب حریف قتل ہونے دیا یا پھر خود ماورائے عدالت قتل کردیا، ایک حکومت نے گود لیا تو دوسری نے اُسے محدود کیا، تیسرے نے پھر ان کو اپنالیا-
حد تو یہ ہے کہ ضلعی سطح سے لیکر مرکز تک جو امن کیمیٹیاں ہیں اُن میں کالعدم اور فورتھ شیڈول لوگ شامل کیے جاتے ہیں گویا
میر بھی کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author