حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان اصل میں اپنے من کی آواز ہی سنتا ہے اور من کی آنکھوں سے چار اور کا مشاہدہ بھی کرتا ہے۔ سچل سرمستؒ کہتے ہیں
’’ہمیشہ دل کی آواز سنتا ہوں، سارے مشورے بھی اسی سے کرتا ہوں۔ اس دل میں جو مقیم ہے اس کے سوا دوسرا کون ہے صاف سیدھی راہ دیکھانے والا‘‘۔
ہم اپنے چار اور جو دیکھتے ہیں اس پر کڑھتے ہیں کبھی کبھی خواہش ہوتی ہے کہ مشاہدے اور تجربوں کو بیان کریں۔ لفظ جوڑ کر تحریر لکھنا یا بیان کرنا خاص صلاحیت کا متقاضی ہے۔ اس خاص صلاحیت کو جلا ملتی ہے مشاہدے، تجربوں اور مطالعے سے۔
’’من کی آواز‘‘ عزیزہ زہرا تنویر کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ زندگی کے دکھوں کی ترجمانی کرتے یہ افسانے اپنے قاری کو پہلی ابتدائی چند سطور سے ہی ایسی گرفت میں لیتے ہیں کہ آخری سطر کب کی ختم ہوچکی ہوتی ہے لیکن قاری کو لگتا ہے کہ وہ اس افسانے کا ایک ایسا کردار ہے جس نے کھلی آنکھوں سے سب دیکھا، محسوس کیا، کبھی مسکراہٹ چہرے پر بکھری اور کبھی آنسوئوں نے من تک کو بھگودیا۔
زہرا تنویر کا مطالعہ اچھا ہے۔ مشاہدہ یا پھر زندگی کی تلخ حقیقتوں کو سمجھنے کا شعور اور اردگرد کے لوگوں سے بہتر ہے
میری دانست میں وہ تینوں طرح کی دولت سے مالا ہے۔
اچھا اس نے اپنی تحریروں کو افسانوں کا نام دیا لیکن آپ جب اس کے لکھے افسانے پڑھیں گے تو ایسا لگے گا کہ یہ اپ بیتیاں ہیں۔
ان لوگوں کی جن سے سفرِ حیات کے کسی مرحلہ اور موڑ پر ہماری ملاقات ہوئی ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ کے ساتھ ہم گلی کی نکڑ تک گئے ہوتے ہیں۔ کچھ سے صحن میں بیٹھ کر مشاہدات شیئر کئے ہوتے ہیں اور کچھ کی کہانیوں میں خود ہمارا کردار بھی ہوتا ہے۔ وہ نہ بتاتے تو یہ کہانی مکمل ہی نہ ہوتی۔
’’سکول کی ایک لڑکی کہنے لگی میں اب حفظ کروں گی میرے اماں ابا کو بھی شوق ہے۔ قاری صاحب کہتے ہیں آپ کا سارا خاندان جنت میں جائے گا۔ میں اس کی باتیں سن کر حیرانی ہوئی اسے تو ڈھنگ سے پڑھنا بھی نہیں آتا اور سارے خاندان کے لئے جنت کا سامان کرے گی‘‘۔
’’وہ اپنے اس گھر کو ڈوبتے دل اور حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی جو کبھی اس کا نہیں تھا۔ وہ اس گھر میں ایک مسافر کی طرح آئیں اور ایک مسافر کی طرح چلی گئیں‘‘۔
بالائی سطور میں دو اقتباس دو الگ افسانوں کے ہیں۔ یقیناً اپنی مذہبی کتاب کی تعلیم ایک اچھی بات ہے لیکن کیا بندگی کے حقوق و فرائض ادا کئے بغیر صرف اپنے مذہب کی مقدس کتاب کی تعلیم جنت کی ضمانت بن جاتی ہے؟
یہ عمومی سوال نہیں لیکن ہم اس کا کیا کریں کہ جس ماحول میں ہم جی رہے ہیں یہاں سوال کرنے والے کو اولاً اولاً لوگ حیرانی سے دیکھتے ہیں کوئی فتویٰ نہ بھی لگائیں تو منہ پھٹ ہے کی پھبتی ضرور اچھال دیتے ہیں۔
من کی آواز‘
’’یہ تم کیا کررہی ہو۔ تم کپڑے سلائی کرو گی اور ردا اکیڈمی پڑھانے جاتی ہے، غضب خدا کا۔ کچھ تو اپنے خاندان کا خیال کرو۔ تم اچھی طرح جانتی ہو ہمارے خاندان میں کبھی کسی عورت نے کام نہیں کیا‘‘۔
جب کبھی اس طرح کی بات پڑھنے سننے کو ملتی ہے تو میرا دل کرتا ہے کہ پوچھوں کہ یہ جو پو پھٹنے سے قبل بیدار ہوکر رات کے پہلے پہر تک گھرداری کے نام پر مشقت کرتی عورت ہے اگر اس کے ہاتھ میں زندگی کا امتحانی پرچہ تھمادیا جائے تو وہ کیسے حل کرے گی ؟۔
علم اور محنت دونوں نعمت ہیں ایک سے بڑھ کر ایک نعمت۔ ہمارا اصل المیہ یہی ہے کہ بوسیدہ ریت روایات کو گلے سے لگائے خود تو جی ہی رہے ہیں چاہتے یہ ہیں کہ اگلی نسلیں بھی ہماری طرح لکیر کی فقیر ہوں۔
زہرا تنویر کے افسانوں میں زندگی کی تلخ ترین حقیقتوں کی کمال ہنرمندی سے نہ صرف نشاندہی کی گئی ہے بلکہ ان تلخیوں سے فرد۔ گھر اور خاندان کو کس طرح محفوظ رکھا جاسکتا ہے اس بارے بھی کمال مہارت سے رہنمائی موجود ہے۔
’’من کی آواز‘‘ کا مسودہ عزیزہ زہرا تنویر نے جب مجھے بھیجا کہ اس پر کچھ لکھ دوں تو ان دنوں میں دوسرے دوستوں کے ساتھ ’’بدلتا زمانہ‘‘ کی اشاعت کے آغاز کے لئے مصروف تھا۔ کچھ ہفتوں بعد اس نے پیغام بھجوایا، مسودہ پڑھ چکے ہوں تو فلیپ لکھ دیجئے۔ اس بار بھی مجھ سے کوتاہی ہوئی کچھ دیر نکال کر چند سطور رقم کی جاسکتی تھیں۔
پھر کتاب شائع ہوگئی تو عزیزہ نے کتاب بھجوادی۔ ’’من کی آواز‘‘ کی تحریریں دو بار پڑھیں پہلی بار جب مسودہ ملا تھا اور اب جب کتاب موصول ہوئی۔
لفظوں کی بنت کا سلیقہ اور کہانی کو آگے بڑھانے کا فن دونوں خوب ہیں۔ الفاظ سادہ یعنی عام بول چال کے ہیں اردو معلیٰ نہیں۔ اسی طرح ہر افسانہ آغاز کی چند سطور سے اختتام تک پڑھنے والے کو سطر سطر ساتھ لے کر چلتا ہے۔ ایسا لگتا ہے سارے کردار یہیں کہیں تھے۔
آدمی حیران ہوکر دیکھتا ہے اور سوچتا ہے لوگ کدھر گئے میں اکیلا کیوں رہ گیا۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ ’’من کی آواز‘‘ اردو ادب میں ایک اچھا اضافہ ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر