مئی 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے ||ملک سراج احمد

2005 میں جنرل مشرف کے دور میں قرض حدود ایکٹ منظور ہوا جس کے تحت قرض سے جی ڈی پی تناسب آئندہ دو مالی سالوں میں 60 فیصد اور اس سے اگلے پانچ سالوں میں 50 فیصد تک لایا جانا تھا

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انقلابی شاعر حبیب جالب نے کہاتھا کہ وہی حالات ہیں فقیروں کے ، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے اور وزیراعظم کی کابینہ کی حالیہ تبدیلیوں کو دیکھتے ہوے یقین ہوگیا ہے کہ دن پھرے ہیں تو فقط وزیروں کے وگرنہ عوام کی معاشی حالت کو بہتر کرنے کے وعدے کے ساتھ برسراقتدار آنے والی تبدیلی سرکار عوام کی معاشی حالت تو بہتر نہیں کرسکی البتہ چوتھی بار وزیرخزانہ تبدیل کرلیا ہے۔مختلف وزرا کے قلمدان تبدیل کردئیے گئے ہیں۔مقام حیرت ہے کہ جووزیر با تدبیر ایک وزارت پر کارکردگی نہیں دکھا سکا وہ دوسری وزارت میں کیا جوہر دکھائے گا۔وزیراعظم محض قلمدان ہی کیوں تبدیل کررہے ہیں وزیر ہی کیوں نہیں بدل لیتےکہ کچھ بہتری ہوجائے۔مگر شائد یہ بھی بے سود ہی ہوگا کہ وزیرخزانہ تو تین بار تبدیل ہوچکا اب چوتھے کی باری ہے دیکھتے ہیں کہ ان کی معاشی پالیسیوں کے طفیل غریب عوام پر من وسلویٰ کب اترنا شروع ہوتا ہے۔
فی الوقت تو صورتحال یہ ہے کہ موجودہ سرکار کی معاشی پالیسیوں کی بدولت جہاں مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے وہاں پر غربت میں بھی شدت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے ۔عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق پاکستانی معیشت کی شرح نمو 3۔1فیصد رہے گی۔یہ شرح نمو بذات خود معاشی بحران کی نشاندہی کررہی ہے اور ستم یہ کہ اتنی کم شرح نمو کے باوجود افراط زر دس فیصد تک پہنچ چکا ہے۔اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہے ۔صرف چینی اور آٹے کی قیمتوں میں 100فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتی اعدادوشمار سے قطع نظر حقیقی افراط زر کی شرح دس فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس معاشی بحران کا زمہ دار صرف عمران خان ہے یا ماضی کے حکمران بھی قصوروار ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اب تک جتنے حکمران تخت نشین رہے سب کے سب قصور وار ہیں کسی کا قصور کم تو کسی کا زیادہ مگر بری الذمہ کوئی نہیں ہے ۔رہی بات عمران خان کی تو وہ قرض لے کر گنہگار نہیں ہوا بلکہ اس کا قصورتو وہ جھوٹی امیدیں اور خواب تھے جو اس نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عوام کو دکھائے۔معاشی حالت کی بہتری کے دعوے کرنے والا اور بہترین معاشی ماہرین کی ٹیم کے ساتھ اقتدار سنبھالنے والے کی حالت یہ ہے کہ تین سالوں میں چوتھا وزیرخزانہ لے کر آیا ہے اور المیہ یہ کہ ملک کے معاشی حالات پھر بھی بہتر نہیں ہونے اور نا ہی عوام کی معاشی حالت ٹھیک ہوگی
2005 میں جنرل مشرف کے دور میں قرض حدود ایکٹ منظور ہوا جس کے تحت قرض سے جی ڈی پی تناسب آئندہ دو مالی سالوں میں 60 فیصد اور اس سے اگلے پانچ سالوں میں 50 فیصد تک لایا جانا تھا۔تاہم پیپلزپارٹی کے 2008 کے دور میں ہمارے مجموعی قرض سے جی ڈی پی کا تناسب کم وبیش 66فیصد رہا جو ن لیگ کے 2013 کے دور میں بڑھ کر 73 فیصد تک ہوگیا۔اور عمران خان کی حکومت میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارا قرض ملکی مجموعی پیداوار جی ڈی پی سے بڑھ گیا اور 107 فیصد تک پہنچ گیاہے۔اور اس کے باجود ہم اب بھی مزید قرض لینے کے لیے تیار ہیں۔
جبکہ آئی ایم ایف سے حالیہ چھ ارب ڈالر کے قرض کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے حکومت سبسڈی کو مسلسل ختم کررہی ہے ۔ٹیکس ہدف کو پورا کرنے کے لیے پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کررہی ہے اور یہ اضافہ آئندہ مالی سال بھی جاری رہے گا۔رواں بجٹ میں حکومت نے ٹٰیکس آمدن کا ہدف 4963رکھا تھا اور اس کی امید کی جارہی ہے کہ یہ ہدف شائد حاصل نا ہوسکے جبکہ نئے مالی سال کا ٹیکس ہدف چھ ہزار روپے رکھنے کا اندازہ کیا جارہا ہے اور یقینی بات ہے کہ اس ہدف کے حصول کے لیے نئے مالی سال میں بے تحاشہ بالواسطہ اور بالا واسطہ نئے ٹیکس لگائے جائیں گے۔جس سے مہنگائی کا ایک طوفان آجائے گا۔
ہماری بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمارا بجٹ بنانے کا طریقہ ہی الٹا ہے ۔دنیا بھر میں آمدن کو مدنظر رکھ کر اخراجات کا تعین کیا جاتا ہے اور ہم اخراجات کا تعین پہلے کرلیتے ہیں اس کے بعد آمدن پر توجہ دیتے ہیں اور چونکہ آمدن توقع سے کم ہوتی ہے تو ہر سال اخراجات کو پورا کرنے کے لیے پھر کسی عالمی مالیاتی ادارے کے دروازے پراس نعرے کے باوجود کہ قرض نہیں لوں گا پھر بھی کشکول لیئے کھڑے ہوتے ہیں۔
حکومت کو سوچنا پڑے گا کہ کورونا کے سبب پیدا ہونے والے معاشی بحران کے باعث کم وبیش دو کروڑ سے زائد لوگ بے روزگارہوے ہیں اور یہ لوگ مزید نئے ٹیکس ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔معاشی ترقی کا پہیہ سست ہوچکا ہے عام آدمی بنیادی ضروریات زندگی کو بمشکل پورا کرپارہا ہے۔بے روزگاری کے عفریت نے انسانی زندگیوں کو نگلنا شروع کردیا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ ان حالات میں عوام کو ریلیف دینے پر توجہ دے نا کہ مزید ٹیکس لگانے پر۔
رہی بات میری سادہ دل عوام کی تو میرے عزیز ہم وطنو بے فکر ہوجاو نئے مالی سال میں بھی تمہارے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہونےو الے۔یہی تنگ دستی ، مہنگائی ، غربت اوربے روزگاری تمہارا مقدر رہے گی۔تمام تر حکومتی دعووں کے باوجود تم اسی طرح بنیادی ضروریات زندگی کو ترستے رہوگے۔ادویات مہنگی ہونے کے سبب قابل علاج بیماریوں سے بھی زندگی کی بازی ہارتے رہو گے۔زرعی ملک ہونے کے باوجود آٹا اورچینی تمہیں سستے داموں دستیاب نہیں ہوگی۔گلہ پھاڑ کر زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگانے والویاد رکھو حبیب جالب نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ سازشیں ہیں وہی خلاف عوام ، مشورے ہیں وہی مشیروں کے اور بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی ، وہی دن رات ہیں اسیروں کے۔لہذا نا تمہارے دن بدلنے ہیں اور نا ہی راتیں بدلیں گی۔اگر دن بدلیں گے تو فقط وزیروں کے بدلیں گے اور کچھ کے تو آٹا ، چینی اسکینڈل کے بعد بدل بھی چکے ہیں

براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

%d bloggers like this: