نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ اسماعیل خان کی قسمت||گلزار احمد

۔اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود گراوںڈ واٹر ہی زھریلا ھو گیا۔آج شھری جو نلکے کا پانی پیتے تھے وہ چالیس روپے گیلن خرید کر پانی پیتے ہیں

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیرہ اسماعیل خان ایسا خوبصورت اور اللہ کی نعمتوں سے سرفراز شھر ھے کی صرف اس ڈویژن میں غلہ اُگا کر پورے پاکستان کی غذائی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔۔لیکن اس شھر کی ترقی میں یہ شعر رکاوٹ بنا ہوا ہے۔۔۔۔؎
اچھی صورت بھی کیا بُری شے ھے ۔۔۔
جس نے ڈالی بُری نظر ڈالی۔۔۔۔
اب اگر آپ شھر کا محل وقوع دیکھیں تو یہ شھر ایک دائرے کی شکل میں پانی سے گھرا ھوا ھے۔ شھر کے مشرق میں دریا سندھ جسے شیر دریا کہتے ہیں بہ رہا ھے۔ مغرب کی طرف چشمہ نہر ھے جو چشمہ بیراج سے تونسہ تک 220 میل نصف دائرے کی شکل میں بہتی ھے۔ اس کے علاوہ رود کوہی کا پانی کوہ سلیمان کے پہاڑوں سے ہر سال ہمارے ضلع سے گزرتا ہوا دریاے سندھ جا گرتا ھے۔ گومل زام بھی تعمیر ھو چکا ھے۔ سو کلومیٹر کے مختصر فاصلے پر پانچ شوگر ملیں موجود ہیں ۔۔یہ سب وسائل ایسے ہیں کہ جن سے وافر مقدار میں بجلی پیدا کی جا سکتی ھے۔آجکل ایسے چھوٹے جنریٹر ایجاد ھو گئے ہیں کہ وہ ندی نالوں میں رکھ دئیے جائیں تو بجلی پیدا کرتے ہیں ۔ایسے جنریٹر اگر چشمہ نہر اور دریا کے مختلف مقامات پر نصب کر دئے جائیں تو ھزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کر کے براے نام نرخ پر شھر کو بلا تعطل چوبیس گھنٹے مہیا کی جا سکتی تھی۔ شوگر ملوں سے علیحدہ بجلی پیدا ہو رہی ھے۔۔۔ مگر ہمیں جامشورو۔کوٹ ادو وغیرہ سے تیل والے انجن چلا کر آٹھ آنے یونٹ والی بجلی مہنگے داموں مہیا کی جاتی ھے وہ بھی آٹھ گھنٹے۔ ہر ماہ بجلی کے نرخ بڑھاۓ جاتے ہیں لیکن ان سے بھی پرائیویٹ پروڈیوسر کا پیٹ نہیں بھرتا پھر آۓ روز جرمانہ ٹھوک دیا جاتا ھے۔ بجلی نے ہمارے شھر کو سومالیہ بنا کے رکھ دیا۔ آج گھر گھر کمپوٹر کے ڈھیر لگے ہوۓ ہیں مگر واپڈا کا بل بنانے اور درست کرنے والا کمپوٹر بنوں میں لگا ہوا ھے پچھلے 72 سال سے ہم کمپوٹر ڈیرہ نہ لا سکے۔۔ ابھی میں نے آپ کو وافر پانی کی دستیابی کی بات کی لیکن ہمارے دامان کے بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں لوگ مویشیوں سمیت جوہڑ سے پانی پیتے۔۔ہم انگریزی میں ایک نظم پڑھتے تھے جو کہتی تھی۔۔۔
Water water everywhere not a drop to drink.
ہمارا واٹر سپلائی محکمہ ستر سال سے پینے کا صاف پانی مہیا کرنے میں ناکام رہا۔اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود گراوںڈ واٹر ہی زھریلا ھو گیا۔آج شھری جو نلکے کا پانی پیتے تھے وہ چالیس روپے گیلن خرید کر پانی پیتے ہیں۔۔ہمارے ہاں زراعت کے درجنوں محکمے کام کر رھے ہیں مگر ہم سبزیاں انڈیا ۔چین سے منگوا رھے ہیں۔۔دنیا میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار پچاس من ہو تو ہماری پانچ من نکلتی ھے یہی حال دوسرے اجناس اور پھلوں کا ھے۔۔ جب پشاور سے ڈیرہ اور کراچی تک انڈس ہائی وے دریا سندھ کے مغربی کنارے پر بنائی گئی تو یہ ایک alternative defence روڈ بھی تھی۔۔۔ مگر کابل جانے والے نیٹو کے کنٹینرز نے اس سڑک کا بھرکس نکال کے رکھ دیا۔ قرضے پاکستانی قوم اتار رہی استعمال نیٹو کر رہا ھے اور اب اسے موہنجوداڑو بنا کے امریکہ ہمیں کہتا ھے پاکستان نے کوئی مدد نہیں کی۔ امریکہ سے کوئی پوچھے کہ دنیا کا غریب ترین ملک افغانستان پر حملہ کرنے کا مشورہ کس لقمان حکیم نے دیا تھا؟ اسامہ کا نام استعمال کر کے پاکستان اور افغانستان کے لاکھوں لوگ مار ڈالے۔۔۔ڈیرہ پھلاں دا سہرا دھشت گردی اور فرقہ واریت کے لپیٹ میں یوں آیا کہ آج تک اس کے بھیانک ساۓ کبھی یہاں کبھی وہاں نظر آتے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان اپنی روائیتی زراعت اور مال مویشیوں کے پالنے کی وجہ سے صوبے کا ٹاپ ڈویژن تھا مگر اس پر ساری توجہ کاغذوں اور کمیشن وصول کرنے تک محدود رہی۔ پاکستان دودھ کی پیداوار میں دنیا کا تیسرا بڑا ملک ھے۔ مگر ہم نے ڈیری فارمنگ میں کیا کیا؟ ہم دودھ کی پیداوار میں انڈیا سے پیچھے ہیں۔۔ تھوڑا عرصہ پہلے تک انڈیا میں ایک گاۓ 1200 لیٹر دودھ دیتی تھی لیکن انہوں نے جدید ٹکنالوجی اپنا کر اپنی پیداوار تین ھزار لیٹر تک بڑھا لی۔آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ایک گاۓ 5000لیٹر دودھ دیتی ھے جبکہ ہماری پاکستانی گاۓ صرف 1000لیٹر دودھ دیتی۔آپ اندازہ لگائیں اس وقت ہم جتنا دودھ پیدا کر رھے ہیں اس کی مالیت 1700 بلین روپے ھے اگر ہم جدید ٹکنالوجی اپنا لیں تو ہماری آمدنی 8500 بلین روپے بیٹھے بٹھاۓ ہو جائیگی۔دوسری طرف ہمارا حال یہ ھے کہ مویشیوں کی تعداد 64% پنجاب میں اور 26%سندھ میں ۔خیبر پختونخواہ تو صرف سات فیصد اور بلوچستان تین فیصد مویشی پالتا ھے۔ڈیرہ میں لوگ مویشی پالتے ہیں لیکن دودھ 1/5 وصول ہوتا ھے۔اس جہالت کی وجہ ہم خود تو ہیں ہی مگر حکومت جان بوجھ کر پیداواری منصوبے چھوڑ کر میٹرو۔اورنج ٹرینیں.Brt بناتی رہتی ھے جبکہ غریب کا ریلوے تباہ کر دیا گیا۔۔۔۔ آج پتہ نہیں منیر نیازی کے شعر کیوں یاد آرھے ہیں ایک تو یہ ھے۔
سَپاں وَانگوں شُوگدے دشمن چاروں پاسے۔۔۔
فیر وی میرے بُلاں اُتے سجے ہوۓ نے ہاسے۔۔۔

About The Author