نومبر 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قرضے، نوٹس اور کورونا||حیدر جاوید سید

جناب وزیراعظم کہتے ہیں ''قرضے چڑھ چکے عوام کیلئے پیسے کم بچتے ہیں، قانون کی بالادستی کیلئے تاریخی جنگ لڑ رہا ہوں، حالات بہت مشکل ہیں، مستحق افراد کی دہلیز پر کھانہ پہنچایا جائے گا، اس سے برکت آئے گی''

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جناب وزیراعظم کہتے ہیں ”قرضے چڑھ چکے عوام کیلئے پیسے کم بچتے ہیں، قانون کی بالادستی کیلئے تاریخی جنگ لڑ رہا ہوں، حالات بہت مشکل ہیں، مستحق افراد کی دہلیز پر کھانہ پہنچایا جائے گا، اس سے برکت آئے گی”
قرضے ہر حکومت لیتی ہے، سابقین نے بھی لئے، موجودہ حکومت بھی لے رہی ہے، وزیراعظم خود بتا چکے ہیں
”40ہزار ارب قرضہ تھا، 20ہزار ارب ادا کیا، اب بھی 35ہزار ارب باقی ہے”
یہ حساب کتاب کا گورکھ دھندہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ فقیر راحموں سے کہا بھی تھا ہم ریاضی میں کمزور رہے ہمیشہ، حساب سمجھا دو۔ جواب ملا مجھ سے تو مرشد بھلے شاہ اور سرمد شہید کے اشعار سُن لو خالی خولی اشعار سے پیٹ کہاں بھرتا ہے۔
بھوکے سے کسی نے پوچھا تھا دو اور دو کتنے ہوں گے، جواب ملا چار روٹیاں۔ روٹیوں پر یاد آیا، گزشتہ روز لاہور فیصل آباد میں موبائل لنگر کا وزیراعلیٰ نے افتتاح کرایا ہے، حکومت کے بس میں یہی ہے۔
کیا حکومتوں کا کام خیراتی کھانا کھلانہ ہے یا روزگار کے نئے ذرائع پیدا کرنا تاکہ کچلے ہوئے طبقات اپنے پیروں پر کھڑے ہوں، کمائیں اور کھائیں، ساتھ آگے بڑھنے کی جدوجہد کریں؟
دنیا بھر کی حکومتیں اپنے لوگوں کو باوقار زندگی فراہم کرنے کیلئے حکمت عملی وضع کرتی ہیں، پھر اپنے دوراقتدار میں اس پر سنجیدگی سے عمل۔
ہمارے حکمران کیا کرتے ہیں، ان کی ترجیحات سے اندازہ لگا لیجئے۔
ساڑھے چار دہائیوں سے قلم مزدوری کرتے ہوئے چار اور کے حالات کا بخوبی مشاہدہ کرتا آیا ہوں۔ کبھی کبھی حیرانی ہوتی ہے کہ ہمارے اہل اقتدار کی ترجیحات کیا ہیں، کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ۔
اس کڑوے سچ کو اہل اقتدار نظرانداز کرتے ہیں کہ غربت مایوسی اور مایوسی انتہاپسندی کو جنم دیتی ہے۔ اُمید کی شمعیں روشن رکھنا صاحبان اقتدار کی ذمہ داری ہے لیکن گھر پیر کا ہے چراغوں سے روشن، غریبوں کو تو میسر ہی نہیں مٹی کا دیا بھی۔ (شاعر سے تحریف پر معذرت)
جناب عمران خان کو اقتدار میں آئے اڑھائی سال سے کچھ اوپر عرصہ ہوگیا، اب بھی وہ اپنی حکومت کی کارکردگی بتانے کی بجائے خوفزدہ کرنے والے بیانات ہی دیتے ہیں۔
”کچھ عرصہ قبل ایک ذمہ دار شخصیت سے تحریر نویس نے سوال کیا! کیا جتنے بیرونی واندرونی قرضے لئے گئے یہ سب لوٹ مار کی بھینٹ چڑھے؟
بولے! نہیں کچھ کام بھی ہوئے۔
عرض کیا! کیا سارے قرضے ترقیاتی مدوں پر صرف ہوئے؟
وہ خاموش رہے، اصرار پر صرف اتنا کہا، مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ کہہ سکوں کہ قرضے کن کن مدوں پر صرف ہوئے۔
کونسی کونسی مدوں کے اخراجات میں کٹوتی کی ضرورت ہے۔ معاف کیجئے گا جانتے بوجھتے ہوئے ہم بھی اس موضوع پر مزید کچھ عرض کرنے سے قاصر ہیں۔
اتوار کو کراچی کے بلاول ہاؤس میں پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس تھا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ بلاول بھٹو نے پی ڈی ایم کا شوکاز نوٹس پھاڑ کے پھینک دیا۔ ان کا مؤقف ہے کہ کسی کے ماتحت ہیں ناملازم، سیاسی عمل میں شریک ہیں۔
پی ڈی ایم سیاسی اتحاد ہے ایک پارٹی کا ایجنڈا مسلط نہیں کیا جانا چاہئے۔ بلاول کے عمل اور جواب پر متوالے بھڑکے ہوئے ہیں، دور دور کی کوڑیاں لارہے ہیں، احسن اقبال فرماتے ہیں ”بلاول نے پی ڈی ایم سے اپنے اتحاد کو ریزہ ریزہ کردیا”
احسن اقبال کی خیر ہو، ویسے کیا انہوں نے اس تحفظ کی وضاحت کردی ہے کہ وہ اس پانچ کے گروپ میں شامل ہیں جنہوں نے پی ڈی ایم کے اُمیدوار یوسف رضا گیلانی سینیٹر بننے کیلئے ووٹ نہیں دیا تھا؟
پیپلزپارٹی کو استعفے نہ دینے کا طعنہ دینے والے پیپلزپارٹی کی ہی تحریک پر ضمنی الیکشن لڑ اور جیت رہے ہیں۔ پھر بھی کوسنے اور الزامات پیپلز پارٹی کیلئے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ عشروں کی نفرت شب بھر میں محبت میں تبدیل نہیں ہوسکتی، اس کے باوجود یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ نفرتوں اور الزامات کی سیاست نے جو دن دکھائے وہ دن دوبارہ نہ دیکھنا پڑیں تو یہ سب کیلئے بہتر ہوگا۔
سیاسی عمل میں ساتھ نہ چل سکنے والوں کیلئے احسن ترین عمل یہ ہے کہ الگ ہو کر اپنی فہم کے مطابق جدوجہد کریں۔
رہے قبلہ گاہی شاہد خاقان عباسی تو وہ خود یہ فرما چکے ہیں کہ ”مریم نواز کے بیانات کی کوئی حیثیت نہیں”
دونوں ایک ہی جماعت کے سینئر نائب صدر اور نائب صدر ہیں۔ مریم نواز البتہ میاں نوازشریف کی صاحبزادی ہیں، وہ اپنے والد کے سیاسی مؤقف کی ترجمان اور جانشین سمجھی جاتی ہیں، اس طور شاہد خاقان عباسی کا بیان بس بڑھک ہی ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ اتوار 11اپریل کا دن کورونا کی تیسری لہر کا خوفناک ترین دن رہا، 114افراد کورونا سے جاں بحق ہوگئے۔ متاثرتین کی تعداد 74ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، صورتحال خاصی تشویشناک ہے۔ بہت مناسب ہوگا کہ عوام الناس اپنی اپنی بساط کے مطابق کورونا سے بچاؤ کیلئے ان احتیاطی تدابیر پر عمل کریں جن کا اعلان این سی او سی کی جانب سے کیا جاتا ہے یا پھر طبی ماہرین کے مشورہ پر عمل کریں۔ جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، این سی او سی کی طرف سے رمضان المبارک کیلئے ایس او پیز کا اعلان کردیا گیا ہوگا، براہ کرم ان پر عمل کیجئے گا جان ہے تو جہان ہے۔

یہ  بھی پڑھیں:

About The Author