حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزاحمت اور قربانیوں کی طویل تاریخ رکھنے والی اے این پی کو پچھلے چند دنوں سے اسٹیبلمنٹ کی ٹاوٹ اور مفاد پرست جماعت کہا لکھا جارہا ہے۔ الزامات کی دھول اڑانے میں سول سپرمیسی لیگ اور قبلہ حضرت مولانا فضل الرحمن کے عقیدت مندان شامل ہیں۔
پی ڈی ایم میں اب بس محبانِ جاتی امراء رہ گئے ہیں پیپلزپارٹی صلاح مشوروں میں مصروف ہے۔ چند دن میں اس کا فیصلہ سامنے آجائے گا۔
امیر حیدر ہوتی درست کہتے ہیں
’’سیاسی اتحاد مساوی بنیادوں پر بنتے ہیں ‘‘
مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی اتحاد بناتے وقت بڑی پارٹیاں کہلانے والی جماعتوں کے قائدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کہا بولا حرفِ آخر ہوگا۔
کس میں مجال ہے ’’دم مارے‘‘۔ اے این پی نے پی ڈی ایم سے الگ ہونے کا فیصلہ بروقت اور درست کیا۔ اے این پی اور پیپلزپارٹی کو شوکاز نوٹس ایسے دیئے گئے جیسے اتفاق گروپ آف کمپنیز کے شعبوں کے سربراہوں کو دیئے گئے ہوں۔
ایک جھوٹ نبھانے کےلئے پنجابی میڈیا اور مجاہدین سول سپر میسی کے ذریعے جو فضا بنادی گئی اس کے بعد یہی ہونا تھا جو ہوا۔
کچھ سوالات اے این پی نے بھی اٹھائے ہیں۔ تقریباً یہی سوال پچھلے دنوں اپنے پڑھنے والوں کے سامنے ان سطور میں رکھتا رہا۔ سول سپر میسی والے دوستوں نے برا منایا۔ میں سمجھ نہیں پایا کہ ایک لاکھ نوے ہزار دانشور، صحافی، تجزیہ کار اور 27کروڑ پاکستانی جس جماعت کے بیانیہ کے ساتھ کھڑے ہوں وہ ایک قلم مزدور کے سوالات پر خفا کیوں ہوئی۔
اعدادوشمار کے ساتھ تفصیلات لکھی تھیں۔ صحافی دستیاب معلومات سے ہی خبر تجزیہ اور کالم حروف جوڑ کر لکھتے ہیں۔
اب اے این پی پوچھ رہی ہے کہ امجد آفریدی کو سینیٹ کے لئے پختونخوا سے امیدوار کس نے بنایا تھا۔
قبل ازیں میں نے سوال کیا تھا جب فرحت اللہ بابر پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار تھے تو تحریک انصاف کو عددی اکثریت سے خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی ایک ایک نشست زائد کیوں ملی؟
کیا نون لیگ اور جے یو آئی نے کوئی تحقیقاتی کمیٹیاں بنائیں کہ پتہ چلتا کہ ان کے کن کن ارکان نے پی ڈی ایم کے طے شدہ فارمولے سے ہٹ کر ووٹ دیئے؟
معاف کیجئے گا سیاست میں مقدسات نہیں ہوتے۔
یہ بدقسمتی ہی ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں اپنی پالیسیوں، معاملات اور فیصلوں پر اٹھائے جانے اولے سوالات کو توہین قرار دیتی ہیں یہ رویہ درست نہیں۔
اب سیاسی جماعتیں کہلانے والی جماعتوں کے لوگ بھی خودکو اوتار سمجھنے لگے ہیں۔
ہم آگے بڑھنے سے قبل دو سوالوں پر غور کرلیتے ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ جے یو آئی (ف) کے آزادی مارچ کے دھرنے کے دوران مولانا فضل الرحمن نے چودھری برادران کے ہمراہ ریاست کی اہم ترین شخصیت سے ملاقات کی تھی۔
کیا مولانا فضل الرحمن تنہا گئے تھے ملاقات کے لئے یا پارٹی وفد بھی ہمراہ تھا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ کس شخصیت کی قیام گاہ تھی جس پر عشائیہ کے دوران نون لیگ، پی ٹی آئی اور ق لیگ کے درمیان پنجاب سے بلامقابلہ سینیٹرز منتخب کروانے کا فارمولہ طے پایا تھا؟
دونوں سوال الزام ہرگز نہیں صاف سامنے کی حقیقت ہیں۔ چلیں میں تینوں جماعتوں کی ایک ایک شخصیت کا نام لکھ دیتا ہوں باقی افراد (عشائیہ میں شریک) کے نام ان جماعتوں کے قائدین بتادیں۔
نون لیگ کی جانب سے شاہد خاقان عباسی تھے۔ پی ٹی آئی کی نمائندگی گورنر پنجاب چودھری سرور نے کی (ان کی شرکت کا سیاسی اور قانونی وا خلاقی جواز نہیں تھا) ق لیگ کے چودھری پرویزالٰہی موجود تھے۔
کیا نون لیگ نے پی ڈی ایم کو اس فیصلے پر اعتماد میں لیا؟ مروجہ سیاست بے رحم چیز ہے کیونکہ یہ نظریاتی نہیں بلکہ شخصیات اور خاندانوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے ہے۔
ہماری صحافت کا بھی یہ المیہ بنتا جارہا ہے کہ میڈیا منیجروں نے تجزیہ کاروں کی جگہ سنبھال لی ہے یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے چند سابق عسکری نابغے دانشور بن کر ٹی وی چینلوں پر جلوہ افروز ہوتے ہیں اور داخلہ و خارجہ امور کے ساتھ ملکی سیاست اور تاریخ پر علم بھورتے ہیں۔
معاف کیجئے کالم میں کچھ تلخی در آئی باردیگر اس کے لئے معذرت خواہ ہوں لیکن کیا بے اصولی کو اصولی اور بیانیہ ثابت کرتے سیاپہ فروشوں کے پروپیگنڈے کے جواب میں خاموش رہا جائے؟
کم از کم میرا جواب یہ ہے کہ عوام کو حقیقت حال جاننے کا حق ہے۔ پی ڈی ایم کے لانگ مارچ سے قبل اسمبلیوں سے استعفے دینے کی جلدی تھی، کہا گیا
’’جو استعفے نہیں دے گا وہ غدار ہے‘‘ اب اس غداری کے الزام کی زد میں پوری پی ڈی ایم آچکی مگر ہر طرف خاموشی ہے کسی نے استعفے نہیں دیئے۔
مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز بیمار ہیں دونوں کو اللہ صحت دے دونوں کو ہی یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اے این پی اور پیپلزپارٹی نے جوابی طور پر الزامات کی ’’جگالی‘‘ نہیں کی وجہ یہی ہے کہ سیاسی اتحاد تدبر سے چلتے آگے بڑھتے ہیں، حاکمانہ ذہنیت سے بالکل نہیں۔
پاکستانی سیاست کا حال عجیب ہے۔ نون لیگ کی ایک رکن اسمبلی نے بلاول مریم ملاقات پر ٹیوٹ کی ’’شریکاں نوں اگ لگ گئی‘‘۔ اختلاف کے عبوری موسم میں ان کا ٹیوٹر زہر اگل رہا ہے۔
ڈھیر سارے قصے اور کہانیاں ہیں لکھنے کو لیکن فائدہ کوئی نہیں۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ اب بدتمیزی کو سیاست کی معراج سمجھ لیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم بکھرنے کو ہے کیونکہ خود مریم نواز اپنی حالیہ خاموشی سے قبل یہ کہہ چکی ہیں کہ تحریک چلانے کےلئے نون لیگ اور جے یو آئی بہت ہیں، ست بسم اللہ، تحریک کب چلے گی؟
ایک سادہ سوال ہے وہ یہ کہ آخر نون لیگ اور جے یو آئی پی پی پی سے سندھ اسمبلی خالی کروانے پر بضد کیوں تھے، کیا کہیں کسی سطح پر معاملات طے پاچکے تھے؟ یہی کہ اٹھارہویں ترمیم کے راستے کی رکاوٹ دور کرائیں اور پھلیں پھولیں؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر