اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بارے دبنگ فیصلہ||سارہ شمشاد

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی رپورٹ کے مطابق رواں برس کے دوران پاکستان میں بیروزگاری مزید بڑھے گی۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس ملک میں بیروزگاری کی شرح ساڑھے 4فیصد تھی،
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم عمران خان کو دورہ لاہور کے موقع پر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو مکمل طور پر فعال کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم عمران خان جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو مکمل طور پر فعال کرنے کی ہدایت خوش آئند ہے کہ چلو دیر سے ہی سہی، لُولے لنگڑے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا خیال تو آیا۔ یہاں روزنامہ بدلتا زمانہ کو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا مقدمہ جرات مندانہ انداز میں لڑنے پر مبارکباد پیش کی جانی چاہیے جس نے اس خطے کی بھرپور انداز میں نمائندگی کرکے خود کو جنوبی پنجاب کا ترجمان اخبار ثابت کیا۔ادھر یہ امر بھی قابل تحسین ہے کہ ’’بدلتا زمانہ‘‘ کی قیادت کو اچھی طرح علم ہے کہ ابھی جنوبی پنجاب صوبے کی جدوجہد کے حوالے سے ایک طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔اگرچہ وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت جنوبی پنجاب اجلاس کے حوالے سے جو اندرونی کہانی سامنے آئی ہے اس میں ملتان کے سپوت احمد حسن ڈیہڑ نے کھل کر جنوبی پنجاب سے وفاداری نبھاتے ہوئے وزیراعظم پر واضح کیا ہے کہ اگر اب بھی جنوبی پنجاب کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ نہ روکا گیا تو آئندہ الیکشن میں جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کلین سویپ ہوجائے گا جس کے بعد وزیراعظم نے ازخود جنوبی پنجاب سول سیکرٹریٹ کے معاملے کو خود دیکھنے کی یقین دہانی کروائی۔ تاہم حکومت پر لازم ہے کہ وہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے حوالے سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے اصل کرداروں کو سامنے لائے کیونکہ اگر آج بھی حسب روایت مٹی پائو کی حکمت عملی پر عمل کیا گیا تو معاملات مستقبل میں مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
اگرچہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے حوالے سے بیوروکریسی نے کوئی پہلی مرتبہ رکاوٹیں نہیں کھڑی کیں بلکہ پہلے بھی اس قسم کی غیرذمہ دارانہ کارروائیاں دیکھنے میں آچکی ہیں۔ تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ پنجاب حکومت نے روزنامہ بدلتا زمانہ میں بیوروکریسی کے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی تعمیر میں روڑے اٹکانے کی خبر کا نوٹس لیتے ہوئے فی الفور 70کروڑ روپے جاری کرنے کے ساتھ سیکرٹریٹ کو چند کمروں تک محدود کرنے کی بجائے 5منزلہ مکمل عمارت بنانے کا حکم دیا ہے۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پنجاب کی بیوروکریسی کسی طور نہیں چاہے گی کہ اس کے اختیارات تقسیم ہوں اسی لئے تو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے خلاف سازشوں کا ایک لامتناہی اس کے اعلان کے بعد سے ہی سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم نے اجلاس میں منہ زور بیوروکریسی کو لگام ڈالنے کی ہدایت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر اب بیوروکریسی نے اس حوالے سے کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو افسران معطل نہیں فارغ ہوں گے۔ وزیراعظم کے اس بڑے اعلان سے جنوبی پنجاب کے باسیوں کو امید ہوئی ہے لیکن اس کو کیا کہا جائے کہ ماضی میں کئی مرتبہ حکومت کو بیوروکریسی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے تھے اس لئے بہتر ہوگا کہ حکومت بیوروکریسی کے ’’بابوئوں‘‘ کو باور کروائے کہ وہ سرکاری نوکر ہیں اور عوام کے ٹیکسوں سے ان کو تنخواہیں ملتی ہیں۔ ان کی واحد ذمہ داری آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی ہونی چاہیے۔
ایک طرف تو تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے جنوبی پنجاب کی عوام کے ساتھ آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ روا رکھا گیا ہے جسے ابھی تک یہاں کے عوام نے دل سے قبول نہیں کیا مگر بیوروکریسی کی چالاکیوں اور ہٹ دھرمی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام میںاصل رکاوٹ بیوروکریسی ہی ہے جس کی ایک بڑی اور معقول وجہ تو یہ سمجھ
آتی ہے کہ بیوروکریسی میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو ن لیگ کی حکومت میں لگائے گئے تھے۔ مسلم لیگ ن چونکہ شروع سے ہی جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے خلاف تھی اسی لئے تو بیوروکریسی بھی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادارہوئے۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی تعمیر میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ ادھر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ وہ 7اہم محکمے جنہیں لاہور منتقل کردیا گیا تھا ان کو دوبارہ تاحال واپس نہیں کیا گیا ظاہر ہے کہ جب داخلہ اور خزانے جیسے اہم محکمے اپر پنجاب ہوں گے تو اس سے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو ہمیشہ تخت لاہور کا ہی دست نگر رہنا پڑے گا۔
جنوبی پنجاب کے عوام ایک آزاد اور خودمختار صوبے کے خواہاں ہیںاور ایسا صرف اسی صورت ممکن ہے کہ جب مکمل طور پر فعال سیکرٹریٹ کے قیام کی طرف توجہ دی جائے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے نمبرز گیم پورے نہ ہونے کو صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام میں بڑی رکاوٹ قرار دیا جاتا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ جس طرح دیگر بل اسمبلیوں اور سینٹ سے پاس کروائے جاسکتے ہیںجوعوامی مفاد کا یہ مطالبہ اسی حکمت عملی کے تحت پورا کیونکر نہیں کروایا جاسکتا۔ وزیراعظم کے سامنے جس انداز میں جنوبی پنجاب کے نمائندے پھٹے ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ عمران خان کومعاملات کی سنگینی کا اچھی طرح ادراک ہے۔
جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی خالی اسامیوں کے حوالے سے بھی خبریں اخبارات کی زینت بن چکی ہیں کیونکہ جب تک سیکرٹریٹ کے معاملات کو چلانے کے لئے ملازمین ہی نہیں رکھے جائیں گے تو پھر دفتری معاملات کیسے آگے بڑھیں گے۔ جنوبی پنجاب کے عوام عرصہ دراز سے حکمرانوں سے اپنا جائز حق مانگ رہے ہیں لیکن افسوس کہ حکمران طبقہ اسے انہیں ان کا جائز حق بھیک میں دینے کے لئے بھی تیار نہیں۔ جنوبی پنجاب کا خطہ ہر لحاظ سے امیر ہے یہاں قدرتی وسائل کی بہتات ہے۔ زرعی علاقہ ہونے کے باعث یہ مجموعی ملکی آمدنی میں اپنا قابل ذکر کردار ادا کرتا ہے۔ 7 دہائیوں سے اس خطے کے وسائل پنجاب کے دیگر علاقوں پر خرچ ہوتے رہے ہیں اور آج جب اس خطے کا دانشور طبقہ اس علاقے کی محرومیوں کا واویلا چیخ چیخ کر ایوان بالا تک پہنچارہا ہے تو لرزتی ہوئی حکومت کو اسے اپنی خوش قسمتی تصور کرنا چاہیے اور اس خطے کو اس کا حق فی الفور دینے کی سبیل کرنی چاہیے وگرنہ جہانگیر ترین 40سے 50 قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کا سہارا لے کر حکومت کو کسی وقت بھی گراسکتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ وزیراعظم عمران خان کسی لگی لپٹی کے بغیر علیحدہ صوبے کے قیام کے حوالے سے آئینی اور قانونی موشگافیوں کے خاتمے کے لئے اپنی ٹیم کو ہدایت کریں تاکہ آئندہ الیکشن میں جنوبی پنجاب میں اپنی جیت پکی کرسکیں۔ ہم اس سطور کے ذریعے وزیراعظم عمران خان کو یہ تجویز دینا چاہیں گے کہ وہ رکن قومی اسمبلی اور جنوبی پنجاب کے اصل سپوت احمد حسین ڈیہڑ کی سربراہی میں جنوبی پنجاب صوبے کی تشکیل کے لئے فی الفور ایک کمیٹی تشکیل دیں جو ہفتہ وار رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرے تاکہ حکومت کے صوبہ جنوبی پنجاب پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کے تاثر کو تقویت مل سکے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: