نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیراعظم صاحب، عوام کو دیوار سے نہ لگائیں!!||سارہ شمشاد

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی رپورٹ کے مطابق رواں برس کے دوران پاکستان میں بیروزگاری مزید بڑھے گی۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس ملک میں بیروزگاری کی شرح ساڑھے 4فیصد تھی،
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی رپورٹ کے مطابق رواں برس کے دوران پاکستان میں بیروزگاری مزید بڑھے گی۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس ملک میں بیروزگاری کی شرح ساڑھے 4فیصد تھی، جو اب 5فیصد تک جانے کی پیشگوئی کی گئی ہے جبکہ رواں برس مہنگائی بھی 10فیصد سے زیادہ رہے گی۔ ادھر ایک تازہ خبر کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر 74پیسے کا مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پٹرول اور گیس کی قیمتوں کے ساتھ ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کے لئے بھی دبائو بڑی شدومد کے ساتھ پاکستان پر ڈالا جارہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا بدترین کورونا وبا کا شکار ہے ایسے میں آئی ایم ایف کی من چاہی خواہشات کا عالمی برادری کو نوٹس لینا چاہیے۔آئی ایم ایف کو پاکستانی حکومت سے مطالبہ کرتے وقت کم از کم بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے ہی سوچ لیناچاہیے مگر ایسا محسوس ہوتاہے کہ آئی ایم ایف پاکستانی عوام سے کوئی انتقام لے رہا ہے۔اسی لئے تو ٹیکس اور مہنگائی کا مزید بوجھ ڈال کر پاکستانی عوام سے زندہ رہنے کا خراج بھی لینے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ کورونا کو ایک برس سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے اور اس میں عوام کی قوت خرید میں نمایاں کمی دیکھنے میں آرہی ہے ایسے میں حکومت کی جانب سے عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری سے نجات دلانے کے لئے کسی قسم کا ریلیف فراہم نہ کیا جانا درحقیقت انہیں زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کورونا وبا سے کمزور مڈل کلاس طبقہ بالکل ہی پس کر رہ گیا ہے مگر افسوس حکومت نے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر بے یارومددگار چھوڑدیا ہے۔ بقول وزیراعظم سکون صرف قبر میں ہے، شاید اب حکومت عوام کو وہیں بھیجنے کی حکمت پر عمل پیرا ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم نامی اتحاد کو بھی عوام سے کوئی خاص دلچسپی نہیں لیکن ایک ایسے وقت میں جب عوام حکومتی جبرو اور ظلم کا شکار ہیں تو اپوزیشن کو اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہیے تھا مگر ہمارے ہاں ایسی شاندار جمہوری روایات کا چونکہ شروع سے ہی فقدان رہا ہے اسی لئے تو عوام نامی مخلوق کی ان کی نظر میں اب کوئی حقیقت ہی نہیں ۔
ادھر یہ امر باعث تشویش ہے کہ کورونا کیسز میں تشویشناک حد تک اضافے کے باوجود عوام احتیاط کرنے کو تیار ہی نہیں۔ عوام کا غیرسنجیدہ رویہ ملک کو مکمل لاک ڈائون کی طرف بڑی تیزی سے دھکیل رہا ہے جو ایک تباہ حال معیشت کے لئے کسی ایٹم بم سے کم نہ ہوگا۔ وزیراعظم کچھ روز قبل اس بات کا عندیہ دے چکے ہیں کہ اگر خدانخواستہ کورونا کیسز بڑھے تو پاکستان میں مکمل لا ڈائون کرنا پڑے گا۔ بحیثیت قوم ہم سب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر کورونا کیسز میں مزید اضافہ ہوا تو حکومت کے پاس لاک ڈائون کے سوا دوسرا کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا۔ ایسے میں وہ لوگ جن کے لئے اپنے بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی پورا کرنا بھی مشکل ہے وہ دیہاڑی دار طبقہ کس طرح اپنی گزربسر کرپائے گا۔ ایک سروے میں 73فیصد پاکستانیوں نے ملکی سمت غلط جبکہ 70فیصد نے ملکی حالات کو پریشان کن قرار دے دیا ہے۔ یہ
حقائق حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہونے چاہئیں کہ آئندہ الیکشن میں عوام اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنے میں آزاد ہونگے۔ اس سے پہلے کہ عوام کے ضبط کے بندھن ٹوٹ جائیں اور وہ حکومتی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر آئیں حکومت کو اپنی معاشی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لیناچاہیے مگر اس کو کیا کہا جائے کہ وہ حفیظ شیخ جن کے سینیٹ الیکشن ہارنے کے بعد خود وزیراعظم کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا پڑگیا تھا اب نیب زدہ شوکت ترین کو خزانے کا محکمہ سونپنے پر بضد ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ خزانہ کی وزارت کے لئے حکومت کی جانب سے ایک ٹاسک فورس بنانے پر غور کیا جارہا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ حکومت کو نیب زدہ افراد کے سوا کوئی دوسرا صاف شفاف اور قابل شخص اس اہم ترین منصب پر بٹھانے کے لئے مل ہی نہیں رہا۔ اب عقل کے اندھے کو بھی یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ نیب زدہ لوگ عوام کو کیا ریلیف فراہم کریں گے۔ اگرچہ عدالت کی جانب سے 80 روپے فی کلو چینی فراہم کرنے کا حکم جاری کردیا گیا ہے مگربازاروں میں چینی آج بھی 100روپے زائد فی کلومیں مل رہی ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز پر حکومت کی جانب سے عوام کو جو سبسڈی فراہم کی جارہی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔
رمضان کریم کی آمد آمد ہے، عرب ممالک سمیت یورپ میں بھی مسلمانوں کے لئے خصوصی پیکجز کا اعلان کیا گیا ہے مجال ہے ہماری حکومت نے ماہ صیام میں عوام کو زیادہ سے زیادہ فیوض و برکات سمیٹنے کے لئے کسی قسم کا کوئی ریلیف فراہم کرنے کی تیاریاں بھی کی ہوں۔وزیراعظم عمران خان سے عوام کو بہت امیدیں تھیں لیکن وہ بھی عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں اور اب ان کی تقاریر اور گفتگو میں بے بسی کا عنصر غالب آتا جارہا ہے جسے تجزیہ کار آئندہ الیکشن میں عمران خان کا نعرہ قرار دے رہے ہیں یعنی وہ آئندہ الیکشن میں کام نہیں کرنے دیا گیا نعرہ لگاکر ووٹ لیں گے۔ اگر ایسا ہے تو عمران خان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کی باشعور عوام کو اس قسم کی طفل تسلیوں سے اب مزید نہیں ٹرخایا جاسکتا کہ 2018ء کے عام انتخابات میں جو وعدے تحریک انصاف نے کئے تھے ان میں سے شاید ایک فیصد بھی حکومت کی جانب سے پورے نہیں کئے گئے اور اب جو انتخابی اصلاحات، پولیس کلچر بدلنے اور احتساب کا عمل تیز کرنے کے تندوتیز بیانات سننے کو مل رہے ہیں کیا حکومت اور اس کے وزراء یہ بتانے کی جسارت کریں گے کہ کیا خالی خولی بیانات سے عوام کا پیٹ بھر جائے گا۔ کیا یہ بجلی کے بل ادا کریں گے، وہ شخص جس نے ہر ماہ گھر کا کرایہ، بجلی کا بل ادا کرنا ہے، کیاوہ ان خوشنما نعروں کو سن کر نجات حاصل کرپائے گا تو اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب حکومت کی جانب سے صبح شام قیمتوں میں اضافے کے زہرآلود کلہاڑے مارے جانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو تو وزیراعظم اور ان کے بڑے مشیروں کو اپنے الفاظ کے چنائو میں انتہائی محتاط ہوجانا چاہیے کیونکہ زبان دراز وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج کے بیانات عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہیں۔ اب ذرا شاہ محمود قریشی یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ وہ اس ملک کے وزیر خارجہ ہیں جس کا بال بال قرض میں ڈوبا ہوا ہے لیکن وہ خود کو شاہی خاندان کے غالباً ولی عہد سمجھتے ہیں اسی لئے تو اپنی چھتری بھی خود نہیں اٹھاسکتے جس کے باعث عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے کہ غریب ترین ملک کا وزیر خارجہ اگر اپنی چھتری کا بوجھ نہیں اٹھاسکتا تو وہ 22کروڑ عوام کی امنگوں اور خواہش کی ترجمانی کیسے کرے گا۔ یاد رہے کہ روسی وزیرخارجہ نے اسلام آباد آمد کے موقع پر بارش کے موسم میں اپنی چھتری خود پکڑی۔
وزیراعظم عمران خان یہ قوم آپ کو نجات دہندہ سمجھتی ہے اس قوم پر رحم کھائیں ارو ان پر آئی ایم ایف کی من مانیوں کا مزید بوجھ مت ڈالیں بلکہ غریبوں کو روزگار کے مواقع فراہم کریں تاکہ وہ اپنے بچوں کے لئے باعزت طور پر روزی روٹی کا بندوبست کرسکیں۔ پچھلے سال تو حکومت کی جانب سے عوام کو بجلی کے بلوں اور کرایوں کی مد میں ریلیف فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور اب جبکہ عوام اپنی جمع پونجی ایک سال میں مکمل طورپر ختم کرچکے ہیں تو حکومت کو عوام پر مہنگائی کے کلہاڑے برسانے کی بجائے جس حد تک ممکن ہوسکے، انہیں ریلیف فراہم کرنے کی فی الفور سبیل کرے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author