اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حسن مرتضی

انا الحق مصلوب ہوا|| حسن مرتضی

قوم کی امنگوں کا ترجمان ذوالفقار علی بھٹو میدان میں آیا۔ اقتدار سنبھالتے ہی ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالا ہندوستان سے شملہ معاہدہ کرکے مذاکرات کی میز پر نوے ہزار فوجیوں سمیت مغربی پاکستان کا وہ تمام رقبہ واگزار کرایا جس پر ہندوستان قابض تھا۔ فوج کا مورال بلند کیا۔
حسن مرتضی
حسن مرتضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج چار اپریل کی خونی صبح ہے۔ جب وفاق پاکستان کا نصیب سامراجی طاقتوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں نے مصلوب کردیا۔
بڑھی ہوئی شیو ، بھوک ہڑتال سے شدید کمزور اور نحیف بھٹو ویسا بلکل نا تھا جو کبھی عوامی جلسوں میں ایک نعرہ لگا کر لاکھوں لوگوں کا لہو گرما دیتا تھا۔ مگر اس بھٹو میں فرق یہی ہے کہ وہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اعصاب کا مالک ہے اور کسی صورت بھی آمرانہ قوتوں کے آگے سر جھکانے کو تیار نہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چئیرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو جب ایوب خان کے اقتدار کو لات مار عوامی جدوجہد کے میدان میں اترے تو عوام نے انھیں سر آنکھوں پہ بٹھایا۔ پاکستان کے تمام کونوں سے دانشور ، شاعر ، طلبا ، مزدور ، کسان غرضیکہ کہ تمام طبقات نے بھٹو کی پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک بائیں بازو کی جماعت نے عوام کے دلوں میں اپنے عوامی سوشلسٹ منشور کے ذریعے اپنی جگہ بنائی۔ بھٹو چاہتا تو اپنے جاگیردارانہ پس منظر کے ساتھ ڈرائنگ روم کی سیاست کرکے مزے سے اقتدار حاصل کرتا اور ان طاقتوں کو خوش رکھتا جنھوں نے عوام کی گردن پر پاو¿ں رکھا ہوا تھا۔ مگر شاید تاریخ نے بھٹو کے نصیب میں کچھ اور ہی لکھ رکھا تھا۔
ایلیٹ کلاس کا جاگیردار ذوالفقار علی بھٹو اپنا عیش و آرام چھوڑ کر عوام کا بھٹو بن چکا ہے ، قریہ قریہ ، بستی بستی گھوم کر لوگوں کو اپنا پیغام پہنچا رہا ہے اور ان کو احساس دلا رہا ہے کہ اصل طاقت جمہور کی ہے۔ طاقت کا سرچشمہ صرف اور صرف عوام ہیں۔ سوشلزم ہی طبقاتی کشمکش میں پسے ہوئے طبقات کےلئے راہ نجات ہے۔
پھر یوں بھی ہوا کہ گلگت بلتستان کی برف پوش پہاڑیوں سے ٹھٹھہ میں سمندر کے ساتھ گلے ملتے ہوئے دریائے سندھ تک عوام نے بھٹو کی آواز پر لبیک کہا۔ یحییٰ خان نے پاکستان کی تاریخ کے پہلے انتخابات کرائے اور نتائج نے سامراج کی چیخیں نکلوا دیں۔ کیا مولوی ، کیا سردار ، کیا جاگیردار سب ہی پیپلز پارٹی کے آگے ڈھیر ہوگئے۔ عوام نے بھٹو کے غریب اور عوامی امیدواروں کو منتخب کیا۔ روایتی کٹھ پتلی سیاستدان جمہوری موت مرگئے۔
یحییٰ خان کی اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش اور مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن نے مشرقی پاکستانیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا جو پہلے ہی مغربی پاکستان کے آمرانہ رویے پر دلبرداشتہ تھے۔ مارشل لاءقیادت کی نااہلی اور افسر شاہی رویے نے معاملات اس حد تک خراب کردیے کہ عوامی لیگ نے بنگلہ دیش کا نعرہ لگایا اور پھر پاکستانی افواج کو ہتھیار ڈالنا پڑے۔
انتہائی مایوسی کی فضا میں ، جب بچے کھچے مغربی پاکستان کی سا لمیت بھی خطرے میں تھی اور 90 ہزار فوجی ہندوستان کی قید میں تھے۔ قوم کی امنگوں کا ترجمان ذوالفقار علی بھٹو میدان میں آیا۔ اقتدار سنبھالتے ہی ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالا ہندوستان سے شملہ معاہدہ کرکے مذاکرات کی میز پر نوے ہزار فوجیوں سمیت مغربی پاکستان کا وہ تمام رقبہ واگزار کرایا جس پر ہندوستان قابض تھا۔ فوج کا مورال بلند کیا۔
بھٹو مزدور اور کسان کا رہنما تھا۔ اس نے آتے ہی سوشلسٹ ریفارمز متعارف کرائیں۔ قومی دولت پر بائیس خاندانوں کا قبضہ ختم کیا۔ لینڈ ریفارمز کرکے زمینیں کسانوں میں تقسیم کیں۔ وفاقی اکائیوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی تعاون سے 1973 کا متفقہ آئین دیا۔ جو وفاق پاکستان کی ضمانت ہے۔ بے گھروں کو گھر ملے۔ اسٹیل ملز ، کامرہ کمپلیکس ، واہ آرڈینینس فیکٹری سمیت کئی انڈسٹریاں قائم کیں اور تمام صنعتوں کو قومی تحویل میں لے کر مستحکم کیا۔ دفاع کے لیے ایٹم بم بنانے کی پالیسی اور اس کےلیے لابنگ ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی دلچسپی سے ممکن ہوئی جس کا آجکل ہر کوئی اٹھ کر کریڈٹ لیتا ہے ۔
خارجہ امور ہمیشہ سے ذوالفقار علی بھٹو کے لیے سب سے فیورٹ تھے۔ انھوں نے اپنی کرشماتی شخصیت سے عالمی رہنماو¿ں کو اپنا ہمنوا بنایا۔ دنیا میں رائج سوویت یونین بلاک اور امریکن بلاک میں شمولیت کو رد کرتے ہوئے اسلامی ممالک اور تیسری دنیا کو متحد کرنے کا خاکہ پیش کیا اور اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی جس مشترکہ کرنسی اور اسلامی بینک کا تصور پیش کیا گیا جس سے سپرپاورز کی نیندیں حرام ہوگئیں۔
پھر عالمی منظر نامے میں تبدیلیاں ہونا شروع ہوئیں۔ بھٹو نے امریکی سامراج کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ اس لیے بھٹو کا وجود نا قابل برداشت ہوچکا تھا۔ ڈھکے چھپے الفاظ میں دھمکیاں ، تجارتی معاہدوں کی پیشکش بھی بھٹو کو اپنے عوامی رنگ اور پاکستان کی خدمت سے نا روک سکیں۔ پھر سازشوں کا جال بننا شروع کردیا گیا۔ پاکستان کے ریجیکٹ شدہ سیاسی ٹولے ، بکاو مذہبی ٹولے اور وہ سرمایہ دار جو بھٹو کی عوامی سوشلسٹ پالیسیوںکے سبب منہ کے بل گرچکے تھے اب ڈالروں کے بل پر کھڑے ہونا شروع ہوگئے ۔
بھان متی کا کنبہ جوڑ کر بھٹو کی عوامی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے میں لایا گیا۔ مگر عوام نے سامراجی ایجنٹوں کو الیکشن میں مات دے کر پھر سے بھٹو کو اپنا وزیراعظم منتخب کیا۔ مسترد شدہ سیاسی ٹولہ سامراج کی شہ پر نتائج ماننے سے انکاری ہوا اور حالات اس قدر کشیدہ کردیے گئے کہ مارشل لا کی راہ ہموار کی جائے۔
پانچ جولائی 1977کو جنرل ضیاالحق نے پاکستان کی عوامی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ یہیں سے اس کالی رات کا آغاز ہوا جس کی صبح شاید اگلے کئی سوسال تک نا ہو۔ بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا مقدمہ زندہ کیا گیا۔ من پسند اور متعصب ججوں پر مشتمل عدالت نے بھٹو کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے نا جانے دیا۔
سزائے موت ہوئی اور سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ مگر وہاں سے بھی بھٹو کو اختلافی فیصلے کے باوجود سزائے موت کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ عدالتی تاریخ کے متنازع ترین فیصلے پر عمل کرتے ہوئے بھٹو کو چار اپریل 1979 کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دی گئی۔ عوام کے قائد عوام کو اگر صرف پھانسی پر چڑھا دیا جاتا تو شاید اتنا دکھ نا ہوتا۔ مگر جنرل ضیا کے حکم پر بھٹو کے ختنے تک چیک کئے گئے اور فوٹوگرافس لے کر تصدیق کی گئی کہ بھٹو مسلمان ہے۔
آخری ملاقات میں بھٹو کی ”پنکی“ محترمہ بے نظیر روتی چیختی رہیں مگر قید خانے کا دروازہ چند سیکنڈز کےلئے بھی نا کھولا گیا کہ بیٹی اپنے باپ کو جی بھر کر گلے لگا لے۔ بھٹو کے ساتھ بیت الخلا میں بھی ایک سپاہی ساتھ بھیجا جاتا تھا جو نظر رکھتا تھا کہ بھٹو کہیں خود کو نقصان نا پہنچا لے۔ اس بے عزتی پر دلبرداشتہ ہوکر بھٹو نے کھانا پینا نہایت کم کردیا تاکہ بیت الخلا جانے کی ضرورت کم محسوس ہو۔
رات کو چھت پر فوجی بوٹوں کے ساتھ چھلانگیں لگاتے تھے کہ بھٹو چین سے نا سو سکے۔ مگر ان سب مظالم کے باوجود بھٹو صاحب نے جھکنے سے انکار کردیا انھوں نے واضح الفاظ میں فرمایا "میں تاریخ کے بجائے جرنیلوں کے ہاتھوں مرنا پسند کروں گا”
بھٹو کی شہادت کے بعد کارکنوں نے بھی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی وہ واحد پارٹی ہے جس کے کارکنان نے اذیتیں جھیلیں، پھانسی کے پھندے پر جھول گئے ، قتل ہوئے مگر جئے بھٹو کا نعرہ لگانا نہیں چھوڑا۔ پھانسی کے پھندے پر جھول کر امر ہونے والے ایاز سموں ، عثمان غنی اور رزاق جھرنا جمہوری تاریخ کے وہ ہیرے ہیں جو پیپلز پارٹی کے سوا اور کسی جماعت کے پاس نہیں۔
بھٹو اپنے قول کے مطابق جرنیلوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا مگر تاریخ میں ایسا امر ہوا کہ آج بھی سیاست کا محور و مرکز گڑھی خدا بخش میں بھٹو کا مزار ہے جہاں ملک بھر سے جیالے اپنے شہید بابا کو خراج عقیدت پیش کرنے آتے ہیں۔ بھٹو کی شہادت نے ایک لازوال ادبی تحریک تخلیق کی۔ سرائیکی شاعری میں عاشق بزدار، اشو لال، جہانگیر مخلص ،خلیل فریدی، اخلاق مزاری نے لازوال نوحے تخلیق کرکے اس کرب کو دردناک الفاظ میں سمو دیا۔ جو بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کا سرائیکی وسیب سے رومانس کا اظہار بھی ہے۔
بھٹو کی شہادت کے بعد ایک ایک کرکے بھٹو خاندان کا قتل کیا جاتا رہا۔ قاتل بھٹو کے قتل کی معافی کیا مانگتے الٹا قتل عام پر اتر آئے۔ گڑھی خدا بخش کا قبرستان پاکستان کے غریبوں محکوموں اور پسے ہوئے طبقات کی امیدوں کا مدفن بن چکا ہے۔ مگر ساتھ ساتھ ایک امید باقی بھی ہے کہ ابھی آصف علی زرداری میر کارواں ہے ابھی بلاول بھٹو نے اس قافلے کو منزل پر پہنچانے کا وعدہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا تین رنگوں والا خوبصورت پرچم ابھی جھکا نہیں۔
ہمیں امید ہے کہ ریاست پاکستان بھٹو شہید کے عدالتی قتل پر معافی مانگے گی۔ اور جمہوری روایات کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کو آزادانہ کام کرنے کی اجازت دے گی تاکہ وفاق پاکستان مضبوط ہو جس کےلئے بھٹو خاندان نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
چار اپریل دو ہزار اکیس پر جہانگیر مخلص کے اس شعر کے ساتھ اپنی تحریر کا اختتام کرتا ہوں
بھٹو دلاں دا وسدا روح دا رواج بنڑ گئے
اوکوں یاد کرکے روونڑ مخلص مزاج بنڑ گئے

%d bloggers like this: