اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سوشل میڈیا مضمرات : ’’مفت ویکسین ‘‘ || نصرت جاوید

مسئلہ میرے ساتھ مگر یہ ہوا کہ 31 مارچ کے دن چھپا کالم سینیٹر ولید اقبال نے بھی پڑھا تھا۔ علامہ اقبال کے پوتے نے وہ کالم اسد عمر اور ڈاکٹر فیصل سلطان کو Forward کردیا۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کئی مہینوں سے اس کالم کے باقاعدہ قارئین کی اکثریت اصرار کر رہی ہے کہ محض اخبارات کے لئے لکھنے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ زمانہ بدل چکا ہے۔ دورِ حاضر کا مؤثر ترین ذریعہ اظہار یوٹیوب ہے۔ مجھے اپنی کاہلی پر قابو پاتے ہوئے اس سے رجوع کرنا چاہیے۔ ذہن بنجر ہوا محسوس ہو رہا ہے تو کم از کم اخبار میں چھپے کالم کو اپنی تصویر اور آواز سمیت یوٹیوب چینل پر دہرادوں۔ یوں میرے خیالات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ جائیں گے۔ جی مگر اس جانب مائل ہی نہیں ہوا۔ یوٹیوب پر چھائے کئی افراد کو اس تناظر میں نہایت توجہ سے سننے کی عادت اپنائی تو دریافت یہ بھی ہوا کہ وہ ’’صحافت‘‘ نہیں کر رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں اس ہنر سے بے وفائی کی جرأت نہیں ہوئی۔

دورِ حاضر میں عقل سے قطعاََ محروم ہوا شخص ہی سوشل میڈیا کی اہمیت کا منکر ہوسکتا ہے۔ یہ حقیقت بھی تاہم بتدریج عیاں ہورہی ہے کہ اس کی بدولت اندھی نفرت و عقیدت شدید تر ہو رہی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں نسلوں سے جاگزیں تعصبات Fake News کے فروغ سے بالآخر ابتری اور خلفشار کے وہ مناظر دکھاتے ہیں جو اس برس کی 6 جنوری کے دن ’’دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت‘‘ یعنی امریکہ کے دارالحکومت میں نظر آئے تھے۔ منافرت پھیلانے کے الزام میں ٹرمپ جیسا بااثر شخص فیس بک اور ٹویٹر پر Ban ہوا۔ ماہرین نفسیات ٹھوس حقائق کے ذریعے فریاد کرنا شروع ہوگئے کہ اطمینانِ قلب کو یقینی بنانا ہے تو سوشل میڈیا سے رخصت لے کر اپنے اذہان کو Detox کرو۔

’’صحافت‘‘ کے چند اصول ہیں۔ انہیں صحافت کی اس صنف ہی نے ز ندہ رکھا ہوا ہے جسے Long Form Journalism کہا جاتا ہے۔ اخبارات اسی صنف کے طے شدہ قواعد کی پابندی کرتے ہیں۔ اخبارات پریس کے ذریعے شائع ہونے کے بعد آپ کے گھروں تک نہ بھیج پہنچیں تو سوشل میڈیا کے لئے بھی ان قواعد کے تحت ہوئی ’’صحافت‘‘ ہی مناسب انداز میں ’’خبر‘‘ فراہم کرسکتی ہے۔ روزمرہّ مسائل کی بابت سنجیدگی سے غور کو ایسے ہی اندازِ صحافت کے ذریعے ’’ہوا تجزیہ‘‘ راغب کرتا ہے۔

کم از کم دو برس سے میں فیس بک یا ٹویٹر پرکوئی شے پوسٹ کرنے سے گریز کرتا ہوں۔ فقط نوائے وقت اور The Nation میں چھپے کالم اپنے اکائونٹس پر ڈالنے پر اُکتفا کرتا ہوں۔ ہنر ابلاغ کا طالب علم ہوتے ہوئے مشاہدے کی عادت اپنا رکھی ہے۔ اسی باعث ایک ایسی App بھی استعمال کرتا ہوں جو ہر پیرکی صبح مجھے مطلع کردیتی ہے کہ گزرے ہفتے کے دوران ٹویٹر پر میرے Followers کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا۔ کتنے لوگوں نے Unfollow کرنے کو ترجیح دی۔ اس App کی بدولت جمع ہوئے اعداد و شمار پر غور کیا تو علم ہوا کہ فقط اپنے ہی لکھے اور اخبار میں چھپے کالم کو ٹویٹر پر پوسٹ کرنے کے باوجود اوسطاََ میرے Followers کی تعداد میں ہر ہفتے 250 سے زیادہ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار ایک حوالے سے ثابت کرتے ہیں کہ Long Form Journalism کے قواعد اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ مجھے کیمرے کے روبرو بیٹھ کر یاوہ گوئی میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ گوشے میں قفس والے آرام سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔

گوشہ تنہائی میں لکھے کالم سے ایک ذاتی فائدہ بھی ہوگیا۔ 31 مارچ کی صبح اُٹھ کر بہت مایوسی کے عالم میں اطلاع دی تھی کہ 27 فروری کے روز میری بیٹی نے میرے زیر استعمال فون نمبر استعمال کرتے ہوئے مجھے کرونا سے تحفظ کو یقینی بنانے والی ویکسین لگوانے کے لئے رجسٹر کروایا تھا۔ تقریباََ ایک ماہ گزرجانے کے باوجود مگر کسی نے مجھے مطلع نہیں کیا کہ میں کونسے سینٹر جاکر خود کو ٹیکہ لگوائوں۔

خود غرضی اس کالم کا حقیقی سبب نہیں تھی۔ بنیادی طور پر حیرت کا اظہار تھا۔مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسلام آباد جیسے ’’ماڈل شہر‘‘ میں ویکسین کی رجسٹریشن والا نظام اتنا مؤثر نظر کیوں نہیں آرہا جو لاہور اور کراچی میں شاندار حد تک کار فرما ہے۔ یہ کالم لکھنے کے بعد ذاتی طور پر میں کابینہ کے اجلاس کا منتظر تھا۔ امید تھی کہ وہ روس کی تیارکردہ ویکسین کو ہماری مارکیٹ میں لانے کی اجازت دے گی۔ متوقع اجازت اب مل چکی ہے۔ بارہ ہزار روپے خرچ کرو اور ویکسین لگوالو۔ اسلام آباد کے کئی Celebrity خواتین و حضرات یہ ویکسین لگواکر سوشل میڈیا کے ذریعے اب یہ پیغامات دے رہے ہیں کہ جو لوگ مطلوبہ رقم خرچ کرسکتے ہیں وہ روسی ویکسین سے استفادہ کریں۔ چین کی فراہم کردہ ویکسین جسے حکومتِ پاکستان نے بڑھتی عمر کے شہریوں کو بتدریج مگر مفت لگانا ہے اسے’’مستحق‘‘ افراد کے کام آنا چاہیے۔

مسئلہ میرے ساتھ مگر یہ ہوا کہ 31 مارچ کے دن چھپا کالم سینیٹر ولید اقبال نے بھی پڑھا تھا۔ علامہ اقبال کے پوتے نے وہ کالم اسد عمر اور ڈاکٹر فیصل سلطان کو Forward کردیا۔ یہ دونوں صاحبان کرونا سے نبردآزما ہونے والی سرکاری کاوشوں کے مدارالمہام ہیں۔ ولید اقبال کو اُمید تھی کہ ان تک پہنچائی میری روائیدد کارآمد ثابت ہوگی۔ حسین اتفاق یہ بھی ہوا کہ گزرے جمعہ کی شام مجھے ٹیلی فون کے ذریعے ایک پیغام بالآخر وصول ہوگیا۔ اس پیغام میں ایک کوڈ نمبر دیا گیا ہے۔ اپنے شناختی کارڈ کے ہمراہ اپنے قریبی ویکسین سینٹر پر جانے کے بعد یہ کوڈنمبر دکھاتے ہوئے میں خود کو کرونا سے تحفظ والی ویکسین لگواسکتا ہوں۔ میں نے ارادہ باندھا کہ پیر کے روز اس سہولت سے رجوع کیا جائے گا۔ پیر کی صبح اٹھا تو آئی ایس پی آر کے کرنل شفیق صاحب کی Missed Calls بھی آئی ہوئی تھیں۔ انہیں جوابی فون کیا تو نہایت دردمندی سے انہوں نے میرے لکھے کالم کا ذکر کیا۔ وہ عوا م کو ویکسین لگانے والے نظام پر بھی نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں خدشہ تھا کہ میں نے ٹیلی فون کے ذریعے رجسٹریشن کرواتے ہوئے عجلت میں تفصیلی معلومات فراہم نہیں کی ہوں گی۔ میں نے انہیں اطمینان دلایا کہ مجھے اب کوڈ نمبر مل چکا ہے اور پیر ہی کے دن اسے استعمال میں لانے کا ارادہ بھی باندھ رکھا ہے۔ ان کی اس ضمن میں فکر مندی کا تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کیا۔

اپنے ارادے کے باوجود تھوڑا احساس جرم اب یہ سوچتے ہوئے محسوس ہو رہا ہے کہ میں مفت ویکسین کا ’’مستحق‘‘ ہوں بھی یا نہیں۔ ایک حوالے سے سوچوں تو کئی برسوں سے باقاعدہ ٹیکس گزار ہوتے ہوئے ایک سینئر شہری کی حیثیت میں پنشن نما مالی معاونت کا مستحق نہ بھی ہوں تب بھی مفت ویکسین کا حقدار تو یقینا ہوں۔ معاشی اعتبار سے ان دنوں خود کو ’’خوش حال‘‘ طبقے میں اگرچہ شمار نہیں کرسکتا۔ ویکسین کی قیمت البتہ اب بھی ادا کرسکتا ہوں۔ ’’مفت خوری‘‘ یا ’’خیرات‘‘ سے اجتناب کیوں نہ برتا جائے۔ یہ خیال بھی لیکن پریشان کئے ہوئے ہے کہ ویکسین کے حوالے سے اپنی باری نہ آنے کا رونا روتے ہوئے میں نے جو کالم لکھا تھا اس نے سینیٹر ولید اقبال اور کرنل شفیق صاحب جیسے دردمند مہربانوں کو فکر مند بنا ڈالا۔ مفت ویکسین ہی سے لہٰذا رجوع کیا جائے۔ ویسے بھی یہ ویکسین ہمارے یار ’’جس پر جان بھی نثار ہے‘‘ یعنی عوامی جمہوریہ چین نے تیار کی ہے۔ نسبتاََ جواں سال Celebrity ہوتا تو بارہ ہزار روپے خرچ کرتے ہوئے روسی ویکسین لگواتا اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو تلقین کرتا کہ وہ مفت ویکسین والی سہولت ’’مستحق‘‘ افراد کے لئے بچالیں۔ عمر کے ساتھ نازل ہوئی گمنامی مگر اُکسارہی ہے کہ ’’مفت میں ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے؟‘‘۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: