نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ن لیگ کی سیاست پر سرداردوست محمد کھوسہ کا تبصرہ||ملک سراج احمد

ن لیگ سے سوال تو بنتا ہے کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت کو گرانا ہے تو پھر وہ پنجاب میں تبدیلی کے خلاف کیوں ہے۔سب جانتے ہیں کہ پنجاب کا ہاتھ سے نکنا عمران خان کے لیے ایک دھچکا ہوگا۔

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر گذرتے دن کے ساتھ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں میں فاصلے بڑھتے جارہے ہیں۔پی ڈی ایم اتحاد میں شامل دو سیاسی جماعتیں جو بنیادی طورپر لیفٹ کی سیاست کرتی ہیں عملی طورپر اس اتحاد سے الگ ہوچکی ہیں۔اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتیں یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنوانے پر خفا ہیں۔اور اسی لیئے طے ہوا ہے کہ پیپلزپارٹی اور اے این پی کو پی ڈی ایم کے فیصلوں کی مبینہ خلاف ورزی پر اظہار وجوہ کے نوٹس بھیجے جائیں۔یہ نوٹسز پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی اجازت سے جنرل سیکرٹری شاہد خاقان عباسی کی طرف سے اے این پی کے اسفند یار ولی اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بھیجے جائیں گے جس میں باپ پارٹی سے ووٹ لینے کا بھی سوال کیا جائے گا اور جواب کے لیے سات روز کا وقت دیا جائے گا۔
مطلب یہ کہ اب پی ڈی ایم آئندہ کی سیاست پیپلزپارٹی اور اے این پی کے بغیر ہی کرئے گی۔اور یہ بھی طے ہوگیا کہ پیپلزپارٹی اس سطح تک سیاسی معاملات نہیں لے کر جائے گی جہاں سے واپسی کا راستہ ممکن نا ہو جبکہ پی ڈی ایم میں شامل ن لیگ کشتیاں جلانے کو تیار ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ن لیگ واقعی کشتیاں جلانے کو تیار ہے اگر ہاں تو پھر ن لیگ کے اراکین اسمبلی کب تک اسمبلیوں سے مستعفی ہوجائیں گے ؟اور اگر مستعفی ہونے کے باوجود حکومت قائم رہتی ہے تو ن لیگ کا مستقبل کیا ہوگا شاید اسی غیر یقینی مستقبل سے متعلق ن لیگی قیادت اور منتخب نمائندے الجھن کا شکار ہیں
ن لیگ سے سوال تو بنتا ہے کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت کو گرانا ہے تو پھر وہ پنجاب میں تبدیلی کے خلاف کیوں ہے۔سب جانتے ہیں کہ پنجاب کا ہاتھ سے نکنا عمران خان کے لیے ایک دھچکا ہوگا۔اس کے باوجود ن لیگ پنجاب حکومت کو کیوں قائم رکھنا چاہتی ہے؟کیا اختلاف اور خوف صرف گجرات کے چوہدریوں سے ہے یا پھر اپنے گھر کے افراد سے بھی ہے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔ہرگذرتے دن کے ساتھ ن لیگ کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔اور ایسے میں حمزہ شہباز کی خاموشی اور شہبازشریف کی خاموش قید نے مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
ن لیگ کی سیاسی حکمت عملی سے متعلق پیپلزپارٹی کے رہنما اور ن لیگ کے ماضی کے وزیراعلیٰ پنجاب سردار دوست محمد خان کھوسہ سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے ن لیگ کی موجودہ سیاست پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کی سیاست مخمصے کا شکار ہے۔بنیادی طورپر ن لیگ بند گلی میں پہنچ چکی ہے ۔انہوں نے کہا کہ گوجرانوالہ کے جلسہ میں نوازشریف کی تقریر کے بعد سے اب تک ن لیگی قیادت نے جو پالیسی اپنائی ہے وہ ن لیگی منتخب اراکین اسمبلی کے لیئے پریشانی کا باعث ہے اور اب وہ اس پریشانی کا اظہار نجی محفلوں میں کھل کرکرنے لگے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ن لیگ فکری طورپر دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے ۔
ایک دھڑا سخت موقف کا حامی ہے اور میاں نوازشریف کے بیانیے کے ساتھ ہے جبکہ ن لیگ کی ایک واضح اکثریت محاز آرائی سے گریز کرتے ہوے درمیانی راستے کے انتخاب کی حامی ہے ۔تاہم شہبازشریف اور حمزہ شہباز کی خاموشی سے اس اکثریت کو پذیرائی نہیں مل رہی۔ان کے مطابق وہ بھلے نا بولیں مگر ان کی خاموشی کا مطلب یہ ہے کہ وہ کم سے کم میاں نوازشریف کے گوجرانوالہ کے بیانیے کے ساتھ نہیں ہیں وگرنہ اس کی حمایت میں ضرور بولتے۔
سردار دوست محمد خان کھوسہ کے مطابق فی الوقت ن میں سے ش نکلنے کا چانس نہیں ہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ن میں ووٹ نواز شریف کا ہے۔لیکن اگر شہبازشریف نے خاموشی توڑتے ہوے میاں نوازشریف کے بیانیے کی نفی کردی تو ہوسکتا ہے کہ وہ مستقبل میں مقتدر قوتوں کے لیے قابل قبول ہوجائیں۔تاہم ایسا ہوگا نہیں کیوں کہ اس سے قبل بھی شہبازشریف کو کئی مواقع ملے ہیں مگر انہوں نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جس کی وجہ سے ان پر اعتبار کرنا مشکل ہے۔تاہم پارٹی کے معتدل مزاج اراکین اسمبلی کی اکثریت چاہتی ہے کہ شہبازشریف اپنا سیاسی کردار ادا کریں
ان کے مطابق ن لیگ کا اسمبلیوں سے استعفوں سے گریز کا مطلب بھی یہی ہے کہ محترمہ مریم نواز کو پارٹی کے اندر دباو اور مشکلات کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج اگر ن لیگی قیادت مستعفی ہونے کا اعلان کرتی ہے تو ن لیگ میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوجائے گی۔اور ہوسکتا ہے کہ ن لیگ کے اندر فارورڈ بلاک بن جائے جس کے واضح امکانات نظر آرہے ہیں۔اس لیئے ن لیگی قیادت استعفوں کا آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کرکرئے گی۔
رہی بات آئندہ انتخابات میں پنجاب کی سیاسی صورتحال کی تو ان کے مطابق آئندہ عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں کا حجم مختلف ہوگا اور اگر ن لیگ کی پالیسی یہی رہی تو ہوسکتا ہے کہ ن لیگ کا سائز مزید کم ہوجائے اوریہ سکڑتے سکڑتے جی ٹی روڈ سے منسلک کچھ ڈویژن میں جزوی طورپر رہ جائے ۔ اس سے بہرحال ن لیگ اس حالت میں نہیں ہوگی کہ وہ اکیلے پنجاب میں حکومت بنا سکےاور پنجاب میں تحریک انصاف، ق لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت کوئی ایسی جماعت نہیں جو ن لیگ کی حالیہ پالیسی کے بعد ان کی اتحادی بن سکے ۔یہی وجہ ہے کہ ایک اندازہ کیا جارہا ہے کہ ن لیگ کے موجودہ اراکین اسمبلی کی اکثریت موجودہ حالات کے پیش نظر آئندہ عام انتخابات میں آزاد حیثیت میں حصہ لینے کو ترجیح دے گی۔
مندرجہ بالا گفتگو کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ن لیگ کے اندر میاں نوازشریف کے بیانیے کی حمایت آئے روز کم ہورہی ہےشاید اسی وجہ سے استعفوں کے آپشن کے استعمال میں مریم نواز کو مشکلات کاسامنا ہے۔اور پنجاب میں بزدار سرکار کے خلاف عدم اعتماد کی صورت میں پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کا خدشہ ہے۔لہذا ن لیگ کی سیاست فی الوقت مخمصے کا شکار ہے
تحریر: ملک سراج احمد
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

About The Author